چھ بڑی طاقتوں نے مل کر ایران کو تیار کر لیا ہے کہ وہ اپنا ایٹم بم بنانے کا پروگرام روک دے۔یہ معمولی بات نہیں۔ جرمنی کو چھوڑ کر پانچوں طاقتوں امریکہ ‘روس ‘برطانیہ ‘فرانس اور چین کے پاس ایٹم بم ہیں ۔وہ نہیں چاہتے کہ کسی اور ملک کے پاس ایٹم بم بنانے کی ٹیکنالوجی آ جائے لیکن پاکستان اور بھارت نے ان بڑی قوتوں کو غچہ دے دیا اور دونوں ملک جوہری طاقتیں بن گئے ۔پاکستان اور بھارت نے سی ٹی بی ٹی پر دستخط نہیں کئے تھے ‘ اس لیے یہ بڑی قوتیں اور ویانا کی ایٹمی ہتھیاروں کی نگرانی رکھنے والی ٹیم ان دونوں ملکوں پر لگام نہیں لگا سکی ۔
ایران نے سی ٹی بی ٹی پر دستخط کئے تھے‘اس لیے اس پر بڑی طاقتوں اور ویانا کی ٹیم نے نگرانی تیز کر دی ۔اس کے علاوہ اسرائیل اورامریکہ کی یہودی لابی کا بھی زبردست دباو ٔتھا۔ ایران پر لگائی گئی پابندیوں نے پچھلے دس بارہ سالوں میں اس کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی۔ اسے دنیا سے الگ کر دیا تھا۔ایران کے روحانی سربراہ علی خامنہ ای کی اس بات پر کوئی بھروسہ نہیں کرتا تھا کہ تباہ کن ہتھیار بنانا اسلام کے خلاف ہے‘ اس لیے بڑی طاقتوں نے ایران کے سامنے کافی سخت شرائط رکھ دی تھیں ۔خوش خبر ہے کہ ایران نے لگ بھگ سبھی شرائط مان لی ہیں۔ امسال 30 جون تک سمجھوتہ پر دستخط ہو جائیں گے ۔
اس سمجھوتہ کے مطابق ایران پر اب اپنے 19 ہزار سینٹری فیوجز میں سے صرف پانچ ہزار کا استعمال کرے گا ۔وہ اپنے دس ہزار کلو گرام یورینیم کے گودام میں سے صرف تین سو کلو اپنے پاس رکھے گا ۔اس کے علاوہ اس کے سبھی جوہری کاموں کی نگرانی ویانا کی ایٹمی ایجنسی کرے گی اور اس کی تنصیبات بڑی طاقتوں کی نگرانی کیلئے کھلی رہیں گی۔ اس کے سبب وہ جلدی سے یعنی چند ہفتوں میں بم نہیں بنا سکے گا ۔ایران چاہتا ہے کہ اب اس کا زیادہ امتحان نہ لیا جائے اور اس پر ساری پابندیاں ہٹا دی جائیں۔
اس سمجھوتے سے بھارت کو سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہو گا کہ اسے کافی مقدار میں تیل کم قیمت پر ملنے لگے گا ۔دو طرفہ تجارت بڑھے گی ۔ایران امریکہ تعلقات بہتر ہونے پر شام اور عراق کی سیاست پر سیدھا اثر پڑے گا ۔شیعہ ‘سنی تنازع کی شدت کم ہوجائے گی۔ اسرائیل کے غصے پر بھی لگام لگے گی۔پاکستان اور افغانستان میں ہونے والی دہشت گردی روکنے میں بھی مدد گار رہے گا۔بھارت کا پاکستان‘ افغانستان اور ایران کے ذریعے مغربی ممالک اور وسطی ایشیا پہنچناآسان ہو جائے گا ۔سارک میں شامل ہو کر ایران جنوب ایشیا اتحاد کے عمل کو تیز کروا سکتا ہے۔
کجری وال کو گُروبنائیں!
