بھارت اور برما کے سرحدی علاقوں میں چھپے باغیوں پر ہماری فوج نے جیسا حملہ کیا اور حملے سے بھی زیادہ اس کا جیسا پرچار کیا‘اس سے سارا ملک گد گدہو گیا۔ ہمارے فوجیوں کو توشاباشی ملی ہی‘ہمارے لیڈروں نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو ڈالے ۔56 انچ کے سینے والی سرکار کا سینہ پھول کر 60 انچ کا ہو گیا۔کئی وزیر بہک گئے۔ایک نے کہہ دیا کہ جو برما میں ہو اوہ پاکستان میں بھی ہو سکتا ہے۔دوسرے نے کہا کہ اسی ڈر کے مارے پچھلے دو تین دن سے پاکستان بوکھلایا ہوا ہے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ نے بھارت کے خلاف قراردادپاس کر لی ہے۔ اس نے کہا ہے کہ یہ پاکستان ہے‘ اسے برما مت سمجھ لینا‘ اگر آپ نے ہماری حدکو پار کیا تواسے ہم اپنی خودمختاری پر حملہ سمجھیں گے اور جوابی کارروائی کریں گے۔ جنرل مشرف نے ایٹم بم کے استعمال کی دھمکی دی ہے ۔ وزیراعظم نواز شریف کافی سوچ سمجھ کر بولتے ہیں‘ لیکن انہوں نے بھی کہا ہے کہ ہم نے جوہری بم تھالی میں سجانے کیلئے تھوڑے ہی بنائے ہیں ۔
اسے کہتے ہیں خالی پیلی دنگل !سُوت نہ کپاس اور ہوا میں لٹھم لٹھا!بھارت اور پاک کے مابین ایسی کون سی واردات پچھلے تین چار دنوں میں ہوئی ہے جس کے سبب اتنی خطرناک بیان بازی دونوں طرف سے جاری ہے ۔پاکستانی لیڈر ضرورت سے زیادہ جذباتی دکھائی پڑتے ہیں۔ کچھ پاکستانی ٹی وی چینلوں نے مجھ سے پوچھا تو میں نے یہی کہا کہ وہ ذرا صبر سے کام لیں‘ بات کا بتنگڑنہ بنائیں‘ جن وزیروں نے جھگڑالو بیان دیے ہیں ‘وہ خارجہ پالیسی کی نزاکت آہستہ آہستہ سمجھیں گے‘ وہ ابھی اپنے
کام میں نئے ہیں‘ کیا وزیر اعظم نے اس معاملے میں ایک بھی لفظ بولا ہے ؟وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ اور دفاعی صلاح کار اجیت ڈوبھال نے اس کارروائی کی ذمہ داری لی تھی‘کیا انہوں نے کہا ہے کہ موقع پڑنے پروہ اسی طرح کی کارروائی پاکستان کے اندر گھس کر کریں گے؟کیا ہماری فوج کے ترجمان یا چیف آف آرمی نے اس بابت کوئی بیان دیا ہے؟ بھارت کا کوئی ذمہ دار لیڈر یاافسر ایسی قابل اعتراض بات کیوں کرے گا؟جب اس طرح کی کارروائی کرنی ہوتی ہے تو بیان دینا توبہت دور کی بات ہے‘ جو لوگ خود میدانی کارروائی میں حصہ لیتے ہیں‘ انہیں بھی اس کی بھنک تک نہیں پڑتی ۔جہاں تک پڑوسی ملکوں کی زمینی یا بحری حد میں اس طرح کی اچانک کارروائی کرنے کا سوال ہے ‘بین الاقوامی قانون میں اس کی چھوٹ ہوتی ہے ۔اسے 'ہاٹ پرسوئٹ‘کہا جاتا ہے۔ کسی بھی سخت گنہگار کا تعاقب کرتے کرتے پولیس یا فوج کہیں بھی گھس سکتی ہے لیکن یہ تبھی ممکن ہے جبکہ پڑوسی ملک‘ جس کی بحری یا زمینی سرحد میں آپ کارروائی کر رہے ہیں ‘وہ تعاون کرے یا کنارہ کشی کرلے۔ایسی کارروائی آپ برما میں تو کر سکتے ہیں لیکن پاکستان یا چین میں نہیں کر سکتے ۔اگر دوسرا ملک متفق ہو تو اس میں آپ اپنی فوج بھیج سکتے ہیں ‘جو وہاں رہ کر آپ کے اور اس کے دشمنوں کا صفایا بھی کر سکتی ہے ۔یہ کام مالدیپ ‘نیپال اور سری لنکا میں بھارت کر چکا ہے لیکن متفق ہوئے بغیر 'ہاٹ پرسوئٹ‘ بھی زبردست تناؤاور مٹھ بھیڑ کاسبب بن سکتا ہے۔ چین اور پاکستان کے ساتھ بھارت کے جیسے رشتے ہیں ‘انہیں دیکھتے ہوئے کوئی بھی عقلمند لیڈر‘ہاٹ پرسوئٹ‘ کی بات سوچ بھی نہیں سکتا۔
