"DVP" (space) message & send to 7575

بھارت: شیوسینا اور مسلمان

شیوسینا کے خاص اخبار 'سامنا‘ میں اس کے ایک رکن پارلیمنٹ کا لیکھ چھپا ہے۔ وہ محض جلد بازی میںدیا گیابیان نہیں‘ بلکہ ایک ایسی تحریر ہے کہ اس میں جو کچھ بھی کہا گیا ہے ‘وہ سوچ سمجھ کر کہا گیا ہے۔ اس مضمون میں کہا گیا ہے کہ کئی لیڈر اور پارٹیاں مسلمانوں کو ووٹ بینک کی طرح استعمال کرتے ہیں اور مسلمان سمجھتے ہیں کہ اسی میں ان کا بھلا ہے لیکن وہ ہر بار ٹھگے جاتے ہیں ۔پہلے کانگریس انہیں ٹھگتی تھی اور اب اویسی جیسے لیڈر ان کو ٹھگ رہے ہیں ۔اگر یہی چلتا رہا تو بھارت کے مسلمان کبھی ترقی نہیں کر پائیں گے ۔یہاں تک تو اس شیوسینا رکن پارلیمنٹ کی بات ٹھیک بھی لگتی ہے لیکن اس کے آگے انہوں نے جو لکھا ہے ‘اسے مسلمان تو کیا‘ بھارت کا ہر باشندہ بھی رد کر دے گا ۔اتنی ردی بات آج کے بھارت میں کوئی لیڈر سوچ بھی سکتا ہے ‘اس پر سب کو حیرانی ہوگی ۔
انہوں نے لکھا ہے کہ مسلمانوں سے ووٹ کا حق چھین لینا چاہئے‘ تاکہ ووٹ بینک کی طرح ان کا استعمال اپنے آپ ہی بند ہو جائے۔ یہ دلیل ویسی ہی ہے ‘جیسے کوئی یہ کہے کہ آپ کو زکام ہو گیا ہے تو اس کا علاج یہی ہے کہ ناک کاٹ دی جائے ۔آپ کس کس کی ناک کاٹیں گے؟کس کس ذات کا استعمال ووٹ بینک کی طرح نہیں ہوتا ؟بھارت کا کون سا علاقہ ہے ‘جس میں ہزاروں لاکھوں ووٹ ذات ‘مذہب اور علاقہ وغیرہ کے نام پر آنکھ بند کر کے نہیں ڈالے جاتے ہیں ؟اسی گناہ کے سبب آپ کو ملک کے زیادہ تر ووٹروں کو ووٹ کے حق سے محروم کرنا پڑے گا ۔کیا آپ اس کے لیے تیار ہیں ؟اگر نہیں تو صرف مسلمانوں پر آپ اتنے مہربان کیوں ہو رہے ہیں؟ شاید اس لیے کہ شیوسینا کو بنانے والے بال ٹھاکرے نے بھی ایسی ہی مانگ اٹھائی تھی ۔
مسلمانوں کو ووٹ کے حق سے محروم کرنے کی مانگ غیر آئینی تو ہے ہی ‘وہ یہ بھی بتاتی ہے کہ آپ بزدل ہیں۔آپ نے اپنی ہار مان لی ہے ۔آپ نے ووٹ بینک کی سیاست کے آگے گھٹنے ٹیک دیے ہیں ۔آپ کو اپنے آپ پر اعتماد نہیں۔ کیا آپ ایسی سیاست نہیں کر سکتے ہیں کہ جس سے ہمارے مسلمان‘ دلت‘محروم طبقے‘ جنگلی لوگ اور عام آدمی بھی صرف افعال (خدمت) کی بنیاد پر ہی ووٹ دیں ؟بھیڑ چال نہ چلیں ۔تھوک میں ووٹ نہ ڈالیں ۔اپنے دماغ کا استعمال کریں ۔کسی خاص طبقے کے لوگوں کوووٹ کے حق سے محروم کرنے کی بات وہی کر سکتے ہیں ‘جنہوں نے اپنا دماغ دری کے نیچے سرکا دیا ہے۔ 
پاکستان کی سمجھداری
یمن کے معاملے میں پاکستان‘ بہت سمجھ داری سے کام لے رہا ہے ۔سب سے پہلے میں اس کی تعریف کروں گا کہ اس نے گیارہ بھارتی باشندوں کویمن سے باہر نکالنے اور بھارت پہنچانے کا دوستانہ کام کیا‘ وہ بھارت سے پیچھے نہیں رہا ۔بھارت سرکار نے بھی کچھ پاکستانی شہریوں کو وہاں سے باحفاظت نکالا تھا۔اگر ہمارے یہ دونوں ملک سبھی بین الاقوامی مسائل پر اسی طرح کا دوستانہ رویہ اپنائیں تو جلدی ہی جنوبی ایشیا کا نقشہ مکمل بدل جائے۔
دوسری بہت ہی اہم بات یہ ہے کہ حکومت پاکستان کی خارجہ پالیسی کو ایک دم نئی شکل میں ڈھال رہی ہے۔ سعودی عرب کی لاکھ کوششوں کے باوجودپاکستان اپنی فوجیں یمن نہیں بھیج رہاہے۔ یمن میں سعودی عرب‘ بعض دیگر عرب ممالک اور امریکہ مل کروہاں کے حکمران منصور ہادی کو بچانے کیلئے لڑائی لڑ رہے ہیں۔ ہادی نے بھاگ کر سعودی عرب میں پناہ لے رکھی ہے‘ جبکہ ان کے خلاف یمن کے حوثی قبائل نے بغاوت کا جھنڈاگاڑ رکھا ہے ۔ان حوثی شیعوں نے یمن کے کئی حصوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انہیں ایران سرکار کی مکمل حمایت حاصل ہے ۔
