ہر 14 ستمبرکی طرح اس سال بھی یوم ہندی آیا اور چلا گیا۔ اس دن کو تاریخی بنایا جا سکتا تھا کیوں کہ دو دن پہلے ہی بھارت میں ہندی عالمی پروگرام مکمل ہوا تھا۔میں سوچ رہا تھا کہ اس یوم ہندی پر ہمارے محترم وزیر اعظم جی کچھ کرشمہ کر دیں گے۔اسی لئے بھی کہ ہندی نے ہی انہیں وزیر اعظم بنایا۔سارے ملک میں گھوم پھر کر انہوں نے ووٹ کیا انگریزی میں مانگے تھے ؟نہیں ‘ہندی میں مانگے تھے۔ گجراتی ہوتے ہوئے دلوں کو چھونے والی ہندی میں مانگے تھے ۔اگر انہیں ہندی نہ آتی ہوتی تو ان کی حالت کامراج جیسی ہو جاتی۔ وہ اپنے دم خم سے وزیر اعظم بنے ہیں‘ پارٹی جوڑ توڑ سے نہیں۔ لیکن انہوں نے اپنا قرض نہیں اتارا‘وہ چاہتے تو اس یوم ہندی کے موقع پرکرشمہ کر سکتے تھے‘پورے ملک کو جگا سکتے تھے ۔ان سے اچھی نوٹنکی آج ملک میں کوئی نہیں کر سکتا ۔وہ میڈیا کو ٹھینگے پر رکھتے ہیں لیکن میڈیا کی مجبوری ہے ۔وزیر اعظم کی کرسی پر بیٹھا کوئی آدمی چھینکتا بھی ہے تو اسے خبر بنانا پڑتا ہے ۔جیسے مشن صفائی‘یوم یوگ ‘وغیرہ کی نوٹنکیاں رچائی گئیں ۔ادھر ویسے ہی یوم ہندی پر بھی کچھ انتظام ہو جاتا تو ملک میں اس کا کچھ نہ کچھ اثر تو ہوتا ہی لیکن ہندی ہے ہی ایسی !بیچاری کی قسمت میں نوٹنکی بھی نہیں ہے۔
لیکن بڑی خوشی کی بات ہے کہ آرایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے اپنی جواب داری نبھائی ۔انہوں نے جے پور کے اہم لوگوں کے پروگرام میں ہندی کو طاقت عطا کی۔ کسی آدمی نے کھڑے ہوکر ان سے پوچھا کہ یہ سرکارآ پ کو بھی نظر انداز کیوں کر رہی ہے ؟آپ نے بنگلور کانفرنس میں تمام بھارتیوں سے پرزور درخواست کی تھی کہ سب اپنے اپنے دستخط ہندی یا مادری زبان میں کریں۔اس بارے مودی سرکار نے کیا کیا؟موہن جی کیا بولتے؟انہوں نے اپنی بات دہرائی کہ 'ڈاکٹر ویدک کی اس تحریک کو ہماری مکمل حمایت ہے‘۔ یوں تو صدر پرنب مکھرجی نے یوم ہندی پر اپنا کرم کانڈ پورا کیا ۔لیکن ان کے صدارتی ہاؤس سے یوم ہندی کا اشتہار انگریزی میں جاری ہوا۔بیچاری ہندی کے آنسو انگریزی رومال سے پونچھے گئے ۔عالمی یوم ہندی کا بندوبست بھی مدھیہ پردیش سرکارنے کیا اور وہ ہی ہندی پرچار کیلئے زبردست کوشش بھی کر رہی ہے ۔اس نے سابق سنگھ کے سربراہ آنجہانی شری سدرشن اور میری گزارش مان کر اٹل بہاری واجپائی ہندی یونیورسٹی بھی قائم کر دی ہے لیکن ہندی کیا مدھیہ پردیش کی زبان ہے ؟وفاقی سرکار کیا کر رہی ہے ؟سرکاری نوکریوں کی بھرتی سے انگریزی کاامتحان ختم کیوں نہیں کیا جاتا؟ہماری عدالتوں اور اعلیٰ تعلیم سے انگریزی کی ضرورتیں ختم کیوں نہیں ہوتی؟ہمارے بازاروں سے انگریزی نام غائب کیوں نہیں ہوتے ؟اگر یہ سب کام نریندر مودی نہیں کرسکتے تو کون مائی کا لعل کر سکتا ہے ؟
بھارت سری لنکا سمندری سرنگ
سری لنکا کے وزیر اعظم رنل بکرم سنگھ نے وزیر اعظم بننے کے بعد سب سے پہلے بھارت کا دورہ کیا ‘یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ ان کی نظر میں بھارت کی اہمیت کتنی ہے ۔انہوں نے مہندر راج پاکسی کو ہرایا‘جو پہلے صدر تھے اور جو تامل ٹائیگروں کو ہٹا کر سری لنکا کے ملکی مہا نائیک بن کر ابھرے تھے ۔راج پاکسی تاملوں کے خلاف تو تھے ہی ‘ان کا جھکاؤ چین کی طرف زیادہ تھا۔اسی لئے نئے صدر میتری پال شری سین اور وزیر اعظم رنل بکرم سنگھ دونوں ہی بھارت کو پسند کرتے ہیں ۔
رنل بکرم سنگھ نے بھارت آ کر جو سب سے ضروری بات کہی‘ وہ یہ ہے کہ وہ سری لنکا کے تاملوں کو برابری کا درجہ دینگے تاکہ وہ عزت سے سر اٹھا کر جی سکیں ۔سری لنکا کے تامل علاقوں کو کئی بار خود مختاری وغیرہ دینے کے وعدے کیے گئے ہیں اور آئین میں ترمیم بھی کی گئی لیکن آج تک انہیں نافذ نہیں کیا گیا۔سنگھلی لیڈروں پر تاملوں کی بے اعتمادی کے سبب ہی سری لنکا میں علیحدگی پسندی اور دہشتگردی نے جنم لیا تھا‘جس کا شکار بھارت بھی ہوا لیکن رنل بکرم سنگھ نے اب بھارت سے وعدہ کیا ہے کہ وہ اب نیا قانون بھی لا رہے ہیں ‘جو تاملوں کے ساتھ مکمل انصاف کرے گا۔ رنل بکرم سنگھ کا یہ وعدہ اسلئے بھی بہت ہی اہمیت والا ہو گیا ہے کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ بھی آ چکی ہے۔ اس رپورٹ میں تاملوں پر کیے گئے تمام مظالم کا پردہ فاش ہوا ہے۔ یقیناً اس سے سری لنکا کی کافی بدنامی ہوگی ۔رنل بکرم سنگھ کا بیان اس کی عبوری کاٹ کرے گا ۔
دونوںملکوں کے بیچ چل رہے مچھواروں کے مدعے پر بھی دونوں وزرائے اعظم کی بات چیت نتیجہ خیز رہی ۔امید ہے کہ اب جھڑپیں اور مٹھ بھیڑ یں کم ہوں گی ۔دونوں ملکوں میں تجارت بڑھے گی ‘دفاعی معاملات میں زیادہ تعاون کرنے اور سری لنکا میں بھارتی سرمایہ کاری کی پیشکش پر بھی بات ہوئی ۔بھارت اب وابنیا نام کے علاقہ کے ایک ہسپتال کو بھی آالات سے لیس کرے گا ۔سارک سیارے کے متعلق چار معاہدے بھی ہوئے ہیں۔ بھارت کی تجارت اور اکانومی تعاون کی بنیاد پر سری لنکا میں کم از کم دس لاکھ نئے روزگار پیدا ہونے کی امید ہے ۔ سڑکوں‘ آمدورفت اور بحری جہاز رانی کے بھارتی وزیر نتن گڈ کری اور رنل بکرم سنگھ کی ملاقات بڑی دلچسپ رہی۔ گڈکری نے بھارت اور سری لنکا کے بیچ 22 کلو میٹر کا جو سمندری فاصلہ ہے ‘اس میں ایک سرنگ بنانے کی پیشکش بھی کی‘یہ اور کچھ نہیں رام سیتوہی ہے ۔رنل بکرم سنگھ نے اسے ہنومان سیتو بھی کہا۔تلائی منار سے دھنش کوٹی تک بننے والی اس سرنگ کیلئے ایشیائی ترقیاتی بینک پانچ ارب ڈالر سے بھی زیادہ دینے کو تیار ہے ۔اگر اگلے چار سال میں یہ خواب پورا ہو جائے تو کیا کہنے؟بی جے پی سرکار کا نام تاریخ میں سنہری لفظوں میں لکھا جائے گا۔یہ سمندر سرنگ دونوں ملکوں کے دلوں کا رنگ ہی بدل دے گی ۔
سبھاش بابو : کانگریس بنام بھاجپا
نیتا جی سبھاش چندر بوس کو لے کر پھر بحث چھڑ گئی ہے ۔مغربی بنگا ل کی سرکار نے نیتاجی کے متعلق سبھی خفیہ فائلیں عوام کیلئے کھول دی ہیں ۔12744 صفحات کی 64 فائلوں میں سے کئی باتیں سامنے آئی ہیں‘ان میں سے دو باتیں خاص ہیں ۔ایک تو کہ نہرو سرکار نیتا جی کے خاندان والوں کی زبردست جاسوسی کرتی رہی اور دوسری یہ کہ نیتا جی کے رشتے دار اور کچھ دوسرے لوگ یہ نہیں مانتے کہ اٹھارہ اگست 1945 ء کو تائیوان کے ایک ہوائی حادثہ میں ان کی موت ہو گئی ۔یہ بھی مان لیا گیا کہ گمنامی بابا یا شول ماری بابا یا کسی اور گمنام نام سے نیتا جی آزادی کے بعد کئی برسوں تک بھارت میں ہی رہے ۔
آزادی کے ہیروز میں گاندھی کے بعد سب سے عوام میں مقبول نیتا سبھاش بابو ہی تھے ۔سبھاش بوس نے گاندھی کے امیدوار پٹا بھی ستار میاکوبھی کانگریس کے صدارتی چناؤ میں شکست دی تھی ۔اگر جواہر لعل نہرونیتا جی کے خاندان کی جاسوسی کرواتے تھے تو یہ ان کی مجبوری تھی۔اگر سبھاش بابو واقعی زندہ ہوتے اور بھارت آ جاتے تو نہرو سرکار کو لینے کے دینے پڑ جاتے۔کوئی بھی سرکار اپنے دفاع کا پورا انتظام کیوں نہیں کرے گی ؟
جہاں تک سبھاش بابوکے موت کی بات ہے ‘ تقریباً ہر بھارتی کواس بارے میں شک رہا ہے ۔سبھاش بابوجیسی عالمی شخصیت کے چاروں اور ایسا راز بھر اماحول بن گیا تھا کہ وہ عظیم لیڈر کی طرح ہمیشہ کیلئے زندہ ہو گئے لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا سبھاش بابوکسی گمنام فقیر کی طرح اپنے کو چھپاکر رہ سکتے تھے؟ کیا وہ نہرو سے ڈر گئے تھے ؟کیا وہ ڈپریشن کا شکار ہو گئے تھے؟ کیاان کو بھارت کی خراب حالت کی فکر نہیں تھی ؟اگر تھی تو وہ میدان میں کیوں نہیں آئے ؟ان سوالات کا ان لوگوں کے پاس کوئی جواب نہیں ہے ‘جو فقیروں اور باباؤں کے چہروں پر سبھاش بابو کا چہرا تھوپ رہے ہیں ۔
سبھاش بابو کو کانگریس بنام بھاجپا کا معاملہ بنانابھی مناسب نہیں ہے ‘کیونکہ اندراجی نے سبھاش بابو کی عزت میں کوئی کوتاہی نہیں کی ۔ان کی شان میں ڈاک ٹکٹ جاری ہوئے‘ فلمیں بنیں ‘ملکی لیول پر چھٹی رکھی گئی ‘سڑکوں اور عمارتوں پر نام رکھے گئے۔ 1969 ء میں اندراجی جب کابل گئیں تو وہ میری درخواست پر اس کمرے میں جانے والی تھیں ‘جس میں سبھاش بابو یورپ جانے سے پہلے چھپ کر رہتے تھے ۔کابل کے 'ہندو گوجر‘محلے کے اس کمرہ کو میں نے ڈھونڈ نکالااور سبھاش بابو کی تصویر کو میں نے وہاں لگایا۔مجھے افغان وزیر خارجہ ڈاکٹر خان فرہادی نے بتایا کہ وہ جگہ اتنی غیر محفوظ ہے کہ وہاں اندرا جی نہیں جا پائیں گی۔اچھا ہوتا کہ اندرا جی کے زمانے میں ہی ساری دستاویزات کھول دی جاتیں۔پتا نہیں‘ سرکار کیوں جھجک رہی ہے ؟جیسے کانگریسی سرکاریں جھجکتی رہیں‘ ویسے ہی بھاجپا سرکار جھجک رہی ہے۔
