"DVP" (space) message & send to 7575

گائے کے بدلے آدمی کا قتل

گریٹر نوئیڈا کے گاؤں بساڑا میں محمد اخلاق کو کچھ لوگوں نے اس لئے مار ڈالا کہ انہیں شک تھا کہ اس کے گھر میں گائے کا گوشت کھایا جا رہا ہے ۔صرف شک تھا ۔کسی نے اس خاندان میں گائے کو کاٹتے ہوئے یا ان لو گوں کو گوشت کھاتے ہوئے اپنی آنکھ سے دیکھا نہیں تھا ۔گاؤں کے پجاریوں نے لائوڈ سپیکر پر اعلان کیا اور حملہ بول دیا ۔اخلاق کے بیٹے دانش پر بھی قاتلانہ حملہ ہوا۔
یہ ٹھیک ہے کہ اتر پردیش میں گائے کے کاٹنے پر پابندی ہے لیکن چوری چھپے لوگ گائے کا گوشت کھاتے بھی ہیں ‘خریدو فروخت بھی ہوتی ہے ،جیسے کئی اور قانون توڑے جاتے ہیں ‘یہ قانون بھی اکثر ٹوٹتا رہتا ہے ۔لیکن یہ بات بالکل سمجھ کے پرے ہے کہیں کسی قانون کی حکم عدولی کا شک ہو تو لوگ اپنے آپ ہی جج بن جائیں اور بنا کسی بحث مباحث کے 'مجرم ‘ کو پھانسی دے دیں ۔اگر کسی نے جان بوجھ کر یا انجانے ہی گائے کو کاٹ دیا ہو تو اسے باقاعدہ قانونی عمل سے گزرنا چاہیے لیکن یہ کونسا مذہب ہے کہ ایک جانور کے قتل کے بدلے انسان کا قتل کر دیا جائے ؟یہ کیسا انصاف ہے یا ناانصافی ہے یہ کونسا مذہب ہے ؟یہ انسانیت ہے یا حیوانیت؟یہ ٹھیک ہے کہ گائے کو ہندوؤں نے ماں کا درجہ دے رکھا ہے اور اس میں بھی شک نہیں ہے کہ گائے سب سے اچھا جانور ہے لیکن ایسا اس لئے مانا جا تا ہے کہ ہم گائے کا جائز لحاظ کریںنہ کہ اسے انسان سے بھی اعلیٰ سمجھنے لگیں ۔گائے کیا ‘کسی بھی جانور یا پرندے کاکو مارنا نامناسب ہے ۔گوشت خوروں کا قتل کر کے آپ ان کا گوشت کھانا چھڑا سکتے ہیں ‘کیا ؟فرقہ واریت تناو ٔ پھیلانے سے کیا ہم گائے کے قتل کو روک سکیں گے ؟ایسا کرنے سے گائے بھی مرتی رہیں گی اور آدمی بھی مرتے رہیں گے ۔
سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہمارے لیڈر لوگ ایسے حادثوں کو بھی سیاسی دنگل میں بدل دیتے ہیں ۔وہ ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے میں لگے رہتے ہیں لیکن میں بساڑا گاؤں کے ان تین ہندو نوجوانوں کو شاباسی دیتا ہوں جنہوں نے اپنا پڑوسی فرض بخوبی نبھایا ۔انہوں نے اپنے 70 مسلمان پڑوسیوں کو رات کی رات میں دادری پہنچا دیا ۔رات کے اندھیرے میں انہوں نے ان 70 مسلمانوں کو گاؤں کا تالاب پار کروایا ۔رات کو دو بجے تک وہ جٹے رہے ۔ان لوگوں کیلئے کیا کہا جائے ‘جنہوں نے اپنے ہی پڑوسیوں کو مار ڈالا ۔
تاکہ خدا بندے سے خود پوچھے
وزیر اعظم نریندر مودی کا یہ دوسرا دورہ امریکہ بھی کافی مقبول ہو رہا ہے ۔یہ اندازہ غلط ثابت ہو رہا ہے کہ یہ دوسرا دورہ پہلے دورے کی طرح مقبول نہیں ہوگا۔لوگوں کو لگتا ہے کہ پہلے دورے کے مقابلے اس دورے کے دوران کچھ ٹھوس نتائج نکلنے کے امکانات دکھائی پڑتے ہیں ۔ہیلی کاپٹروں کی خرید کا بڑا سودا تو ہوا ہی ہے ‘امریکی کمپنیوں کے نامی گرامی مالکوں کو جیسا میلہ مودی دیکھنے کیلئے جٹا ہے‘شاید ہی کسی کو دیکھنے کیلئے جٹا ہو ۔روپرٹ مرڈوک جیسے کئی آدمیوں نے مودی کی تعریف کے پل باندھ دیے ہیں لیکن اصلی سوال یہ ہے کہ یہ سب باتیں اور ملاقاتیں کہیں کوئی گہرا بھرم جال بن کر نہ رہ جائے ؟غیر ملکی سرمایہ کاروں کو کیا بھارت کے بارے میں کچھ پتا ہے ؟جب بھارت میں رہنے والے لوگ ہی پرچار کی دھند میں کچھ دیکھ نہیں پاتے تو بیرونی ممالک والے تمام زیادہ مصروف دولتمندوں کو کہاں وقت ہے کہ وہ بھارت کی پوری جانکاری رکھیں تعریفوں کے پل باندھنے میں انکا کیا جاتا ہے لیکن جب کروڑوں ڈالر بھارت میں لگانے کی بات آئے گی تو وہ اپنی ایک ایک کوڑی پر دھیان دیں گے اور سچائی کی ساری پرتیں کھول کر دیکھنا چاہیں گے ۔سوا سال میں جتنے بیرونی دورے مودی نے کیے ہیں ‘کیا کسی دوسرے وزیر اعظم نے کیے ہیں ؟جتنا خرچ مودی نے کیا ہے ‘کیا کسی دوسرے وزیراعظم نے کیا ؟اس میں سے کیا نکلا ؟لاکھوں کروڑوں روپیہ کے سرمایہ کاری کے اعلان ہوتے رہے لیکن مشن صفائی کی طرح وہ صاف ہو جاتے ہیں ۔یہ بدقسمتی ہے ۔سال بھر بعد کھوکھلے پرچار کے یہ بادل پھٹیں گے اور ان میں سے آگ برسے گی ۔تب کیا ہوگا؟