پاکستان پر سعودی عرب کی نوازشات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اس کے باوجودپاکستانی پارلیمنٹ میں ہونے والی بحث میں کسی بھی رکن نے یمن میں فوج یا ہتھیار بھیجنے کی حمایت نہیں کی‘ یعنی پاکستان کسی بھی گٹھ بازی سے الگ ملک کی طرح ہو گیا ہے۔ اس کا یہ قدم ثابت کر رہا ہے کہ وہ ایک آزاد اور خودمختار ملک ہے۔ اسے پتا ہے کہ وہ اس تصادم میں پڑے گا تو اس کے اندرونی حالات بد امنی کی طرف جائیں گے اور وہ فضول ہی ایران کو بھی ناراض کیوں کریں؟
ایرانی وزیر خارجہ گزشتہ دنوں اسلام آباد گئے‘ جبکہ ترک صدر نے بھی ایران کا دورہ کیا تھا۔ ترکی اور پاکستان اس جھگڑے کو سلجھانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ان دونوں ملکوں کی کوششیں کامیاب ہو جائیں تو مغربی ایشیا میں چل رہی اٹھا پٹک (افراتفری‘ بدامنی) بڑے پیمانے پر کم ہو سکتی ہے ۔ 
کشمیری پنڈتوں کی گھر واپسی 
حریت اتحاد یوں نے ''کشمیر بند‘‘ کا نعرہ دے دیا ہے‘ کیونکہ پی ڈی پی کے لیڈر اور وزیر اعلیٰ مفتی سعید نے کل اعلان کیا تھاکہ کشمیر کی وادیوں میں ہندو پنڈتوں کو پھر بسائیں گے۔ انہیں بسانے کے لیے وہ ان کی الگ کالونیاں بنائیں گے۔ حریت کے لیڈروں کا کہنا ہے کہ مفتی صاحب آرایس ایس کے دبائو میں آکر یہ نیا چکر چلا رہے ہیں‘ وہ فرقہ واریت کی بنیاد پر وادی کا بٹوارہ کر رہے ہیں اور اب کشمیر کی وادی بھی فلسطین بن جائے گی۔جیسے فلسطینی عربوں کے سینے میں یہودی بستیاں ٹھوک دی گئی ہیں ویسے ہی وادی کے مسلمانوں پر ہندو پنڈتوں کو سوار کر دیا جائے گا۔
حریت کی بنیادی بات تو ٹھیک ہے‘ جو پنڈت صدیوں سے سب کے ساتھ رہ رہے تھے‘اب ان کی الگ بستیاں بسانے کی کیا ضرورت ہے ؟اگر انہیں الگ بستیوں میں بسایا جائے گا تو ان کے اور عام کشمیر کے بیچ نااعتمادی کی خندق ہمیشہ قائم رہے گی۔ اس دلیل میں بھی دم ہے لیکن کسی بھی حریت لیڈر نے یہ کیوں نہیں کہا کہ ہندو پنڈت اور کشمیری مسلمان بھائی بھائی ہیں۔ وہ صدیوں سے ایک ساتھ رہتے آئے ہیں اور اب بھی رہیں گے۔ حریت کا یہ کہنا ہنسی جیساہے کہ پنڈتوں کی بستیاں یہودی بستیوں کی طرح ہو جائیں گی۔ فلسطین میں یہودی تو طاقتوراور حملہ آور ہیں جبکہ کشمیر میں صورتحال مختلف ہے۔ 
مفتی سعید نے یہ تجویز اس لیے پیش کی ہے کہ ڈرے ہوئے پنڈت لوگوں کی گھر واپسی آرام سے ہو سکے لیکن کشمیری پنڈتوں کے حقوق کے لیے لڑنے والی پارٹی نے اس تجویز کو یہ کہہ کر رد کر دیا ہے کہ کسی پنڈت کو اپناگھرکہاں بنانا ہے ‘یہ وہ خود طے کریں۔ دوسرے الفاظ میں حریت لیڈروں کا یہ الزام بے بنیاد معلوم پڑتا ہے کہ مفتی‘ سنگھ کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں۔ اس لیے حریت کا یہ اعلان کہ وہ کشمیر بند کرے گی ‘غیر ضروری دکھائی دیتا ہے۔ کشمیر کو بند کیے بنابھی مفتی صاحب کے گلے ٹھیک بات اتاری جا سکتی تھی۔ حریت سے یہی امید کی جاتی ہے کہ وہ ذرا گہرائی سے پیش آئے اور مٹھ بھیڑ کی بجائے بات چیت کا راستہ اپنائے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں