کچھ مخالف پارٹیوں اور سوشل میڈیا کے لوگوں نے شور مچا رکھا ہے کہ نریندر مودی نے ترنگے جھنڈے کی توہین کی ہے ۔مودی نے یہ وزیر اعظم ہوتے ہوئے کیا ہے ۔یعنی مودی نے ناقابل معافی گناہ کیا ہے؟
کیا مودی نے ترنگے کو الٹا لٹکا دیا ہے ‘جیساکہ پہلے کئی لیڈر کر چکے ہیں ؟کیا مودی نے ترنگے سے ہاتھ منہ پونچھ لیے ہیں؟ کیا مودی نے ترنگے کو اچھا ل کر کسی نالے میں گرا دیا ہے ؟کیا کیا ہے‘مودی نے ‘جس کے سبب ان کی کھچائی کی جا رہی ہے؟مودی نے ترنگے پر صرف اپنے دستخط کیے ہیں ۔کیا کسی کے دستخط توہین ہوتے ہیں؟ دستخط اتنے اہمیت والے ہوتے ہیں کہ ایک کاغذ کا ٹکڑا کروڑوں کا ہو جاتا ہے ‘اگر اس پر دستخط کر دیے جائیں تو!دستخط کی قیمت دستخط کرنے والوں سے بھی زیادہ ہوتی ہے ۔اگر مودی نے ترنگے پر دستخط کیے اور اس سے اگر کسی سرکاری کوڈ کی حکم عدولی ہوئی تواس کوڈ کو فوراً بدلنا چاہیے۔ ایسے کوڈ کو رکھنے کی ضرورت کیا ہے ؟
مودی نے جس رنگین کپڑے پر دستخط کیے ‘وہ باقاعدہ ترنگا جھنڈا نہیں تھا‘بلکہ ترنگے جیسا کپڑا تھا ‘جو امریکی صدر کو بطور تحفہ دیا جانا تھا ۔اسے بنایا تھا ایک معذور بیٹی نے ۔کوئی بھی دل والا آدمی اس پر دستخط کر دے گا ۔مودی جیسے آدمی نے کر دیے ‘یہ اپنے آپ میں بڑی بات ہے ۔ترنگے جھنڈے کو سرکاری جکڑ سے آزاد کرانے کا کریڈٹ کانگریس کے سابق رکن پارلیمنٹ نوین جندل کو ہے ‘جنہوں نے سپریم کورٹ کے دروازے کھٹکھٹائے تھے۔ بھارت جیسے بت پرست ملک میں بے جان چیزوں کو بھی بھگوان کا درجہ دینے کی ہوڑ لگی رہتی ہے۔ترنگے کو ہم نے عام آدمی کی پہنچ سے دور کر رکھا تھا ۔یہ ٹھیک ہے کہ قومی جھنڈے کے احترام میں ذرا بھی کوتاہی نہیں ہونی چاہیے لیکن اگر وہ عوام میں پہنچے گا ‘گھروں اور دروازوں پر لہرایا جائے گا ‘گاڑیوں پر لگا ہوگا تو یہ ضروری ہے کہ ہم اس کے بارے میں احترام بنائیں لیکن بے جان کی عبادت کرنے والے نہ بنیں ۔
سعودی حکومت ازالہ کرے
عید کے پاک دن پر دنیا اور ملک میں پھیلے ہزاروں مسلم دوستوں کو مبارک باد بھیجنے کا سوچ رہا تھا کہ سعودی عرب میں یہ دل کو چیر دینے والا حادثہ ہوگیاجس کی خبر سن کرانتہائی افسوس ہوا۔سیکڑوں لوگ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔بھارت میں تو یہ مانا جاتا ہے کہ جو زائرین حج کرنے یا زیارت کرنے جاتے ہیں ‘اگر ان کی وہیں موت وہ جائے تو وہ سیدھا جنت میں جاتا ہے ۔ایک نظریے سے یہ صحیح بھی ہے ۔ان دنوں میں حج یا زیارت کرنے کون جاتاتھا؟وہی جو اپنی زندگی کے آخری سفر میں ہو اور ان دنوں خود ایسا سفر کرنا بڑا ہی دلیری کا کام ہوتا تھا۔ہر زائرین کو آخری و داعی پہلے سے دی جاتی تھی۔ لیکن جدید دور میں بدری ناتھ‘ کیدار ناتھ یا مکہ یا مدینہ یا یروشلم یا روم جاناتو لگ بھگ بائیں ہاتھ کا کھیل ہو گیا ہے ۔اب کوئی خطرہ بھی نہیں ہے ۔ایسے میں سیکڑوں لوگوں کو اپنی زندگی سے ہاتھ دھونا پڑے ‘یہ کسی بھی سرکار کیلئے سوچنے کی بات ہونی چاہیے ۔سعودی عرب میں پہلے بھی یہ کئی بار ہو چکاہے ۔بھارت ‘ پاکستان ‘بنگلہ دیش اور افغانستان کے کئی لوگ پہلے بھی مارے جا چکے ہیں ۔اس وقت بھارت سے لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ لوگ وہاں حج کرنے گئے ہوئے ہیں ۔