ہر 14 ستمبرکی طرح اس سال بھی یوم ہندی آیا اور چلا گیا۔ اس دن کو تاریخی بنایا جا سکتا تھا کیوں کہ دو دن پہلے ہی بھارت میں ہندی عالمی پروگرام مکمل ہوا تھا۔میں سوچ رہا تھا کہ اس یوم ہندی پر ہمارے محترم وزیر اعظم جی کچھ کرشمہ کر دیں گے۔اسی لئے بھی کہ ہندی نے ہی انہیں وزیر اعظم بنایا۔سارے ملک میں گھوم پھر کر انہوں نے ووٹ کیا انگریزی میں مانگے تھے ؟نہیں ‘ہندی میں مانگے تھے۔ گجراتی ہوتے ہوئے دلوں کو چھونے والی ہندی میں مانگے تھے ۔اگر انہیں ہندی نہ آتی ہوتی تو ان کی حالت کامراج جیسی ہو جاتی۔ وہ اپنے دم خم سے وزیر اعظم بنے ہیں‘ پارٹی جوڑ توڑ سے نہیں۔ لیکن انہوں نے اپنا قرض نہیں اتارا‘وہ چاہتے تو اس یوم ہندی کے موقع پرکرشمہ کر سکتے تھے‘پورے ملک کو جگا سکتے تھے ۔ان سے اچھی نوٹنکی آج ملک میں کوئی نہیں کر سکتا ۔وہ میڈیا کو ٹھینگے پر رکھتے ہیں لیکن میڈیا کی مجبوری ہے ۔وزیر اعظم کی کرسی پر بیٹھا کوئی آدمی چھینکتا بھی ہے تو اسے خبر بنانا پڑتا ہے ۔جیسے مشن صفائی‘یوم یوگ ‘وغیرہ کی نوٹنکیاں رچائی گئیں ۔ادھر ویسے ہی یوم ہندی پر بھی کچھ انتظام ہو جاتا تو ملک میں اس کا کچھ نہ کچھ اثر تو ہوتا ہی لیکن ہندی ہے ہی ایسی !بیچاری کی قسمت میں نوٹنکی بھی نہیں ہے۔
لیکن بڑی خوشی کی بات ہے کہ آرایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے اپنی جواب داری نبھائی ۔انہوں نے جے پور کے اہم لوگوں کے پروگرام میں ہندی کو طاقت عطا کی۔ کسی آدمی نے کھڑے ہوکر ان سے پوچھا کہ یہ سرکارآ پ کو بھی نظر انداز کیوں کر رہی ہے ؟آپ نے بنگلور کانفرنس میں تمام بھارتیوں سے پرزور درخواست کی تھی کہ سب اپنے اپنے دستخط ہندی یا مادری زبان میں کریں۔اس بارے مودی سرکار نے کیا کیا؟موہن جی کیا بولتے؟انہوں نے اپنی بات دہرائی کہ 'ڈاکٹر ویدک کی اس تحریک کو ہماری مکمل حمایت ہے‘۔ یوں تو صدر پرنب مکھرجی نے یوم ہندی پر اپنا کرم کانڈ پورا کیا ۔لیکن ان کے صدارتی ہاؤس سے یوم ہندی کا اشتہار انگریزی میں جاری ہوا۔بیچاری ہندی کے آنسو انگریزی رومال سے پونچھے گئے ۔عالمی یوم ہندی کا بندوبست بھی مدھیہ پردیش سرکارنے کیا اور وہ ہی ہندی پرچار کیلئے زبردست کوشش بھی کر رہی ہے ۔اس نے سابق سنگھ کے سربراہ آنجہانی شری سدرشن اور میری گزارش مان کر اٹل بہاری واجپائی ہندی یونیورسٹی بھی قائم کر دی ہے لیکن ہندی کیا مدھیہ پردیش کی زبان ہے ؟وفاقی سرکار کیا کر رہی ہے ؟سرکاری نوکریوں کی بھرتی سے انگریزی کاامتحان ختم کیوں نہیں کیا جاتا؟ہماری عدالتوں اور اعلیٰ تعلیم سے انگریزی کی ضرورتیں ختم کیوں نہیں ہوتی؟ہمارے بازاروں سے انگریزی نام غائب کیوں نہیں ہوتے ؟اگر یہ سب کام نریندر مودی نہیں کرسکتے تو کون مائی کا لعل کر سکتا ہے ؟
بھارت سری لنکا سمندری سرنگ
سری لنکا کے وزیر اعظم رنل بکرم سنگھ نے وزیر اعظم بننے کے بعد سب سے پہلے بھارت کا دورہ کیا ‘یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ ان کی نظر میں بھارت کی اہمیت کتنی ہے ۔انہوں نے مہندر راج پاکسی کو ہرایا‘جو پہلے صدر تھے اور جو تامل ٹائیگروں کو ہٹا کر سری لنکا کے ملکی مہا نائیک بن کر ابھرے تھے ۔راج پاکسی تاملوں کے خلاف تو تھے ہی ‘ان کا جھکاؤ چین کی طرف زیادہ تھا۔اسی لئے نئے صدر میتری پال شری سین اور وزیر اعظم رنل بکرم سنگھ دونوں ہی بھارت کو پسند کرتے ہیں ۔
رنل بکرم سنگھ نے بھارت آ کر جو سب سے ضروری بات کہی‘ وہ یہ ہے کہ وہ سری لنکا کے تاملوں کو برابری کا درجہ دینگے تاکہ وہ عزت سے سر اٹھا کر جی سکیں ۔سری لنکا کے تامل علاقوں کو کئی بار خود مختاری وغیرہ دینے کے وعدے کیے گئے ہیں اور آئین میں ترمیم بھی کی گئی لیکن آج تک انہیں نافذ نہیں کیا گیا۔سنگھلی لیڈروں پر تاملوں کی بے اعتمادی کے سبب ہی سری لنکا میں علیحدگی پسندی اور دہشتگردی نے جنم لیا تھا‘جس کا شکار بھارت بھی ہوا لیکن رنل بکرم سنگھ نے اب بھارت سے وعدہ کیا ہے کہ وہ اب نیا قانون بھی لا رہے ہیں ‘جو تاملوں کے ساتھ مکمل انصاف کرے گا۔ رنل بکرم سنگھ کا یہ وعدہ اسلئے بھی بہت ہی اہمیت والا ہو گیا ہے کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ بھی آ چکی ہے۔ اس رپورٹ میں تاملوں پر کیے گئے تمام مظالم کا پردہ فاش ہوا ہے۔ یقیناً اس سے سری لنکا کی کافی بدنامی ہوگی ۔رنل بکرم سنگھ کا بیان اس کی عبوری کاٹ کرے گا ۔
دونوںملکوں کے بیچ چل رہے مچھواروں کے مدعے پر بھی دونوں وزرائے اعظم کی بات چیت نتیجہ خیز رہی ۔امید ہے کہ اب جھڑپیں اور مٹھ بھیڑ یں کم ہوں گی ۔دونوں ملکوں میں تجارت بڑھے گی ‘دفاعی معاملات میں زیادہ تعاون کرنے اور سری لنکا میں بھارتی سرمایہ کاری کی پیشکش پر بھی بات ہوئی ۔بھارت اب وابنیا نام کے علاقہ کے ایک ہسپتال کو بھی آالات سے لیس کرے گا ۔سارک سیارے کے متعلق چار معاہدے بھی ہوئے ہیں۔ بھارت کی تجارت اور اکانومی تعاون کی بنیاد پر سری لنکا میں کم از کم دس لاکھ نئے روزگار پیدا ہونے کی امید ہے ۔ سڑکوں‘ آمدورفت اور بحری جہاز رانی کے بھارتی وزیر نتن گڈ کری اور رنل بکرم سنگھ کی ملاقات بڑی دلچسپ رہی۔ گڈکری نے بھارت اور سری لنکا کے بیچ 22 کلو میٹر کا جو سمندری فاصلہ ہے ‘اس میں ایک سرنگ بنانے کی پیشکش بھی کی‘یہ اور کچھ نہیں رام سیتوہی ہے ۔رنل بکرم سنگھ نے اسے ہنومان سیتو بھی کہا۔تلائی منار سے دھنش کوٹی تک بننے والی اس سرنگ کیلئے ایشیائی ترقیاتی بینک پانچ ارب ڈالر سے بھی زیادہ دینے کو تیار ہے ۔اگر اگلے چار سال میں یہ خواب پورا ہو جائے تو کیا کہنے؟بی جے پی سرکار کا نام تاریخ میں سنہری لفظوں میں لکھا جائے گا۔یہ سمندر سرنگ دونوں ملکوں کے دلوں کا رنگ ہی بدل دے گی ۔