پہلی بات تو یہ کہ دو پڑوسی ملک بھارت مخالف طبقوں کو نہ صرف پناہ دیتے ہیں بلکہ ان کی حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں جب کہ دیگر پڑوسی ملک اس معاملے سے الگ ہیں ۔دوسرا‘دیگر پڑوسی ملکوں کے مقابلے چین اور پاکستان کافی بڑے ہیں ِ‘فوجی حساب سے مضبوط ہیں اور ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں ۔اسی لئے ہمیں یہ اچھی طرح سے سمجھ لینا چاہئے کہ چین اور پاکستان ‘برما یا بھوٹان نہیں ہیں۔ جہاں تک برما‘بھوٹان اور سری لنکاجیسے پڑوسیوں کا سوال ہے ‘وہ بھی اپنی خودمختاری کے بارے میں بہت بیدار ہیں۔ اسی لئے جب بھارت سرکار نے دعویٰ کیا کہ اس نے برما میں گیارہ کلو میٹر اندر جا کر باغیوں کے خیموں پر حملہ کیا تو برما سرکار نے فوراًتردید کی ۔اس نے کہا کہ جو بھی کارروائی ہوئی ہے وہ ‘بھارت برما کی سر حد پر ہوئی‘ برما کی سرحدکے اندر نہیں۔ پتا نہیں سچ کیا ہے؟ بات بات میں چھلانگیں مارنے والے ہمارے ٹی وی چینل وہاں جا کر سچ کا پتا کیوں نہیں لگاتے؟ برما نے بھارت سرکار کے اس دعوے کو بھی مسترد کر دیا کہ وہ کسی دوسرے ملک کے باغیوں کو پناہ دیتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ برما سرکار کو یہ اسی لئے کرنا پڑا کہ وہ اپنے اندرونی مخالفین کو گلہ یا شکایت کا موقع نہیں دینا چاہتی ہے۔ لیکن برما سرکار کے اس بیان سے بھارت سرکار پس وپیش میں پڑ گئی ہے۔ اس کے اس دعوے پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا ہے کہ اس کی اس فوجی کارروائی کے بارے میں برما سرکار کو سب کچھ پتا تھا۔ اگر برمی سرکار سچ مچ بھارت پرست ہوتی تو حیرت کی بات ہے کہ وہ اس موقع پر نگا لیڈر ایس ایس کھاپ لانگ کا فوٹو جاری کیوں کرتی ‘جو رنگون کے سرکاری ہسپتال میں اپنا علاج کرو ارہا ہے۔ مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں بھارت برما تعلقات میں کوئی تناؤ پیدا نہ ہوجائے ؟اگر برما نے کوئی مخالفت کا خط بھیج دیا تولینے کے دینے پڑ جائیں گے ۔
یوں بھی اب چار پانچ دن کے بعد پتا چل رہا ہے کہ برما کے چندیل ضلع میں مارے گئے باغیوں کی صرف سات لاشیں ملی ہیں ‘جبکہ دعویٰ یہ تھا کہ لگ بھگ پچاس باغی مارے گئے ہیں ۔ایسا لگتا ہے کہ بھارت کے اٹھارہ جوانوں کا جو قتل 4جون کو جو اِن باغیوں نے کیا تھا‘ اس کا بدلہ لینے کی کوشش ہماری فوج نے کی ہے۔ فوج کی کارروائی فی الفور اور کامیاب رہی لیکن سرکار اپنا ڈھول ذرا کم پیٹتی توبہتر رہتا۔لگ بھگ بیس سال پہلے نرسمہا راؤ سرکار نے آسام کی سرحد پر اس سے بھی زیادہ سنجیدہ اور بڑی کارروائی کی تھی لیکن اس کا کوئی ڈھنڈورا نہیں پیٹا تھا۔ ڈر یہی ہے کہ اس چھوٹی سی کارروائی کے موٹے سے پرچار کے سبب کہیں سارے باغی ایک جُٹ نہ ہو جائیں ۔واہ واہی لوٹنے کے چکر میں بھارت سرکار اپنی حالت کہیں ہنسی جیسی نہ بنا لے ‘یہی فکرہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ سارے پڑوسی ملک اپنی خود مختاری کا راگ الاپنے لگیں اور مستقبل میں بھارت ایسا قدم نہ اٹھا پائے جبکہ بھارت کو ایسے قدم اٹھانے کے لیے سدا تیار رہنا چاہئے لیکن یہ طاقت تبھی حاصل ہو سکتی ہے جبکہ چین اور پاکستان جیسے پڑوسیوں کے ساتھ بھارت کے تعلقات بہتر اور باہمی اعتماد کے لائق ہوں۔ بھارت کے چھوٹے موٹے پڑوسی تویہ بہانہ بھی بنا سکتے ہیں کہ ان کے پاس بھارت کے باغیوں کو سیدھا کرنے کی طاقت نہیں ہے لیکن چین اور پاکستان کے ساتھ بھارت کے تعلقات اچھے ہوں تو یہ ملک باغیوں کا کچومرنکال سکتے ہیں لیکن اس کے لئے بھارت کے لیڈروں کے پاس56 انچ سینے کے ساتھ ساتھ چھ انچ کا ایسادماغ بھی ہونا چاہئے‘ جس میں سیاسی چالاکی ہو‘خارجہ پالیسی کی دور اندیشی ہو۔