پاکستان کے یوم دفاع کے موقعہ پربھار ت اور پاکستان دونوں ملکوں کی سرکار وں نے جو بیان دیے ہیں ‘مسئلہ کشمیر حل کرنے کیلئے ‘ دونوں کی کچھ باتیں ٹھیک اور کچھ غلط ۔جیسے نریندر مودی کا نواز شریف کو یہ لکھنا ٹھیک ہے کہ اپنے آپسی معاملے تبھی حل ہوں گے جب ہمارا ماحول دہشت گردی سے پاک ہوگا۔اور پاکستانی صدر ممنون حسین کا یہ کہنا کہ پاکستان بھارت سے دوستی چاہتا ہے اور سارے باہمی تعلقات مذاکرات سے حل ہونے چاہئے۔
یہ دونوں باتیں میٹھی میٹھی ہیں ،مگر بالکل بغیر کسی شکل کے ہیں ۔ان کا کوئی خاص مطلب نہیں ہے جبکہ دونوں طرفوں کی اور سے جو خاص باتیں کہی گئی ہیں ‘ان میں اڑیل پنا ہے ‘ایسا لگتا ہے کہ دونوں ملک اب بھی لکیر کے فقیر بنے ہوئے ہیں ۔ان میں کوئی نئی سوچ نہیں ہے ۔
پاکستانی صدر کا یہ کہنا کہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہونا چاہئے ‘کبھی کا خلاف موضوع ہو گیا ہے ۔اقوام متحدہ کے کئی سیکرٹری کہہ چکے ہیں کہ یہ تجویز اب ردی ہو چکی ہے ۔باسی پڑ چکی ہے ‘اب اس کی کوئی قیمت نہیں رہ گئی ہے ۔ممنون حسین صاحب سے میں کہوں گا کہ وہ خود اس تجویز کو پڑھنے کی زحمت اٹھائیں ۔اس کی خلاف ورزی خود پاکستان کر رہا ہے ۔پاکستان نے ابھی تک اپنے قبضے کے کشمیر سے نہ تو اپنے فوجی ہٹائے ہیں اور نہ ہی افسر۔اس کے بنا وہاں رائے شماری کیسے ہو سکتی ہے ؟اس کے علاوہ پاکستان کے کسی بھی وزیر اعظم نے آج تک یہ نہیں کہا کہ وہ کشمیریوں کو تیسرا آپشن (آزادی اور علیحدگی) دینے کو تیار ہے۔اس کے علاوہ میری دلیل یہ ہے کہ کشمیریوں کو رائے شماری کا حق دیا جائے توسارے پاکستانیوں کوکیوںنہ نہیں دیا جائے؟کیا انہوں نے ووٹ ڈال کر پاکستان بنایا ہے ؟جیسے مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیر بھارت کو دے دیا‘ویسے ہی انگریز نے مغربی بھارت کو کاٹ کرپاکستان بنا دیا ۔اسی لئے اب پاکستان کوپرانی لکیر چھوڑ کر وہی راستہ اپنانا چاہئے جو جنرل مشرف نے اپنایا تھا ۔مذاکرات کا!سمجھوتے کا۔بیچ راستہ کا۔
بھارت سرکار کے ترجمان کا یہ کہنا بھی عجیب سا ہے کہ مسئلہ کشمیر میں صرف دو فریق ہیں ۔بھارت اور پاکستان !یعنی کشمیر فقط زمین ہے ۔وہاں کوئی آدمی رہتے ہی نہیں ۔ان کی رائے جاننے کی کوئی ضرورت ہی نہیں ۔یہ رویہ غیر جمہوری ہے اور غیر انسانی ۔دونوں کشمیر کے لوگوں اور لیڈروں کو جب تک بات چیت میں نہیں جوڑیں گے ‘آپ تھُوک بلوتے رہ جائیں گے ۔اسی لئے میں کہتا ہوں کہ مسئلہ کشمیر کے حل میں دو نہیں ‘چار پارٹیاں ہیں ۔چاروں بیٹھیں ‘اور اپنے دماغ کا استعمال کریں تو حل کیوں نہیں نکلے گا؟
بھارت رتن مودی کی دریا دلی
اٹل جی تو بھارت رتن ہی تھے ۔آپ نے بھی مانا ‘یہ اچھا کیا۔کانگریس سرکار انہیں یہ عزت عطا کرتی تو اس کی عزت بھی بڑھتی لیکن کانگریس سرکار نے یہ موقع کھو دیا ۔بھارت رتن یا اس طرح کے اعزاز پتا نہیں کس کس کو کون کون دے دیتاہے ؟کئی بار دیکھا جاتا ہے کہ عزت دینے والوں اور لینے والوں کے لائق ہونے میں بھی گمان پیدا ہو جاتا ہے ۔لیکن جہاں تک اٹل بہاری واجپائی کا سوال ہے ۔ان کے مخالف بھی آج خو ش ہوں گے۔اٹل جی کی سب سے بڑی خوبی ہی یہ تھی کہ ان کے کوئی دشمن پیدا ہی نہیں ہوئے تھے ۔