سبھاش بابو : کانگریس بنام بھاجپا
نیتا جی سبھاش چندر بوس کو لے کر پھر بحث چھڑ گئی ہے ۔مغربی بنگا ل کی سرکار نے نیتاجی کے متعلق سبھی خفیہ فائلیں عوام کیلئے کھول دی ہیں ۔12744 صفحات کی 64 فائلوں میں سے کئی باتیں سامنے آئی ہیں‘ان میں سے دو باتیں خاص ہیں ۔ایک تو کہ نہرو سرکار نیتا جی کے خاندان والوں کی زبردست جاسوسی کرتی رہی اور دوسری یہ کہ نیتا جی کے رشتے دار اور کچھ دوسرے لوگ یہ نہیں مانتے کہ اٹھارہ اگست 1945 ء کو تائیوان کے ایک ہوائی حادثہ میں ان کی موت ہو گئی ۔یہ بھی مان لیا گیا کہ گمنامی بابا یا شول ماری بابا یا کسی اور گمنام نام سے نیتا جی آزادی کے بعد کئی برسوں تک بھارت میں ہی رہے ۔
آزادی کے ہیروز میں گاندھی کے بعد سب سے عوام میں مقبول نیتا سبھاش بابو ہی تھے ۔سبھاش بوس نے گاندھی کے امیدوار پٹا بھی ستار میاکوبھی کانگریس کے صدارتی چناؤ میں شکست دی تھی ۔اگر جواہر لعل نہرونیتا جی کے خاندان کی جاسوسی کرواتے تھے تو یہ ان کی مجبوری تھی۔اگر سبھاش بابو واقعی زندہ ہوتے اور بھارت آ جاتے تو نہرو سرکار کو لینے کے دینے پڑ جاتے۔کوئی بھی سرکار اپنے دفاع کا پورا انتظام کیوں نہیں کرے گی ؟
جہاں تک سبھاش بابوکے موت کی بات ہے ‘ تقریباً ہر بھارتی کواس بارے میں شک رہا ہے ۔سبھاش بابوجیسی عالمی شخصیت کے چاروں اور ایسا راز بھر اماحول بن گیا تھا کہ وہ عظیم لیڈر کی طرح ہمیشہ کیلئے زندہ ہو گئے لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا سبھاش بابوکسی گمنام فقیر کی طرح اپنے کو چھپاکر رہ سکتے تھے؟ کیا وہ نہرو سے ڈر گئے تھے ؟کیا وہ ڈپریشن کا شکار ہو گئے تھے؟ کیاان کو بھارت کی خراب حالت کی فکر نہیں تھی ؟اگر تھی تو وہ میدان میں کیوں نہیں آئے ؟ان سوالات کا ان لوگوں کے پاس کوئی جواب نہیں ہے ‘جو فقیروں اور باباؤں کے چہروں پر سبھاش بابو کا چہرا تھوپ رہے ہیں ۔
سبھاش بابو کو کانگریس بنام بھاجپا کا معاملہ بنانابھی مناسب نہیں ہے ‘کیونکہ اندراجی نے سبھاش بابو کی عزت میں کوئی کوتاہی نہیں کی ۔ان کی شان میں ڈاک ٹکٹ جاری ہوئے‘ فلمیں بنیں ‘ملکی لیول پر چھٹی رکھی گئی ‘سڑکوں اور عمارتوں پر نام رکھے گئے۔ 1969 ء میں اندراجی جب کابل گئیں تو وہ میری درخواست پر اس کمرے میں جانے والی تھیں ‘جس میں سبھاش بابو یورپ جانے سے پہلے چھپ کر رہتے تھے ۔کابل کے 'ہندو گوجر‘محلے کے اس کمرہ کو میں نے ڈھونڈ نکالااور سبھاش بابو کی تصویر کو میں نے وہاں لگایا۔مجھے افغان وزیر خارجہ ڈاکٹر خان فرہادی نے بتایا کہ وہ جگہ اتنی غیر محفوظ ہے کہ وہاں اندرا جی نہیں جا پائیں گی۔اچھا ہوتا کہ اندرا جی کے زمانے میں ہی ساری دستاویزات کھول دی جاتیں۔پتا نہیں‘ سرکار کیوں جھجک رہی ہے ؟جیسے کانگریسی سرکاریں جھجکتی رہیں‘ ویسے ہی بھاجپا سرکار جھجک رہی ہے۔