"DVP" (space) message & send to 7575

اب اقوام متحدہ میں بھی بد عنوانی

اقوام متحدہ میں چل رہی زبردست بدعنوانی کاا بھی ابھی پردہ فاش ہوا ہے ۔اعلیٰ سطح پر ہوئی اس بدعنوانی کی ایسی خبر آئی ہے کہ اس پر یقین کرنا مشکل ہو رہاہے ۔ اقوام متحدہ کی کانفرنس کا صدر رشوت لے سکتا ہے ‘یہ بات سوچ کر عجیب لگتا ہے لیکن اب یہ سچائی بن گئی ہے۔ 2013 ء میں اس کانفرنس کے صدر جان ایش تھے ‘جو کہ اینٹیگوااور بربودا کے سفیر تھے ۔یہ عہدہ اقوام متحدہ میں دوسرے یا تیسرے نمبر کا بڑا عہدہ مانا جاتا ہے ۔اس جان ایش نے تقریباًتیرہ لاکھ ڈالر کی رشوت کھائی ۔کھائی تو اور بھی ہے لیکن 13 لاکھ ڈالر کے ثبوت مل چکے ہیں ۔کیوں کھائی ‘اس نے یہ رشوت؟اس لئے کہ اقوام متحدہ میں سدھار کے عمل کیلئے جو دستاویز اس کی دیکھ ریکھ میں بن رہی تھی ‘یا تو اسے بننے ہی نہ دے یا اسے ایسا کردیں کہ اس کی اہمیت ہی نہ رہ جائے ۔یہی ہو ا۔کچھ ہفتے پہلے وہ دستاویزجب پیش ہوئی تووہ بے معنی ثابت ہوئی ۔
چینی سرکار نہیں چاہتی ہے کہ سلامتی کونسل کا پھیلاؤ ہو اور بھارت بھی اس میں چین کے برابر ی پر آبیٹھے ۔کانفرنس کے حالیہ صدر سیم کٹیسا کی بھی اس معاملے میں ملی بھگت معلوم پڑتی ہے ۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری بان کی مون کو یہ سب جان کر بہت گہرا صدمہ پہنچا ہے ۔دنیا کی اس بڑی جماعت کی زینت پیندے میں بیٹھ گئی ہے ۔
پریت بھابھڑا نام کی اس محترمہ جج نے ایش کی گرفتاری کا اعلان کر دیا ہے ۔پریت کا کہنا ہے کہ ایش کا بھانڈا پھوٹتے ہی کئی دیگر معاملات بھی سامنے آئیں گے اور اسے خوف ہے کہ اقوام متحدہ میں کہیں متحدہ بدعنوان جماعت نہ بن گئی ہو۔
انگریزی پر حملہ 
پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف پر دو مقدمے دائر ہو گئے ہیں ‘وہاں کی سپریم کورٹ میں ۔یہ مقدمے ایسے مدعہ کو لے کر دائر ہوئے ہیں کہ جن کا اندازہ بھی بھارت میں نہیں کیا جا سکتا ۔ میاں نواز پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے پاکستان کے آئین اور سپریم کورٹ کی توہین کی ہے ‘اقوام متحدہ میں انگریزی میں خطاب کر کے۔ستمبر2015 ء کے اپنے ایک فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ لیڈروں اور افسروں کو آرٹیکل 251کی فرماں برداری کرنی چاہیے یعنی اپنی تقاریراور بات چیت اردومیں ہی کرنی چاہئیں ۔درخواست گزار زاہد غنی کا کہنا ہے کہ میاں نواز کا اقوام متحدہ میں خطاب‘اوباما سے بات چیت اور امریکی اداروں میں دیے گئے لیکچر سبھی انگریزی میں تھے ۔میاں نواز نے عدالت اور آئین دونوں کی حکم عدولی کی ہے۔آئین کے آرٹیکل 204 کے مطابق اس پر ایکشن ہونا چاہئے۔