دلی کے وزیر اعلیٰ اروند کجری وال نے چھکا مار دیا ۔دلی کے اخباروں میںشائع یہ اشتہاربی جے پی کی بنگلور کانفرنس کی ساری تجویزوں پر بھاری پڑگیا کہ ''آج سے دلی میں رشوت خوری بند ‘‘!شام کو جب دلی والوں کے ایک بڑے جلسے میں اس تجویز کااروند نے اعلان کیا تو وہ منظر دیکھنے لائق تھا۔ رشوت خور پولیس والوں ‘افسروں اور لیڈروں کو بھی پکڑوانے کیلئے اروند نے تکنیک کا سہارا لیاہے ۔انہوں نے ہرباشندے کو کہا ہے کہ جوبھی رشوت مانگے ‘اسے دو‘منع مت کرولیکن اس کی بات اپنے موبائل پر ٹیپ کر لواور 1031 نمبر ڈائل کرکے اس پر بھیج دو۔اس رشوت خور کو پکڑ لیا جائے گا۔کوئی وزیراعلیٰ‘نائب وزیر اعلیٰ اور وزیر بھی نہیں بخشا جائے گا ۔اروند کا یہ کہنا بڑا کرشماتی رہا کہ اگر وہ خود بھی رشوت مانگے تو آپ انہیں بھی پکڑو ا سکتے ہیں۔
مرکز کی سرکار پہلے سے ڈری ہوئی تھی۔اسے پتا تھا کہ عآپ سرکار مرکز کے ملازموں پر بھی ہاتھ ڈالے گی۔ اس نے بد عنوانی کے خلاف شعبہACB) ( کے دائرے سے وفاقی سرکار کے ملازمین ‘ دلی کے افسروں اورپولیس کو باہر کر لیا ہے ۔پچھلے اکیس سال سے وہ سب اس دائرے میں تھے ۔اب دلی سرکار اور وفاق میں ٹکر ہوگی ۔ دلی میں رہنے والے وزیر اعظم ‘وفاقی وزراء اور سیاسی لوگ بھی اس دائرے میں کیوں نہ لائے جائیں؟کیا کوئی بھی لیڈر رشوت خوری بنا سیاست کر سکتا ہے ؟رشوت تو ہماری سیاست کی آکسیجن ہے۔
یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ دلی رشوت خوری سے پاک ہو جائے گی جیسے یہ کہنا کہ بھارت کانگریس سے آزاد ہو جائے گا۔جب لینے والا دینے والا‘دونوں ہی راضی تو کیا کرے گا قاضی؟کجری وال کے اس پینترے سے صرف وہ رشوت رکے گی ‘جو زبردستی لی جاتی ہے‘لیکن پھر بھی لوگوں کو بڑی راحت ملے گی۔رشوت مانگنے والے کی ہڈیاں تھر تھرائیں گی۔دلی کی اس تجویز کو پورے ملک میں کیوں نافذ نہیں کیا جاتاہے ؟وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی کے سارے وزرائے اعلیٰ کو چاہئے کہ وہ اروند کجری وال کو اپنا گرو مانیں ۔سیاست میں آئے ابھی اسے دو سال بھی نہیں ہوئے ہیں ۔یہ دوسال کا بچہ ساٹھ سال کے بوڑھوں کی انگلی پکڑ کر انہیں چلنا سکھا رہا ہے ۔
جُگ جگ جیو جسٹس جیا پال!
پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کے جج ایم جیا پال نے غضب کیا۔وہ صبح گھومنے نکلے تھے کہ انہوں نے دیکھا کہ ایک لڑکی سکھنا جھیل میںبس ڈوبنے والی ہے ۔کنارے کھڑے لوگ چلا رہے ہیں لیکن کوئی کچھ نہیں کر رہا ہے ۔جج صاحب نے آئو دیکھا نہ تائو ! کپڑے پہنے ہوئے ہی جھیل میں کو دپڑے ‘اس لڑکی کو بچانے۔جج صاحب کو کودتے دیکھ کر ان کے ذاتی محافظ یشپال نے بھی چھلانگ لگا دی ۔ڈوبتی ہوئی لڑکی کو پکڑ لیالیکن جج صاحب نے دیکھا کہ لڑکی اور یش پال دونوں ہی ڈوبنے لگے ۔وہ دم پھولنے کے باوجود تیزی سے تیر کران کے پاس چلے گئے ۔
یشپال کی ہمت بڑھی اور وہ ایک جھٹکے سے اوپر آگیا۔لڑکی نے اسے کس کر پکڑ رکھا تھا۔تینوں بڑی مشکل سے پانی کے باہر آئے ۔ لڑکی آدھی بے ہوش تھی ۔اسے الٹا لٹاکراس کے پیٹ سے پانی نکالا گیااور پھرہسپتال میں بھرتی کروایا دیاگیا۔جج اور یشپال نے اپنی جان داؤ پر لگا کر ایک بچی کی جان بچائی۔
اس بچی نے اس لیے جھیل میں چھلانگ لگا دی تھی کہ اس کا والداسے آگے نہیں پڑھانا چاہتا تھا۔اس نے نویں پاس کر لی تھی ۔ اس کا والدچندی گڑھ میں رکشہ چلاتا ہے ۔جسٹس جیا پال جیسے کتنے جج ‘کتنے سیاستدان ‘لیڈر ‘کتنے پروفیسر ‘کتنے ڈاکٹر ‘کتنے صحافی اس ملک میں ہیں ‘جوایک انجان لڑکی کو بچانے کے لیے اپنی جان دائو پر لگا دیںگے؟ان کے محافظ کا نام تو سرکاری انعام کے لیے سجھا دیا گیا ہے لیکن جسٹس جیا پال تو ملکی اعزاز کے حقدار ہیں ۔ جیاپال جیسے لوگ ملک ہی نہیں انسانیت کی بھی زیب ہیں ۔ ہمارے ملک کے ٹی وی چینل اور اخبار ٹٹ پونجیے لیڈروں اور فلمی ستاروں کے لیے اپنا وقت مقام برباد کرتے رہتے ہیں ۔ان کی زندگی سے کسی کو کوئی نصیحت نہیں ملتی لیکن جیاپال جیسے عجیب انسان کی شہرت کی کہانی کو حاشیہ میں ڈال دیتے ہیں ۔جیا پال جیسے سچے انسان کو کسی انعام یا اعزازکی ضرورت نہیں ہے ۔انعام اور اعزازپانے والے لوگ اپنی جان داو ٔ پر نہیں لگاتے ۔دنیا انہی کو یاد کرتی ہے جنہیں صرف اپنے فرض کی پروا ہوتی ہے ۔نہ جان کی ‘ نہ شان کی ‘نہ انعام کی ‘نہ اعزاز کی اور نہ ہی بے عزتی کی !