مرزا غالب کا وہ شعر مجھے اس موقع پر یاد آ رہا ہے ‘ جس میں انہوں نے اپنی معشوقہ کیلئے کہا تھا کہ 'تیرے ہونٹ کتنے میٹھے ہیں کہ تیری گالیاں کھا کر بھی تیرا دوسرا عاشق (رقیب) بے مزہ نہ ہوا ‘۔اب سے پچاس سال پہلے اٹل جی جب تقریر کرنے اندور آتے تھے تو کئی بڑے کانگریسی لیڈر اسٹیج کے آس پاس کسی گھر یادکان میں بیٹھ کر ان کے لفظوں کا رس لیا کرتے تھے ۔اسی لئے اٹل جی کو میں ملک کے عظیم تر تقریر کرنے والوں میں گنتا ہوں ۔انہوں نے ادب کے 9 رسوں میں دسواں رس جوڑ دیا۔گلہ جیسی زہریلی چیز کو بھی انہوں نے رسیلی بنا دیا۔
نریندر مودی کی سرکار انہیں یہ عزت نواز رہی ہے ‘ یہ عام واقعہ ہے ۔یہ اعزاز مودی کو میری‘نظر میں بہت اونچا اٹھا رہی ہے ۔ 2002 ء میں جب گجرات میں دنگے شروع ہوئے تو میں نے ٹی وی پر اور نو بھارت ٹائمز میں بھی ایک مضمون لکھا ‘جس میں میں نے لکھا کہ گجرات میں 'راج دھرم ‘ کی خلاف ورزی ہو رہی ہے ۔اٹل جی نے اس قول کو بار بار دہرا کر زندہ بنا دیا۔انہوں نے ایک دن صبح مجھے فون کیا کہ آج شام گووا میں پارٹی کا پروگرام ہے ۔آج مودی کو ہٹا دیں گے۔مودی کو وہ ہٹا نہیں سکے لیکن کیا مودی کو یہ بات پتا نہیں ہوگی ؟ضرور پتا ہے ،اس کے باوجود مودی نے اٹل جی کو بھارت رتن دے دیا ‘یہ اپنے آپ میں بہت بڑی بات ہے ۔ اٹل جی کے معاملے نے یہ اشارہ دیا کہ آخر مودی میں انسانیت ہے ‘بڑا پن ہے ‘ دریا دلی ہے ۔وہ اگر بدلہ لینا چاہتے تو کوئی بھی بہانہ بنا سکتے تھے ۔ اٹل جی نے آج بھارت رتن کو زیب بخشاہے ۔ اگر وہ وزیر اعظم نہیں بنتے تو بھی انہیں بھارت رتن ملنا ہی چاہئے تھا ‘ لیکن وہ ایسے پہلے وزیر اعظم ہیں ‘ جنہوں نے بھارتی خو دمختاری کا ساری دنیا میں ناقوس پھونکا ۔ بھارت کو جوہری طاقت بنا دیا ۔بھارت کی تاریخ میں ان کا نام سنہری الفاظ میں لکھا جائے گا۔
قریشی کی شرمناک برخاستگی
میزورم کے گورنر جناب عزیز قریشی کو جس طرح برخاست کیا گیا‘وہ ہماری سرکار ‘ہمارے صدر اور ہماری جمہوریت کی صحت پر سوالیہ نشان لگا رہا ہے ۔قریشی کو اگر صرف اس لئے برخاست کیا گیا ہے کہ وہ کانگریسی ہیں تو کیا کانگریسی ہونا ،غدار ہوناہے ؟اگر کانگریسی ہونا ہی برخاستگی کیلئے کافی ہے تو سب سے پہلے صدر پرناب مکھرجی کو برخاست کیا جانا چاہئے ۔ان سے بڑا کانگریسی کون ہے ؟ مجھے حیرانی تو خود پرناب مکھرجی پر ہے ۔انہوں نے قریشی کی برخاستگی کے کاغذ پر دستخط کیسے کر دیے ؟ کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت صدر کو اپنا دماغ استعمال کرنا چاہئے یا نہیں ؟ ملک یہ جاننا چاہتا ہے کہ گورنر قریشی کو صدر پرناب مکھرجی نے کس بنیا د پر برخاست کیاہے؟ اگر برخاستگی کی بنیا دیہ ہے کہ پچھلی سرکار نے انہیں تعینات کیا ہے ۔ تو پرناب مکھرجی بتائیں کہ کے کے پال ابھی تک گورنر کیسے بنے ہوئے ہیں ؟مکھرجی نے انہیں برخاست کیوں نہیں کیا؟مکھرجی پر کون سا دبائو کام کر رہا ہے ‘جس کے سبب ایک سابق پولیس افسرکو مودی سرکار برداشت کر رہی ہے ؟ میں پال اور نجیب جنگ کی قابلیت یا ایمانداری پر شک نہیں کر رہا ہوں ۔وہ اچھے افسر رہے ہیں لیکن عزیز قریشی کی قابلیت ‘صلاحیت اور ایمانداری میں کیا کوئی شک ہے ؟
میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ قریشی جیسا گورنر بھارت میں کوئی دوسرا نہیں ہے ؟ عزیز قریشی نے اتراکھنڈ کے گورنر کے طورپربھارت میں پہلا سنسکرت پروگرام بلوایا۔