یوں بھی پاکستان کے دانا میاں نواز کی انگریزی کا کافی مذاق اڑاتے ہیں۔ ایک مشہور خاتون صحافی کے لیکھ تو اس لئے پاکستان میں مقبول ہیں کہ وہ میاں نواز کی انگریزی کو بڑا چٹ پٹا بناتی ہیں ۔ نوازشریف اور نریندر مودی کی انگریزی لگ بھگ ایک جیسی ہی ہے لیکن اقوام متحدہ میں مودی کا خطاب ہندی میں ہوتا ہے ۔سشما سوراج کی انگریزی نوازاور مودی سے کہیں بہتر ہے لیکن وہ بھی ہندی میں بولیں ‘جبکہ بھارت میں پاکستان کی طر ح کوئی روک ٹوک نہیں ہے ۔بھارت میں انگریزی کا استعمال سارے لیڈر اور افسر بہت بے شرمی سے کرتے ہیں ۔درخواست گزار نے مودی کا نام نہیں گنایا لیکن روس کے پیوٹن ‘چین کے شی جن فنگ ‘کیوبا کے کاسترو‘ایران کے روحانی ‘یوکرین کے پاراشینکواور جاپان کے شنزو آبے کے نام لے کر بتایا کہ یہ سب لیڈر اپنی قومی زبان میں ہی خطاب کرتے ہیں تو نواز کیوں نہیں کرتے؟مجھے لگتا ہے کہ ان درخواستوں کامیاں نواز پر اثر ضرور ہوگا لیکن یہ کافی نہیں ہے ۔ پاکستان اپنے آپ کو بھارت سے بہتر سمجھتا ہے تواس معاملے میں ذرا بھارت سے آگے نکل کر دکھائے ۔ 
دشہرے پر ہندو صدر کا پیغام 
راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کے سربراہ اور صدر کے پیغام میں کیا فرق ہے ؟ایک ہندو تنظیم کے صدر اور دوسرے بھارت ملک کے صدر ہیں ۔صدر یوم آزادی اور یوم جمہوریہ کے موقع پر پیغام دیتے ہیں اور سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت دشہرے پر پیغام دیتے ہیں‘جوکہ اس مرتبہ سنگھ کو قائم ہوئے 91 برس ہوئے ہیں اس کا پروگرام تھا ۔دونوں کے پیغامات کی آواز وہی ہوتی ہے ‘جو سرکار کہنا چاہتی ہے َخاص طور سے تب جبکہ سرکار اپنے سوئم سیوکوں کی ہو ۔ جیسے آپ صدر مملکت سے یہ امید نہیں کر سکتے کہ وہ سرکار پر تنقید کرے‘ویسے ہی سنگھ سربراہ سے یہ توقع کیسے رکھ سکتے ہیں کہ وہ اپنے مریدوں کے کان کھینچے؟سنگھ سربراہ موہن بھاگوت نے اس نظریے سے بہت ہی سرکار کو اچھی لگنے والی بات کہہ دی ۔انہوں نے واضح کہہ دیا کہ ناامیدی کاجیسا ماحول دوسال پہلے تھا‘ویسا اب نہیں ہے 'اب ہم فکرمیں نہیں ہیں‘۔موہن بھاگوت جی کا فکرمند نہ ہونا ہی فکر والی بات ہے ۔نریندر مودی فکر میں بالکل بھی نہ ہوں‘یہ فطری ہے۔ وہ وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھے ہوئے ہیں ۔اس کرسی کے آس پاس کوئی عام بندہ پھٹک بھی نہیں سکتا ۔بی جے پی کارکنان کیلئے بھی وہ دور کی کوڑی ہی ہے ۔بی جے پی کے لیڈراوروزرا حضرات بھی ذرا خبردار ۔انہیں پہلے سے سنگھ کے سخت اصولوںکی تربیت ملی ہوئی ہے ۔صرف سدا بہار نوکر شاہوں کی بہار آئی ہوئی ہے ۔ان کا پہلا کام ہی وزیر اعظم کو ٹینشن فری رکھنا ہے۔وزیر اعظم اس لئے ٹینشن فری ہوکر بیرونی ممالک میں بھارت کا نگاڑہ پیٹتے رہتے ہیں اور بھارت میں عوامی جلوس کو خطاب کرتے رہتے ہیں ۔ درجنوں عام لوگ اس سے روز ملتے رہتے ہیں ۔وہ فقیر کی طرح سارے ملک میں گھومتے رہتے ہیں ۔کیا انہیں بھی سچ مچ میں یہ لگتا ہے کہ ‘اچھے دن جلد ی ہی آنے والے ہیں ؟گزشتہ ڈیڑھ برس میں کیا 'اچھے دنوں ‘ کی بنیاد جما دی گئی ہے ؟۔
