خارجہ پالیسی کے معاملے میں وزیر اعظم نریندر مودی کا یہ پہلا سال کیسا رہا‘یہ سوال سبھی پوچھ رہے ہیں ۔سچ کہا جائے تویہی مانا جائے گا کہ ان کا یہ سال خارجہ پالیسی کا سال ہی رہا ہے ۔اپنے پہلے سال میں مودی نے جتنے غیر ملکی دورے کیے ہیں‘اب تک کسی دوسرے وزیر اعظم نے نہیں کیے ہیں ۔مودی نہ تو خارجہ پالیسی کے محقق رہے ہیں اور نہ ہی وہ کبھی وزیر خارجہ رہے ہیں‘ جبکہ وزیر اعظم نہرو آزادی کے پہلے سے کانگریس کا شعبہ خارجہ سنبھالے ہوئے تھے ‘اٹل جی 1977ء سے1979ء تک وزیر خارجہ رہ چکے تھے اور نرسمہا راؤ جی بھی دو بار وزارت خارجہ سنبھال چکے تھے لیکن ان سب کے مقابلے میں مودی نے بیرونی ملکوں کے زیادہ دورے کیے !وزیر اعظم نریندر مودی نے اتنی دورے کیوں کیے اور ان سے بھارت کا فائدہ کیا ہوا؟اسی سوال کو مودی پر حملہ کرنے کیلئے اپوزیشن لیڈر اچھالتے رہتے ہیں ۔
وزیر اعظم کے بیرونی دوروں کا کوئی' کوٹہ‘ نہیں بندھا ہوا ہے کہ وہ اتنے دورے کرے یا نہ کرے ۔وہ جتنے ضروری سمجھے ‘اتنے کرے ۔ڈاکٹر من موہن سنگھ بھی ایک سال میں لگ بھگ اتنے ہی ملکوں میں اتنے ہی دن گذار کر آئے ہیں‘ جتنے مودی نے بِتائے۔وزیر خارجہ اٹل جی کو اپوزیشن لیڈر اٹل بہاری نہیں گگن بہاری کہا کرتے تھے ۔مودی اپنے پہلے سال میں لگ بھگ ڈیڑھ ماہ ملک سے باہر رہ سکے‘یہ اسلئے بھی ممکن ہوا کہ وہ ملک کے اندر کافی مضبوط تھے ۔اپنے مالک خود تھے ۔اس کی کرسی ہلانے والاکوئی نہیں تھااندرونی مضبوطی کا فائدہ انہوں نے بھارت کی باہری مضبوطی کیلئے اٹھایا ۔
دیگروزرائے اعظم کے مقابلے میںخارجہ پالیسی سیدھی عوام سے جوڑنے میں مودی سب سے زیادہ کامیاب ہوئے۔کسی بھی وزیر اعظم نے اتنے بڑے جلسوں کو بیرونی ملکوں میں کبھی بھی خطاب نہیں کیا۔ان جلسوں کی ہندی تقریریں ان ملکوں کے لیڈروں کو چاہے سمجھ میں نہ آئی ہوں لیکن ان پر یہ اثر تو پڑا ہی ہے کہ ان کے اپنے ملک میں خود جتنی بھیڑ جٹا سکتے ہیں ‘ان سے بھی بڑی بھیڑ مودی نے جٹا لی ۔مودی نے باہر رہنے والے بھارتیوں کو خطاب کیا ہی ‘ٹی وی اور اخباروں کے ذریعے سے کروڑوں بھارتیوں سے بھی سیدھے مخاطب ہوئے ۔اس مخاطب ہونے کے سبب بھارتی ناظرین وزیر اعظم کے دورے کے دیگرپہلوؤں سے بھی جڑے رہے ۔
یہ ٹھیک ہے کہ ان جلسوں میں مودی نے ایک آدھ دفعہ بھارت کی اندرونی سیاست کو بھی گھسیٹا۔چین میں انہوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ ان کی سرکار آنے کے پہلے بھارتی ہونا کوئی فخر کی بات نہیں تھی۔ یہ پُراعتراض جملہ ہے لیکن زبان تو زبان ہے۔ وزیر اعظم کی ہویا سنتری کی !وہ پھسل سکتی ہے ۔اپنے بارے میں ہو رہی غلط فہمی کا یہ بھی ایک نتیجہ ہو سکتا ہے لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مودی نے نصیحت بھری اور جوشیلی تقاریر سے غیر ممالک میں رہ رہے بھارتیوں میں زبردست اتساہ کی رہبری کی ہے ۔
اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ مودی نے بیرونی ملکوں کے صدورا ور وزرائے اعظم کو اپنے لٹکوں جھٹکوں سے جتنا متاثر کیا ہے‘ شاید کسی بھی وزیر اعظم نے نہیں کیا۔ مودی کے پاس نہرو اور نرسمہا جیسی گہری سوچ نہیں ہے اور اندرا جی اور اٹل جی کی طرح شخصیت میں بھی کشش نہیں ہے لیکن عوام سے ریلیشن کا حیرت انگیز فن ہے۔اس فن کا خارجہ پالیسی میں کبھی کبھی غیر معمولی فائدہ مل جاتا ہے ۔مودی نے امریکی صدر ‘چینی صدر ‘آسٹریلیائی وزیر اعظم‘جاپانی وزیر اعظم‘جرمن چانسلر‘فرانسیسی صدر اور کینیڈیائی وزیر اعظم کے ساتھ جس طرح کا ذاتی تعلق قائم کیا ہے ‘وہ بھارتی ماہرانہ انداز سیاست کی تاریخ میں مجھے لاثانی لگتا ہے ۔