یہی سال ہے ‘سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت پانے کا ۔جن پانچ طاقتوں کے ہاتھ میں اصلی فیصلہ کن طاقت ہے ‘انہوں نے تو کنارہ کشی کر رکھی ہے لیکن جی فور ممالک جرمنی ‘جاپان ‘برازیل اور بھارت ایک دوسرے کی پشت ٹھوک رہے ہیں ۔وہ ایک دوسرے کوہوائی تسلی دے رہے ہیں ۔مودی نے نیویارک میں ایسے ایسے ملکوں کے صدور سے بھی بات کی ہے ‘جو بھارت کے کسی چھوٹے ضلع سے بھی چھوٹے ہیں ۔یہ ٹھیک ہے کہ مودی کو بین الاقوامی سیاست کی باریکیوں کا پتا نہیں ہے لیکن ہمارے نوکر شاہ اسی کا فائدہ اٹھا کر بیرونی ممالک میں بھی نوٹنکیوں سے دل بہلا رہے ہیں ؟بھارت کو بڑی طاقت اقوام متحدہ کیا بنائے گا ؟اسے خود عظیم طاقت بننا ہوگا تاکہ خدا خود بندے سے پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے ؟کیا اس طرف ہم سوا سال میں ایک انچ بھی آگے بڑھے ہیں ؟
نیپال :بھارت کا قصور کیا ہے ؟
بھارت نیپال تعلقات میں اچانک گراوٹ بڑھتی جا رہی ہے ۔دونوں ملکوں کے بیچ پہلے بھی کئی بار تناؤ ہوا ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ نیپال ہماری شکایت کرنے اقوام متحدہ پہنچ گیا ہو۔نیپال کے نائب وزیر اعظم پرکاش مان سنگھ نے پہلے اقوام متحدہ میں بھارت کا رونا رویا اور پھر وہ جنرل سیکریٹری بان کی مون کے پاس پہنچ گئے ۔مان سنگھ نے بھارت پر نیپال کی گھیرابندی کا الزام جڑ دیا ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ بھارت سرکار نے سرحد کے سبھی ناکے بند کر دیے ہیں تاکہ آمدورفت رک جائے ۔مال سے بھرے ٹرک
سرحد پر کھڑے رہیں ۔پٹرول کی سخت قلت پڑگئی ہے ۔نیپالی عوام تنگ ہو گئی ہے ۔اس کا سارا قصور بھارت پر تھوپا جا رہا ہے ۔نیپال کی تینوں پارٹیاں ‘نیپالی کانگریس ‘ایمالے اور پرچنڈ کی مائووادی ایک جٹ ہو کر بھارت کو کوس رہی ہیں ۔
وہ دنیا کو یہ نہیں بتا رہیں کہ سرحد پر ناکہ بندی کی اصلی وجہ کیا ہے؟حقیقت میں نئے آئین میں ان تینوں پارٹیوں نے مدھیسی لو گوں کو حاشیہ میں ڈال دیا ہے ۔ان کی مخالفت کرنے پر درجنوں مدھیسیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے۔اب ان غصائے ہوئے مدھیسیوں نے بھارت نیپال راستوں کو بند کر دیا ہے ۔وہ دھرنے دے رہے ہیںاور مظاہرے کر رہے ہیں ۔اگر ٹرک اور بسیں نیپال میں جانے نہیں دیے جا رہے ہیں تو اس میں بھارت کیا کرے ؟بھارت مدھیسیوں کی کھل کر حمایت ضرور کر رہا ہے لیکن وہ ناکہ بندی نہیں کر رہا ہے ۔یہ نیپال کا اندرونی معاملہ ہے ۔نیپالی لیڈروں کو تھوڑی پختگی اور دریا دلی سے کام لینا چاہیے مدھیسیائی غصے کو ختم کرنا چاہیے ۔فی الفور بات چیت شروع کرنی چاہیے ۔نیپال کو پہاڑی اور میدانی دو حصوں میں نہیں بنٹنے دینا چاہیے ۔بھارت ایسا کبھی نہیں چاہے گا ۔نیپال کے اتحاداور سلامتی میں ہی بھارت کا فائدہ ہے ۔اس مشکل وقت میں گھڑی میں اگر نیپالی لیڈر اقوام متحدہ میں بھارت کے خلاف مورچہ کھولیں گے تو یہ کھیل انہیں کافی مہنگا پڑے گا ۔وہ چین کو بھی مقابلے میں کھڑا کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں ‘یہ بھی ان کے لئے فائدے کا سودا نہیں ہو گا ۔نیپالی لیڈروں کو چاہیے کہ وہ بھارت سے سیدھی بات کریں ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں