"DVP" (space) message & send to 7575

افغان ایوان پر حملہ

افغان ایوان پرطالبان نے حملہ کر دیا۔سبھی حملہ آور مارے گئے؛ البتہ کوئی بھی بھارتی ہلاک نہیں ہوالیکن کیا آپ سمجھ رہے ہیں کہ یہ حملہ صرف افغان پارلیمنٹ پر ہی ہوا ہے ؟نہیں ‘ یہ بھارت پر بھی ہوا ہے ۔کابل میں بنی پارلیمنٹ کی عمارت کس نے بنائی ہے ؟بھارت نے ۔یہ شاندار عمارت بھارت افغان دوستی کی زندہ نشانی تو ہے ہی‘ یہ افغانستان کی جمہوریت کی مشعل بھی ہے ۔اس پر حملہ کرکے طالبان نے افغانستان ‘بھارت اور جمہوریت تینوں کو للکارا ہے ۔
یوں تو طالبان نے کابل کے بھارتی قونصلیٹ ‘ہرات کے قونصلیٹ اور دلارام مارگ پر کئی حملے کیے‘ لیکن افغان ایوان پرکیے گئے اس حملے کا خاص مقصد ہے ۔جیسے بھارت کی پارلیمنٹ پر حملہ کیا گیاتھا‘ویسے ہی افغانستان کی پارلیمنٹ پر حملہ کیا گیا۔ دونوں حملوں کا نمونہ ایک جیسا ہے ۔کیا ان کے حملہ آور بھی ایک جیسے ہی ہیں ؟کیا ان کے حملہ آ وروں کی پشت ٹھوکنے والے بھی ایک جیسے ہی لوگ ہیں؟ان سوالات کے جوابات تو افغان سرکار کی تفتیش کے بعدہی ملیں گے‘ لیکن اس حملے سے افغانستان کے دوستوں کو خبردار ہو جانے کی ضرورت ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ امریکی واپسی کے بعدافغانستان میں امن کے آثار بہت کم ہیں ۔جب تک مسئلے کا ٹھوس حل تلاش نہیں کر لیا جاتا‘ دنیا کی کوئی طاقت ان حملوں کو نہیں روک سکتی۔ دوسری بات‘ اشرف غنی کے صدر بننے کے بعدکوئی خاص فرق نہیں پڑا ہے۔ ان کے ہاتھ ناامیدی ہی لگی ہے ۔قندوز جیسے فارسی زبان والے صوبہ کے دواضلاع پربھی طالبان کا قبضہ ہو گیا ہے ۔افغان فوج میں پٹھانوں کی اکثریت ہے اور طالبان تو ہیں ہی پٹھان‘ اسی لئے افغان فوج کا بھی کوئی بھروسہ نہیں ہے کہ وہ کب کون سی کروٹ لے لے۔افغانستان کی اقتصادی حالت بھی سنگین ہے۔ اس کے علاوہ صدر غنی اور وزیر اعظم عبداللہ عبداللہ میں بھی اتحادنہیں ہے۔ حالات خاصے خطرناک ہیں ۔
ایسے میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنا ٹھیک نہیں ہے۔ امریکہ کا پچھ لگو بنے رہنے سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہے۔ سب کو مل کر دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔
سشما ‘وسندھرا راجے معاملے کا کیا کریں ؟
للت مودی کو لے کر نریندر مودی بڑے کنفیوژن میں ہیں۔ بھاجپا اورسَنگھ بھی پریشان ہے لیکن اس سارے معاملے میں بھاجپائیوں اور سنگھیوں کی ایک بڑی خوبی ابھرکر سامنے آئی ہے۔ وہ یہ ہے کہ اپنے ساتھیوں کو مصیبت میں اکیلا نہیں چھوڑتے۔ سشما سوراج اور وسندھرا کا جیسے سر عام اور ڈٹ کروہ حمایت کر رہے ہیں ‘کیا کانگریسیوں نے کبھی ششی تھرور یا ابھیشیک سنگھوی کی ویسی حمایت کی تھی ؟ یہ دونوں خواتین لیڈر ایسی ہیں ‘جو مودی کے اندھے بھگت نہیں ہیں بلکہ انہیں مودی کے مخالف بھی بتایاجاتا تھا۔ اس کے باوجودمودی نے اس موقع کا استعمال ان دونوں کے پنکھ کاٹنے کیلئے نہیں کیا‘یہ بڑی بات ہے ۔اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ مودی کی پختگی میں اضافہ ہو رہا ہے‘ ورنہ وہ ان دونوں کا وہی حال کر سکتے تھے ‘جیسا انہوں نے گجرات کے کئی بھاجپائی لیڈروں اور سنگھ کے پرچارکوں کا کیا ہے ۔
خیر ‘جو بھی ہو نریندربھائی مودی ‘ کے مونی( خاموش) بابا بنے رہنے سے کام نہیں چلے گا۔یہ یوگ مُدرا(یوگ کا ایک عمل) نقصان دہ ہوگا‘آپ کے لیے اور آپ کی سرکار کے لیے بھی! بہتر یہ ہے کہ دونوں لیڈر سشما اور وسندھراپریس کانفرنس کریں ۔ہر سوال کا ڈٹ کر جواب دیں ۔ذرا مجھ سے سیکھیں ۔ حافظ سعید والے معاملے میں کئی ارکانِ پارلیمنٹ اور لگ بھگ سبھی ٹی وی چینل مجھ پر کس طرح ٹوٹ پڑے تھے ۔فولادی مرد کی یہ سرکار موم کی پتلی بن گئی تھی ۔میرے کانگریسی دوست بوکھلا گئے تھے‘ لیکن میں نے دودن میں ہی سب کی ہوا نکال دی۔سانچ کو آنچ نہیں ۔
اگر سشماسوراج اور وسندھرا نے دوستی یا لحاظ داری یا انسانیت کے ناتے متاثر ہوکرکوئی انسانی بھول کی ہے تو اسے وہ پُراخلاق طریقے کے ساتھ قبول کریں ۔لوگ ان کی بات سمجھیں گے اور ان کی جانب صحت مند رویہ اپنائیں گے۔نہ تو انہیں مستعفی ہونے کی ضرورت ہوگی اور نہ ہی اپوزیشن والے اس کا کچھ بگاڑ سکیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ دونوں خواتین اور مودی سرکار للت مودی کو پکڑنے میں متحرک ہو جائیں ۔اسے فوراًبھارت لے آئیں اور اس نے جو اربوں روپے غیر ممالک میں چھپا رکھے ہیں ‘اس کالے دھن کو سفید کر دیں ۔اگر وہ ایسا کر سکیں توکیا ان کی بھولوں کواور مودی کی خاموشی کولوگ معاف نہیں کر دیں گے؟لیکن اگر سشما اور وسندھرا چھپتی چھپاتی رہیں اور مودی منہ پر پٹی باندھے رہے تو اگلے ایوانی سیشن میں سرکار کی رہی سہی عزت بھی مٹی میں مل جائے گی ۔
رمضان میںگائے کے گوشت کا ترک
اتر پردیش کے کئی نامی گرامی مولاناؤں اور مسلم جماعتوں نے اس بارکمال کا اعلان کیا ہے ۔انہوں نے کہا ہے کہ رمضان کا مہینہ شروع ہو چکا ہے ۔اس پاک مہینے میں وہ گائے کا گوشت استعمال نہیں کریں گے ۔یوں بھی اتر پردیش کے مسلمان گائے کا گوشت کم کھاتے ہیں لیکن یہ شاید پہلا موقع ہے‘جب اتر پردیش مسلم تجارتی جماعت نے ایسااعلان کیا ہے۔ اس کے اعلان کی حمایت سنی اور شیعہ ‘دونوں فرقوں کے لیڈروں نے کی ہے ۔کئی معاملات ایسے ہیں ‘جن پر دونوں فرقوں کی جانب سے اختلاف رائے ہو جاتے ہیں لیکن گائے کے مدعہ پر دونوں کی متفقہ رائے ہونا خوش آئند ہے۔
کیوں ہے؟ کیونکہ دونوں چاہتے ہیں کہ رمضان کے پاک مہینے میں‘ جبکہ ملک کے لگ بھگ سبھی مسلمان بھائی روزے رکھتے ہیں ‘وہ اپنے ہندو بھائیوں کے جذبات کا دھیان رکھیں ۔انہیں گائے یا کسی بھی طرح کا گوشت کھانے سے کوئی نہیں روک سکتالیکن وہ اپنی مرضی سے یہ ترک کر رہے ہیں ‘یہ اپنے آپ میں بڑی بات ہے ۔اس بات کا ایک دوسرا پہلوبھی ہے۔ ان کے گائے گوشت چھوڑنے سے ہندوؤں اور سکھوں کے دل میں رمضان کے لئے عزت اپنے آپ پیدا ہوگی ۔روزہ جسم اور روح کیلئے مفید ہوتا ہے۔ اس میں صحت بھی اچھی ہوتی ہے اور صبر بھی بڑھتا ہے۔ یہی ہر مذہب کی تعلیم بھی ہے۔ خود کو امام ظاہر کرتے ہوئے مسلم تجارتی جماعت کے صدر شمیم شمسی نے کہا ہے کہ ''گائے کا گوشت تو زہر ہے جبکہ گائے کا دودھ آب حیات ہے‘‘۔
میں تو اس سے بھی تھوڑا آگے جانا چاہتا ہوں ۔گوشت تو گوشت ہے۔کیا گائے کا گوشت کیا سؤر کا گوشت؟کیا مرغی کا گوشت اور کیا بکرے کا گوشت؟کوئی بھی گوشت کھانا ضروری کیوں ہے ؟جو آدمی گوشت نہیں کھاتا‘کیا وہ اچھا مسلمان نہیں ہو سکتا؟کیافقط سبزی خورہونا اسلام میں منع ہے ؟ساری دنیا کے ڈاکٹرمانتے ہیں کہ سبزی ہی آدمی کی فطری غذا ہے ۔کچھ جانور ضرور ایسے ہیں ‘جو گوشت کے بنا نہیں رہ سکتے۔ وہ سدا حملہ آور ہوتے ہیں ۔آدمیوں کوویسا کیوں ہونا چاہئے ؟اگر رمضان جیسے پاک مہینے اور روحانی موقع پردنیا کے سارے مسلمان عزم کر لیں کہ وہ شراب کی طرح ہر قسم کے گوشت کا استعمال نہیں کریں گے تو وہ اپنی صحت اور صبر کو تو طاقتور بنائیں گے ہی ‘وہ دنیا کے سبھی ہندو ؤں ‘عیسائیوں ‘یہودیوں اور منکروں کے لیے بھی ایک مثال پیش کریں گے۔
(ادارہ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں