افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کا دورۂ بھارت ایسے مشکل وقت پر ہوا جبکہ نیپال کے زلزلے کا سایہ سارے جنوبی ایشیا پر منڈلا رہا تھا۔ اس لئے اسے جتنی اہمیت ملنی چاہئے تھی نہیں ملی۔ ان کے دورہ کے عین موقع پر ان کے اپنے ملک افغانستان میں ہوئے دہشتگردانہ حملے نے ایسی افراتفری مچائی کہ وہ نئی دہلی کئی گھنٹے دیر سے پہنچے۔ یوں بھی بھارت کو شکایت تھی کہ اشرف غنی صدر بننے کے لگ بھگ سات ماہ بعد بھارت آئے۔ اس سے پہلے وہ امریکہ‘ چین‘ ایران اور دو بار پاکستان ہو آئے۔ اس کا کیا مطلب اخذ کیا جائے؟ کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ افغان خارجہ پالیسی نے بھارت کو اٹھا کر طاق پر رکھ دیا ہے؟ اس کا الٹا مطلب بھی نکالا جا سکتا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ بھارت نے ہی غنی سرکار سے لاپروائی برتی؟ کابل میں بھارتی قونصلیٹ نے کیا صدر غنی کو بھارت لانے کے لئے کوئی خاص کوشش کی؟ یہ ٹھیک ہے کہ افغان وزیر اعظم ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ بھارت کے جانے مانے دوست ہیں اور بطور وزیر خارجہ کئی بار بھارت آ چکے ہیں۔ ڈاکٹر عبداللہ اور ڈاکٹر غنی اگرچہ بالترتیب وزیراعظم اور صدر ہیں لیکن دونوں ایک دوسرے کے سخت مقابلے میں ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ بھارت غنی سے لاپروائی کرے۔ غنی سے لاپروائی افغانستان سے لاپروائی ہے۔
مانا یہ جا رہا ہے کہ غنی نے بھارت سے لاپروائی کی۔ لاپروائی کا یہ عنصر ان کے دورے کے دوران بھی دکھائی پڑا۔ انہوں نے سابق صدر حامد کرزئی کی طرح بھارت سے نہ تو ہتھیاروں کی مانگ کی‘نہ فوجی ٹریننگ اور نہ کسی جنگی تعاون کی۔2011ء میں مکمل ہوئے دوطرفہ جنگی معاہدے کا پٹارا بند ہی پڑا رہا۔ اس دورے کے دوران اس کا ڈھکن تک نہیں کھولا گیا‘ جبکہ اپنے پاکستان کے دورے کے دوران غنی نے سارے سیاسی دائروں کو ایک طرف رکھ کرپاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف راحیل شریف سے ملاقات کی۔ فوج کے ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) راول پنڈی جا کر وہ ان سے ملے۔ پاکستان کی کابل فوجی اکیڈمی میں افغان فوجیوں کی تربیت بھی شروع ہو چکی ہے۔ اب افغانستان اور پاکستان کی فوجیں متحد ہو کر ابھیاس بھی کریںگی۔ یہ تاریخ میں پہلی بار ہو گا۔ افغانستان اور پاکستان کے بیچ اسلامی بھائی چارہ رہا ہے‘ لیکن تناؤ‘ شک اور دشمنی بھی رہی۔ مسئلہ پختون‘ اندرونی معاملات میں مداخلت اور بڑی قوتوں سے ان کے تعلقات کو لے کر‘ دونوں ملکوں کے بیچ تین بار لڑائی ہوتے ہوتے رہ گئی۔ مجاہدین اور طالبان سرکاروں کے دوران بھی کھینچا تانی چلتی رہی۔ حامدکرزئی کے بارہ برس کے دورِ اقتدارمیں دونوں ملکوں کے تعلقات جیسے رہے‘ انہیں گہرے یا اچھے نہیں کہہ سکتے۔
پھر بھی غنی اب پاکستان کے اتنے قریب ہوتے ہوئے دکھائی پڑ رہے ہیں کہ مانو بھارت کسی گنتی میں ہی نہیں ہے۔ بھارت نے افغانستان میں اپنے بارہ ہزار کروڑ روپے خرچ کر دیے ہیں۔ اس نے سکول‘ ہسپتال‘ بجلی گھر‘ ڈیم‘ سڑکیں اورافغان ایوان کی تعمیر بھی کی ہے۔ اس کے درجنوں شہریوں نے افغان باشندوں کی خدمت میں اپنی جان بھی قربان کی۔ میرے خیال میں افغان عوام کے بیچ سب سے دل پسند کوئی ملک ہے تو وہ بھارت ہے لیکن بدقسمتی ہے کہ بھارت کی مودی سرکار نے افغانستان پر اتنا دھیان نہیں دیا‘ جتنا اسے دینا چاہئے تھا۔ اگر میں ڈاکٹر لوہیا کا محاورہ استعمال کروں توکہہ سکتا ہوں کہ ہماری سرکار دنیا کی یاری کی چکا چوند میں پھنسی رہی۔ بھارت کا وزیر اعظم ہزاروں کلومیٹر دور کے ملکوں میں جا کر تو بجلی چمکاتا رہا لیکن پڑوس کے افغانستان میں جا کر وہ چراغ بھی نہ جلا سکا۔ شاید یہ تاریخ بھارتی وزیراعظم کے ذہن میں نہیں کہ صدیوں سے افغانستان کی حفاظت بھارت کی حفاظت رہی ہے۔ جس دہشت گردی سے بھارت آج پریشان ہے اس کی جڑ کہاں ہے؟ افغانستان میں! اگر بھارت کو یورپ‘ وسطی ایشیا اور مغربی ایشیا کے ملکوں سے زمینی راستے سے جڑنا ہو تو وہ کہاں سے جائے گا؟ افغانستان سے!
اس راز کو چین بہت اچھی طرح سمجھتا ہے۔ اسی لئے چینی صدر شی چن پنگ نے پاکستان میں اب 46 ارب ڈالرکے سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے۔ اس کا سیدھا فائدہ افغانستان کو ملے گا۔ اب جو نیا 'ریشم پتھ‘ بنے گا‘ وہ بیجنگ سے سپین تک افغانستان سے ہوتا ہوا جائے گا۔ چین نے افغانستان میں کروڑوں ڈالر خرچ کر کے تانبے کی کانیںخرید لی ہیں۔ اس نے چین پاک افغانستان مثلث بات چیت چلائی ہے۔ وہ اپنے سنکیانگ صوبہ کے ایغر مسلمانوں میں پھیلی دہشتگردی کو بھی قابو کرے گا لیکن اس ساری پالیسی میں بھارت کہاں ہے؟
جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی طاقت ہونے کا دعویٰ کرنے والا بھارت خود کو تنہا کر رہا ہے۔ افغان سیاست کے طاقتور طبقوں سے گہرا تعلق بنا کر رکھنا تو دور کی بات ہے‘ کابل کی بھارت پریمی سرکار سے بھی نزدیکیوں کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ یہ تب ہے جبکہ افغانستان سے نیٹو افواج کی واپسی زوروں سے شروع ہو چکی ہے۔ اگر افغانستان میں لاقانونیت پھیلی تو پاکستان اس پر قابو نہیں پاسکے گا۔ اس دور میں بھارت کا کیا کردار ہو گا‘ یہ ہمارے لیڈروں کو کچھ پتا نہیں۔ اب تک جو تعمیری اور پُرامن کردار بھارت کا رہا ہے‘ وہ چین کا ہو گیا تو اس کا فائدہ پاکستان کو ضرور ملے گا‘ لیکن پاکستان اگر اپنی پرانی چال پر چلتا رہا یعنی اس نے اگر افغانستان سٹریٹیجک ڈیپتھ تلاش کرنے کی کوشش کی تو افغان اسے بالکل برداشت نہیں کریں گے۔
ظاہر ہے کہ ان گہرے اور دور اندیش سوالوں پر غنی بھارتی لیڈروں سے کیا بات کرتے لیکن غنی نے دلی آ کر ایک کام بہت اچھا کیا۔ وہ یہ کہ انہوں نے بھارت افغان تجارت کے لئے پاکستان کو راستہ دینے کیلئے ڈٹ کر کہا۔ انہوں نے 2011 ء میں پاک افغان سمجھوتے کا حوالہ دے کر کہا کہ مال سے لدے ہوئے افغان ٹرک صرف واہگہ پر ہی کیوں روک دیے جاتے ہیں؟ وہ بھارت میں اٹاری تک کیوں نہیں جاتے؟ اگر پاکستان کا یہ بند راستہ کھل جائے تو سارے جنوبی ایشیا کی تقدیر کھل جائے گی۔ یہ اشرف غنی کا دورہ بھارت کی سب سے بڑی کامیابی مانی جا سکتی ہے۔
کرزئی کی طرح غنی خود پٹھان ہیں۔ وہ چاہیں تو طالبان کو بس میں کر سکتے ہیں‘ لیکن بھارتیوں کو خوش کرنے کے لئے انہوں نے دلی میں کہہ دیا کہ وہ اچھے اور برے طالبان میں فرق نہیں کرتے۔ وہ دہشتگردی کو جڑ سے ہی اکھاڑنا چاہتے ہیں لیکن نیا پاکستان انہیں یہ کرنے دے گا؟ کہیں وہ کچھ دن بعدکرزئی کی طرح دل شکستہ تو نہیں ہوجائیں گے؟ ابھی تو پاکستان کے ساتھ ان کے شہد جیسے میٹھے تعلق چل رہے ہیں‘ انہیں مبارک!
غنی نے بھارت کے کارخانے داروں کو افغانستان بلاوا دیا ہے۔ امریکی طرز پر لالچ بھی دیا ہے لیکن وہ غنی سے زیادہ چالاک ہیں۔ بھارتی کارخانے دار اپنا پیسہ وہاں تبھی پھنسائیں گے‘ جب افغانستان میں امن ہو گا۔ یہی اچھا ہوتا کہ غنی صاحب افغانستان بھارت اور پاکستان کو جوڑنے کی کڑی بنتے لیکن لگتا ہے کہ اس بڑے کام کی قوت دونوں ملکوں کے نو سکھے لیڈروں میں کم از کم ابھی نہیں ہے۔ اگر اگلے تین چار سال میں یہ پیدا ہو جائے تو سارے جنوبی ایشیا کا نقشہ ہی بدل جائے گا۔