نریندر مودی کے بیرونی دوروں کی تلنا میں دورہ چین شاید سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے ‘حالانکہ دونوں ملکوں کے بیچ تاریخ نے جو گانٹھیں ڈال دی ہیں ‘وہ اب بھی جوں کی تیوں ہیں۔ سرحدی تنازع کا ابھی کوئی بھی ٹھوس حل نہیں نکلا۔ جیسے پہلے مذاکرات چلتے رہے ‘ویسے اب بھی چلتے رہیں گے ۔اگر مودی سرحدی تنازع پر اڑ جاتے تو انہیں اپنا دورۂ چین ملتوی کرنا پڑتا‘ کیوںکہ دونوں طرف سے کوئی بھی ٹھوس پیشکش نہیں ہے۔لیکن یہی ڈھرا چلتا رہے تو اس میں بھی برا کیا ہے؟ میں تو پاکستانی لیڈروں کو اکثر اسی ڈھرے کی مثال پیش کرتا رہا ہوں۔ سابق صدر جنرل ضیاالحق جب ہتھیار سمجھوتے کی ٹیک لگائے ہوئے تھے تو میں نے کہا تھا کہ اس کے بنا بھی بھارت پاک تعلقات بہت آگے بڑھ سکتے ہیں‘ جیسے سرحدی تنازع کے باوجود بھارت چین تعلقات بڑھ رہے ہیں ۔اسی ڈھرے کو جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ مودی کا صاف صاف یہ کہنا مجھے بہت اچھا لگا کہ چین اپنی پالیسیوں پر دوبارہ سوچے تاکہ سارے معاملے سلجھ سکیں ۔پتا نہیں کہ مودی نے پاک چین اقتصادی راہداری کے بارے میں چینی لیڈروں سے کچھ کہا یا نہیں؟ یہ راہداری آزادکشمیر کے حصے میں سے ہو کر جا رہی ہے‘جو تکراری (متنازع) ہے۔ یہ بات پاک چین 1963ء سمجھوتہ میں ثابت شدہ ہے ۔اگر چین بار باراروناچل پردیش کا معاملہ اٹھاتا ہے تو ہمیں وہ معاملہ کیوں نہیں اٹھانا چاہئے؟ اسی طرح دلائی لاما کا معاملہ بھارت اور چین میں کھائی ڈالنے کے بجائے پل بن سکتا ہے ‘ بشرطیکہ ہماری وزارت خارجہ عقلمندی سے کام لے۔
جہاں تک ثقافتی اور اقتصادی تعلقات کا سوال ہے اس میں شک نہیں ہے کہ مودی اس دورے کے حوالے سے کافی آگے بڑھیں گے اور صحیح سمت میں بھی چلیں گے ۔تجارت کا توازن بہتر ہوگا۔22 ارب ڈالر کے جو 20 معاہدے ہوئے ہیں 'ان پر جلد ہی کام شروع ہو‘یہ ضروری ہے ۔ویزا پالیسی اور ندیوں کے پانی کے بارے میں اثردار بات ہوئی ہے۔ مانسرور کیلئے ناتھولا راستہ بھی کھلے گا۔دونوں ملکوں کے کچھ صوبوں میں سیدھا تعاون شروع ہوگا۔چینی یونیورسٹیوں میں گاندھی اور یوگ پر لکھنے پڑھنے کا کام ہوگا۔ چین آج کل بھارت کا بر س منا رہا ہے۔ اگلے سال بھارت چین کا برس منائے گا۔مودی نے چینی سیاح ہین سان کے شہر سیان جا کربھارت چین ثقافتی تعلقات کو نیا موڑ دیا ہے۔ مودی اور چینی وزیراعظم لی نے دہشتگردی‘ ماحولیات اورافغانستان پر بھی باہمی مفاہمت اور تعاون کی بات کہی ہے۔ اگر مودی کے اس دورہ کے نتیجے میں دونوں ملک علاقائی اورباقی معاملات میں ایک دوسرے کے کافی نزدیک آ جائیں تواکیسویں صدی کو ایشیا کی صدی بننے میں دیر نہیں لگے گی۔
مودی کی تین باتیں
وزیر اعظم نریندر مودی نے دیگر ملکوں کی طرح چین میں رہنے والے بھارتیوں کو خطاب کیا۔پانچ ہزار بھارتیوں کا جلسہ چین جیسے ملک میں ہو جائے ‘یہی اپنے آپ میں بڑی بات ہے۔ بھارت کے کسی وزیر اعظم نے آج تک چین میں بھارتیوں کی اتنی بڑی تعداد کو خطاب نہیں کیا۔مودی کی یہ خاصیت مانی جائے گی کہ انہوں نے خارجہ پالیسی کو سیدھے عوام سے جوڑنے کی کوشش کی ۔مودی کے ان سبھی جلسوں پر کانگریس نے کافی طنز کے تیر چھوڑے ہیں ‘جوکہ کانگریس کی عادت ہے ۔اگر ان جلسوں میں وہ چناوی تقریر کریں گے تویہی ہوگا لیکن مودی کے سیکھنے کی رفتار کافی تیز ہے۔ انہوں نے جو غلطیاں امریکہ میں کیں‘انہیں چین میں نہیں دہرایا۔ ان کی تقریر کو چین کے سبھی بھارتیوں نے تو سنا ہی ‘بھارت میں بھی وہ سنی گئی۔انہوں نے بھارت کی خارجہ پالیسی کے خیالات کو اچھی صورت میں ثابت کیا ۔چین میں رہنے والے بھارتیوں کے دل و دماغ میں ایک نیا جوش بھر گیا ۔