مودی کی سبھی غیر ملکی دوروں پر ایک پروازی نظر ڈالیں تو ایک موٹی موٹی تصویریہ ابھرتی ہے کہ انہوں نے روس ‘برطانیہ اور اسرائیل کے علاوہ دنیا کے ان نہایت ہی اہم ملکوں کا دورہ کر لیا ہے جو بھارت کیلئے فائدہ مند ہو سکتے ہیں۔وہ ابھی تک کسی مسلم ملک میں کیوں نہیں گئے ‘یہ بات مجھ سے کچھ عرب اور باہر رہ رہے بھارتی لیڈروںنے پچھلے ہفتہ دبئی میں پوچھی۔ کیا ان کے ہندو وادی ہونے
کے سبب ؟نہیں بالکل نہیں ۔میرا جواب صاف تھا۔وہ بنگلہ دیش جانے والے ہیں۔ پس زمینی حد کے حل کا معاہدے کا انتظار تھا ۔وہ مالدیپ جا رہے تھے لیکن اس کے اندرونی مسائل کی وجہ سے نہیں گئے۔ افغانستان کے صدر اشرف غنی بھارت آ چکے ہیں ۔جہاں تک پاکستان کا سوال ہے ‘مودی نے پہل کی اور نواز شریف کو اپنی حلف برداری تقریب میں بلوایا لیکن اس کے بعد ان کی پاکستان پالیسی بیچ میں لٹک گئی ۔خود میاں نواز شریف ‘ان کے دفاعی صلاحکاروں خارجہ سیکرٹری اور اپوزیشن لیڈروں نے پچھلے سال مجھ سے کہا تھا کہ مودی کو پاکستان جلد بھجوائیے۔ مودی کی جانب اوسط لوگوں کے دل میں تلخی ہونے کے باوجود وہاں کے پالیسی بنانے والے چاہتے تھے بھارت کے ساتھ ان کے تعلقات بہتر ہوں لیکن مودی کی پاکستان پالیسی حریت کے کیچڑ میں پھسل گئی۔ اگر مودی بھارتی خارجہ پالیسی کی پگ تھلی سے پاکستانی پھانس نکال سکیں توانہیں بھارت کے سبھی وزرائے اعظم میں سب سے اونچا مقام مل سکتا ہے لیکن مودی کی مجبوری یہ ہے کہ ان کی خارجہ پالیسی کو چلانے والے نوکر شاہ ہیں ۔ ان کی اپنی کوئی نظر نہیں ہے۔ تجربہ بھی نہیں ہے اور راستہ دکھانے والے تجربہ کار ماہروں سے فائدہ اٹھانے کا ان کی عادت نہیں ہے ۔
ان کے بیرونی دوروں سے بھارت کو کافی فائدہ ہوا ہے۔ جاپان‘ چین ‘جنوب کوریا ‘امریکہ وغیرہ ملکوں نے 70 سے 80 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا عزم کیا ہے ۔دہشتگردی پر لگ بھگ ہر ملک نے بھارت کے ساتھ اتفاق کیا ہے ۔دو طرفہ تجارت میں اضافے کے امکانات بڑھے ہیں ۔یعنی وہی ہو اہے جو ہمیشہ ہر وزیر اعظم کے دورہ میں ہوتا ہے لیکن مودی نے زیادہ تر ملکوں میں تہذیبی پالیسی یا خارجہ پالیسی میں تہذیب کا پرچم پھینک کر بازی اپنے حق میں کرنے کی کوشش کی ہے ۔اگر چین نے بھارت کے پڑوسی ملکوں میں اپنے پیر جمائے ہیں تو بھارت نے بھی چین کے پڑوسیوں ‘منگولیا‘ کوریا‘ ویٹنام وغیرہ سے ہاتھ ملا کر آچاریہ چانکیہ کے ماہرانہ انداز سیاست کا غور و فکرکیا ہے۔ نیپال میں زلزلے کے وقت مودی کی پہل کا دنیا میں اثر ہوا ہے۔ عرب ملکوں سے بھارتیوں کو بحفاظت نکال لانے اور کئی ملکوں میں جاکر بھارت کے مفاد کیلئے جس ہوشیاری کا تعارف وزیر خارجہ سشما سوراج جی نے دیا ہے ‘وہ بھی لائق تعریف ہے ۔
اپنے پہلے سال میں مودی پڑوسی ملکوں اور بڑی طاقت والے ملکوں کا دورہ تو کر آئے لیکن ان کی اپنی کوئی بنیادی نظر نہ ہونے کے سبب وہ کوئی ایسا طریقہ تعمیر نہیں کر پائے ‘جو بھارت کو دنیا کی عظیم طاقت بننے کی اور لے جاسکے ۔نہ تو جنوب ایشاکے اتحاد کی کوئی پہل ہوئی ‘نہ دنیا کی سیاست کے کسی اہم مسئلے پر ہم نے کوئی قدم اٹھایا اورنہ ہی سلامتی کونسل میں ہماری ممبر شپ کا انتظام ہوا۔ افغانستان سے امریکی واپسی کے بعد جنوب ایشیا میں جو حالات پیدا ہونے والے ہیں‘ اس کے مقابلے کی بھی کوئی تیاری نہیں ہے۔ یہ ضرور ہوا ہے کہ ہمارے وزیر اعظم خارجہ پالیسی کے حساب سے سب اچھے پرچار ک وزیر ثابت ہوئے ۔یہ بھی کیا کم ہے ؟