سعودی سرکار نے جانچ کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔جانچ تو پہلے بھی ہوتی رہی ہے ۔جانچ سے کیا نکلا ہے؟ سعودی شاہی خاندان کے لوگوں کو اس کا ازالہ کرنا چاہیے۔ انہیں ہلاک ہونے والوں کو کم ازکم ایک ایک کروڑ روپیہ معاوضہ دینا چاہیے ۔دوسرا‘حج کے سبھی پاک مقامات پر سخت حفاظتی انتظام کرنے چاہئیں ۔
سعودی شاہی خاندان کو میں ازالے کیلئے کہہ رہا ہوں ‘اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایرانی سرکارکی طرح میں اسے ذمہ دار ٹھہرا کے سیاست میں الجھ رہا ہوں ۔اس طرح کے واقعات ایران‘ چین اور بھارت میں بھی کئی بار ہوئے ہیں اور اب بھی ہوتے رہتے ہیں ۔ساری خبرداریوں کے باوجود ہو جاتے ہیں ۔اس کی ذمہ داری زائرین پر بھی کم نہیں ہے ۔ان کو پہلے سے خبردار اور تربیت دینا بھی ضروری ہے ۔
سرکار کرے علاج کا انقلاب
دلی میں اس بار قریب قریب 1800لوگوں کو ڈینگو ہوا ہے۔ کئی بچوں اور نوجوانوں نے اپنا دم توڑ دیا ہے ۔لیکن ایک ایسی ٹریجڈیی ہوئی جسے لکھتے ہوئے میری قلم کانپ رہی ہے ۔ایک غریب والدین کے سات برس کے بچے کو لے کر ہسپتالوں کے چکر لگاتے رہے لیکن سبھی ہسپتال بہانہ بناتے رہے کہ ان کے یہاں جگہ نہیں ہے ۔پلنگ خالی نہیں ہے ۔نتیجہ کیا ہوا ‘اسے بچے نہ دم توڑ دیا ۔اس کے جوان والدین کو اتنا زبردست جھٹکا لگا کہ انہوں نے خود کشی کر لی ۔کتنا شرمناک حادثہ ہو ا‘یہ ۔یہ کہاں ہوا؟دلی میں! سرکار کی ناک کے نیچے !دلی سرکار نے ان چار پانچ ہسپتالوں کو نوٹس بھیج کرچھٹی پائی کہ آپ کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جائے؟ہسپتال کہہ رہے ہیں کہ ہمیں پتا ہی نہیں کہ وہ مریض کب لایا گیا!کیا آپ سوچتے ہیں کہ مودی اور کجری وال کی سرکاروں میں اتنا دم ہے کہ وہ ان سرکاری اور غیر سرکاری ہسپتالوں کی چار پائی کھڑی کر سکیں ؟اگر کر بھی دیں تو کیا ہوگا؟کسی ایک معاملے میں وہ معافی مانگ لیں گے اور پھر وہی چال شروع ہو جائے گی۔
ملک کے عام شہریوں کی جانب اس لاپروئی کا ایک ہی فی الفور طریقہ مجھے سوجھتا ہے ۔میں نریندر مودی اور کجری وال سے توقع کرتا ہوں کہ وہ اس تدبیر کو کرکے دکھائیں ۔کیا وہ ایسا قانون بنا سکتے ہیں کہ دلی سرکار کے سبھی ملازم‘سبھی چنے ہوئے لیڈر ‘سبھی ججزاور سبھی قابل صحافیوں کے لئے یہ لازمی ہو کہ وہ اپنا اور اپنے رشتے داروں کا علاج سرکاری ہسپتالوں میں ہی کروائیں ۔جو نہ کروائیں ‘ان پر بڑا جرمانہ ہو اور انہیں عہدے سے برخاست کرنے یا ان کی منظوری کو ختم کرنے کا بھی دستور ہو ۔کسی خاص بیماری یا ایمرجنسی میں سرکار سے اجازت لے کر وہ باہر بھی علاج کروا سکتے ہیں ۔
یہ قاعدہ میرے اس مشورے کے مطابق ہے ‘جو میں نے تعلیم کے متعلق دیا تھا اور جسے الہ آباد ہائی کورٹ نے اتر پردیش میں نافذ کر دیا ہے ۔سبھی سرکاری ملازمین ‘چنے ہوئے عوامی لیڈر اور ججوں کے بچے لازمی صورت سے سرکاری سکولوں میں پڑھیں گے ۔اگر یہ دونوں مشورے سارے ملک میں نافذ ہو جائیں تو بھارت کی تعلیم اور صحت کا نقشہ ہی بدل جائے ۔غیر سرکاری ہسپتال اور تعلیم کے مراکزاچھا کام کر رہے ہیں لیکن کیا سرکار انہیں لوٹ پاٹ کے اڈے بننے سے بچائے گی؟