اس تقریر میں نریندر مودی نے اپنے بارے میں جو تین باتیںکہیں ‘ وہ اتنی زبردست ہیں کہ ان سے مودی کی اپنی شخصیت میں تو نکھار آئے گا ہی‘ عوام اور خاص طور پر لیڈر حضرات کو بھی بڑی راحت ملے گی ۔مودی نے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ وہ لگ بھگ ہر ماہ ملک سے باہر جاتے رہے ہیں ۔اپوزیشن اس پر تنقید کرتی ہے۔کیا اپوزیشن یہ نہیں دیکھتی کہ مودی نے سال میں ایک بھی چھٹی نہیں لی‘ جبکہ اپوزیشن لیڈر رہنما ہفتوں ملک سے غائب ہو جاتے ہیں ۔جہاں تک مودی کا فرانس ‘جرمنی اور کینیڈاکے دورے کا سوال ہے ‘وہ کافی کامیاب رہے اور دورہ چین تو غیر معمولی رہا‘ اس کے ٹھوس اثرات اور فوائد آہستہ آہستہ سامنے آئیں گے۔ مودی نے دوسری بات یہ کہی کہ ''مجھے تجربہ نہیں ہے ‘‘میں سیکھوں گا۔ ایسا کہنا کسی بھی وزیر اعظم کیلئے بہت بڑی بات ہے ۔یہ سچا ادب اور اخلاق ہے‘ یہ سچی نیاز مندی ہے۔ اگر یہ بات انہوں نے ایمانداری سے کہی ہے تو وہ ویسے ہی تاریخی وزیر اعظم بنیں گے ‘جیسے کہ میں نے تال کٹور سٹیڈیم کے جلسے میں ڈیڑھ سال پہلے اپنی تقریر میں کہا تھا ۔
تیسری بات مودی نے یہ کہی کہ'' میں غلط ارادے سے کوئی کام نہیں کروں گا ‘‘یہ عجیب بات ہے لیکن وزیر اعظم کی نیت ہمیشہ اچھی رہے اس کے لئے مودی کو کیا کیا کرنا چاہئے ‘اس کا ابھی انہیں شاید ٹھیک سے پتا نہیں ہے ۔شاید تجربہ انہیں سکھا ئے گا۔
الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے
امریکہ میں غضب کا ڈھونگ چلتا ہے ۔امریکی کانگریس کی ایک جماعت'بین الاقوامی مذہبی آزادی کمیشن ‘ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت دنیا کے ان 30 ممالک میں سے ہے ‘جہاں مذہبی آزادی نہیں۔ اس کمیشن نے گھر واپسی‘چرچ پر حملے اور کئی نفرت بھرے مشنوں کا ذکر کیا ہے۔اس رپورٹ میں بھارت سرکار سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ ان فرقہ پرست لیڈروں کو سرعام ڈانٹ لگائے ‘جو ایسے نفرت والے مشن چلاتے ہیں ۔اس کمیشن نے بھارت میں امریکی سفیر کویہ ہدایت دی ہے کہ بھارت میں جہاں بھی فرقہ واریت کی بنیاد پر دنگا ہویا ہونے کے امکان ہوں‘وہ وہاں خود جائیں ‘جیسے کہ وہ سفیر نہیں ‘پولیس انسپکٹرہو۔اس رپورٹ میں وزیر اعظم نریندر مودی کی اس تقریر کا بھی مذاق اڑایا گیا ‘جو انہوں نے فروری 2015ء میں بشپوں کے بیچ کی تھی۔
ہماری وزارت خارجہ نے بڑا دبو سا ردعمل ظاہر کیاہے۔ امریکہ جیسے ملک بھارت پر ایسا بیکار الزام لگا رہے ہیں ۔ایک رنگ و نسل پرست‘قاتل ‘کئی جرائم میں مبتلا بد امن اور تنک مزاج ملک بھارت کومذہبی آزادی کا سبق پڑھا رہا ہے ۔بھارت میں جتنے مذہب پیدا ہوئے ہیں اور پنپتے رہے‘کیا دنیا کے کسی دوسرے ملک میں ہوئے ؟غیر ملکی مذاہب کو بھارت میں جیسی پناہ ملی ‘کیا دنیا کے کسی اور ملک میں ملی؟بھارت کے اعلیٰ عہدوں پر جیسے مختلف مذہب کے لوگ پہنچے‘کیا امریکہ یا یورپ میں کبھی پہنچے ؟
جہاں تک گھر واپسی اور باہمی اختلاف رائے کے بیانوں کا سوال ہے ‘ان کو بھارت کا عام آدمی خارج کرتارہتا ہے‘ لیکن بولنے کی آزادی کاکچھ لوگ غلط استعمال کرتے ہی ہیں ۔اگر ان کا گلا دبا دیا جائے تویہی امریکی بھونپو انسانی حقوق کا راگ الاپنے لگیں گے۔امریکی ادارے جب دوسرے ملکوں کے اندرونی معاملات میں ٹانگ اڑاتے ہیں تو ایسا لگتا ہے ‘جیسے کوئی چور کوتوال کو ڈانٹ رہا ہے۔ ایک طرف اوباما جی مودی جی کوگڈ کریکٹر کے خط اور دوسرے آداب کے خط بھیجتے رہتے ہیں اور دوسری طرف امریکہ کے کچھ سطحی سمجھ والے کم عقل شکوہ و شکایت کے خط بھیجتے رہتے ہیں ۔وہ بھارت میں مذہبی آزادی کا رونا روتے ہیں لیکن ان کی سرکاروں نے کئی ملکوں کی سیاست اور اقتصادیات کی آزادی کو تباہ کر دیا ہے ۔صدام حسین اور کرنل قذافی کے خون سے کس کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں؟