سنگھ سربراہ موہن بھاگوت کی اس بات پر کچھ لوگوں نے طعنہ مارا ہے کہ انہوں نے قتل کی وارداتوںکو جھٹ پٹ واقعات کیسے کہہ دیا ؟وہ حقیقت میں ہیں تو چھٹ پٹ ہی لیکن ٹی وی چینلوں اور اخباروں نے انہیں سرس کے بدن کی طرح کھینچ کر آسمان کو چومنے والا بنا دیا ۔یہ ان کی اپنی تجارت کی مجبوری ہے ۔ اس مجبوری کے آگے بھاجپا کے لیڈر نوسکھئے ہی نکلے ۔ان کی ہوا سرک گئی ۔اگر ان میں تجربہ اور دم ہوتا تو وہ ظلموں کے خلاف اتنا دھاڑتے کہ ایسے کام کرنے والوں کے دل دہل جاتے ۔حیرانی تو یہ ہے کہ فرقہ واریت اور ذات پات کے واقعات پر سنگھ سربراہ بھی خاموش رہے ۔سرکار اور سنگھ کی اس خاموشی کی دھاڑ پورے ملک میں گونجتی رہی ۔اس دھاڑ کو پھیکا کرنے کا ذمہ ایسے وزیروں کے حوالے کر دیا گیا ہے ‘جنہوں نے آج تک بلدیاتی چناؤ بھی نہیں جیتا ۔ایسے وزیروں کے ایک دو اچھے بیانات سے مرہم کا تھوڑا سا کام کرتے ہیں تو اسی وقت دیگر بھاجپا لیڈر ان زخموں پر تیزاب کی بالٹیاں الٹنے میں ذرا بھی دیر نہیں کرتے ۔
سنگھ سربراہ نے سرکار کے کچھ کاموں کا بھی ذکر کیا ۔ان کے انجام ابھی آنے باقی ہیں ۔لیکن کچھ مشن تو کورے جھن جھنے ہیں ‘ یہ کیوں نہیں بتایا ؟ان سے بہتر بات توپالیسی کمیشن کے اس ممبر نے کہہ دی ‘جسے اس موقع پر خصوصی مہمان بنایا گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ 'سمارٹ سٹی ‘ تو ٹھیک ہے ‘ملک کو سمارٹ گاؤں ‘پہلے
چاہیے۔اسی طرح خارجہ پالیسی کے بارے میں بھی سنگھ سربراہ کی موٹی موٹی بات تو ٹھیک ہے کہ بیرونی ممالک میں بھارت کا نام ادھر خوب گونج رہا ہے لیکن اس گونج سے کون سا سنگیت نکل رہا ہے ‘یہ انہوں نے نہیں بتایا ۔بھارت کو سلامتی کونسل میں بٹھانے کی بات ابھی ہو ا میں جھول رہی ہے ۔دنیا کے ایک اکیلے واحد 'ہندو ملک‘نیپال سے ہمارے تعلقات کھٹے ہوگئے ہیں ۔پاکستان کے ساتھ ہماری سرکار جھولا جھولتی دکھائی پڑ تی ہے ۔کبھی آگے ‘کبھی پیچھے ۔پڑوسی ملک میں چین کا اثر بڑھتا چلا جا رہا ہے ۔دنیا کی عظیم قوت تو محض خواب بھر ہے ‘ڈیڑھ سال میں ہم جنوبی ایشیا میں ہی اپنا اثر نہیں بنا پائے۔ امریکہ ‘چین ‘ جاپان ‘جرمنی‘فرانس اور درجنوں چھوٹے موٹے ملکوں کے چکر ہم لگا آئے لیکن ہم یہ نہیں بتا پا رہے کہ بھارت کو ٹھوس حاصلات کیا ہوئی؟بیرونی ممالک میں یوگ ‘گیتا ‘ آیورویدوغیرہ کا پرچار ضرور بڑھا ہے ۔اس کا کریڈٹ سرکار اپنے کو دے رہی ہے لیکن یہ کام تو اس کے آنے کے بہت پہلے سے کچھ یوگیوں نے شروع کر دیا تھا ۔اس کا کریڈٹ انہیں دینے کی بجائے خود جھپٹنے کی کوشش عجیب سی لگتی ہے ۔
انہوں نے جن جن کاموں کے اعلان کیے ہیں ‘ان کے ہندی نام تک انہیں پتا نہیں ہیں ۔'میک ان انڈیا‘ڈیجیٹل انڈیا‘ـسمارٹ سٹی ‘یہ سب کیا ہیں ؟سنگھ سربراہ جی ‘ ذرا یہ بتائیے کہ آپ اپنی شاخوں میں سوئم سیوکوں کو کیا یہی سب سکھاتے ہیں ؟یہ سوئم سیوکوں کی سرکار ہے ۔اس کے پاس کوئی خودرائے نقشہ ہے‘جس کی بنیاد پر بھارت کے مستقبل کی تعمیر ہوگی؟اس سے بڑی بد قسمتی کیا ہوگی کہ ساڑھے تین سال بعد یا اس کے پہلے ہی جب یہ سرکار اپنے گھر بیٹھ جائے گی ‘تب لوگ پوچھیں گے کہ سنگھ کی شاخوں میں سوئم سیوک سنگھ کو صرف ہاتھ پاؤں چلانا سکھایا جاتا ہے ‘دماغ چلانا کیوں نہیں سکھایا جاتا ؟ کیا ہندو ملک کی تعمیر اسی طرح ہوگی؟ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں