"DVP" (space) message & send to 7575

پیرس میں دہشت گردی‘ ذمہ دار کون؟

پیرس دہشت گردانہ حملے مغربی دنیا کے لئے بہت بڑا سبق ہیں۔گیارہ ماہ پہلے چارلی ایبڈوپر حملہ ان حملوں کے آگے بہت معمولی دکھائی پڑتا ہے ۔پیرس حملوں نے فرانس ہی نہیں ‘پورے یورپ کی ہڈیوں میں کپکپی دوڑا دی ہے۔فرانس میں ایمرجنسی اور پیرس میں کرفیو نافذ کردیا گیا ۔ایک سو پچاس سے بھی زائد لوگ مارے گئے ہیں‘تقریباًسبھی دہشتگردوں نے خود کشی کر لی ہے ۔دنیا بھر کے ممالک اور اُن کے لیڈروں نے پیرس دھماکوں کی مذمت کی ہے ۔
اس سے پہلے بھی خوفناک حملے ہو چکے ہیں لیکن مغربی ملک ‘ خاص طور سے امریکہ نے کوئی سبق نہیں سیکھا ۔امریکہ نے اپنے تحفظ کا تو پورا انتظام کر لیا لیکن دوسرے ملکوں کو دہشت گردوں کے حوالے ہونے دیا ۔اگر پیرس کا حملہ شام کے دہشت گردوں نے کیا ہے تومیں پوچھتا ہوں کہ انہیں سر پر کس نے چڑھایا تھا؟شام کی اسد سرکار کو الٹانے کیلئے کس ملک نے زور لگایا ؟ امریکہ نے ہی افغانستان کے دہشت گردوں کو بڑھاوا دیا تھا ‘ جنہوں نے اب پاکستان کا حال بھی بے حال کر دیا ہے۔امریکہ بھول گیا کہ خونخوار لوگ اسی ہاتھ کو کاٹ کھاتے ہیں ‘جو انہیں کھلاتا ہے ۔ مغربی ممالک دہشت گردوں میں فرق کرنا بند کریں ‘یہ پہلا کام ہے ۔دہشت گرد اچھے اور برے ‘اپنے اور پرائے نہیں ہوتے ۔یہ کسی کے سگے نہیں ہوتے ۔ یورپ کے مسلمانوں کی زندگی کیا اب خطرے میں نہیں پڑ جائے گی ؟ان کا جینا حرام ہو جائے گا ۔یورپین ملک بھارت کی طرح برداشت کرنے والے نہیں ہیں ۔ذرا سپین کی تاریخ کو یاد کریں ۔گولی کا جواب گولی سے ضرور دیا جائے لیکن بولی کے ہتھیارسے بڑا کوئی ہتھیار نہیں ہے۔دہشت گردوں سے سیدھی بات قائم کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے ‘جتنا کہ ان پر بندوق تانے رکھنا ۔
نیپال میں تھمے مودی کمپ (زلزلہ)
نیپال کی کابینہ نے ایک بل پاس کر کے بھارت سے ‘رکسول اور بیر گنج راستے کی ناکہ بندی اٹھانے کی اپیل کی ہے۔ اپیل میں اگرچہ بھارت پر ناکہ بندی کا الزام نہیں لگایا گیا ۔اس ناکہ بندی سے نیپال کو اب تک پانچ ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہو گیا ہے۔ زلزلہ سے زیادہ مودی زلزلے نے نیپال کو ہلا دیا ہے۔ پٹرول اور ادویات کی کمی نے آمدورفت اور ہسپتال ٹھپ کردیے ہیں ۔ مدھیسی اور پہاڑی سبھی لوگ پریشان ہو گئے ہیں ۔نیپال میں بھارت کے خلاف فضا بہنے لگی ہے ۔آج بھارت کی طرف داری میں اگرکٹھمنڈو میں کوئی بولے تو لوگ اسکی پٹائی کر دیں ۔کٹھمنڈو ایسا بیرونی شہر ہے جہاں ہمارے وزیراعظم دو بار ہو آہے ہیں ۔نیپال میں دورانِ زلزلہ ا نہوں نے زبردست امدادبھجوائی تھی لیکن موجودہ حالات سے ان کا ثواب ختم ہو رہا ہے۔نیپال کی اتنی جرأت ہوگئی کہ اُس نے اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کمیشن میں بھارت کے خلاف شکایت کر دی ہے ۔
اتناہی نہیں ‘نیپال کو چین نے بارہ لاکھ لیٹر تیل بھیج دیا ہے۔وہ نیپال جانے والے اپنے ساتوں راستے کھولنے کے چکر میں ہے ۔نیپال نے بنگلہ دیش اور روس سے بھی بات شروع کر دی ہے‘بھارت اس معاملے میں کچھ نہیں کر سکتا ۔نیپال ایک خود مختار ملک ہے ۔وہ کسی بھی ملک سے کچھ لینے دینے میں آزادہے لیکن یہ لین دین اگر بھارت کے خلاف ہو ‘یہ دونوں ملکوں کے لئے نقصان کار ہے ۔نیپالی کابینہ کی گزارش پر بھارت کو غور کرنا چاہیے ۔اب بہار میں بھی مودی کا سونپڑا صاف ہو گیا ہے ۔اگر مدھیسیوں کے بہاری رشتے داروں کے ووٹوں کے لالچ میں یہ ناکہ بندی ہوئی ہے تو بہار چنائونے یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ خالص بے وقوفانہ قدم تھا ۔نیپالی لیڈر مدھیسیوں کی مانگوں پر دھیان دینے کیلئے تیار ہیں۔دونوں کو سمجھانے بھجانے کی ذمہ داری بھارت کی ہے ۔اگر بھارت مائووادیوں ‘نیپالی کانگریس اور ایمالے کے بیچ بارہ نکاتی معاہدے کروا سکتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ وہ مدھیسی تھارواور دیگر ذات والوں کو انصاف نہیں دلوا سکتا ؟لیکن موجودہ سرکار کی دقت یہ ہے کہ اس کے پاس مودی کے علاوہ کوئی آدمی نہیں ہے ‘جو بیرونی ممالک کے لیڈروں سے کوئی کام کی بات کر سکے ۔مودی سب جانتے ہیں ‘طاقتو ر ہیں لیکن ہمارے نوکر شاہ انہیں نوٹنکیوں سے فرصت لینے دیں تو وہ کچھ کام کریں ۔ 
بھاجپا کا خصی کرنا
بی جے پی کے چار بزرگ لیڈر وں لعل کرشن ایڈوانی‘ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی ‘شانتا کمار اور یشونت سنہا نے کافی سخت الفاظ کا استعمال کیا ہے ۔بہار شکست کیلئے انہوں نے کسی کا نام تو نہیں لیا ہے لیکن انہوں نے پوچھا ہے کہ اُن لوگوں کا محاسبہ نہیں ہونا چاہیے جنہوں نے پیرس بھر میں پارٹی کو خصی کردیا ہے۔ انہوں نے اس کے انگریز لفظ امیسکیولیشن استعمال کیا ہے جو کافی سخت اور خطرناک معلوم پڑ تا ہے ۔لغات میں اسکے ایک سے ایک تیز مطلب دیے گئے ہیں ۔اسلئے تین پرانی پارٹی صدور نے جو آج کل نریندر مودی کے وزیر بھی ہیں ‘فی الفور بیان جاری کیا ۔ انہوں نے بھی وہی چالاکی دکھائی ‘جو چار بزرگ لیڈروں نے دکھائی ۔نام لیے بنا انہوں نے پوچھا کہ کیا پارٹی پہلے نہیں ہاری تھی؟کسی خاص لیڈر یا 'گروہ ‘ کو آپ کیسے ذمہ دار ٹہرا سکتے ہیں؟ انہوں نے کہا پارٹی کی شکست پر پوچھ گچھ ضرور ہونی چاہئیں لیکن نتن گڈکری نے بڑی چالاکی بھر ابیان دے ڈالا۔انہوں نے کہا پارٹی کو بدنام کرنے والے لیڈروں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے ۔اس بیان کے معنی یہ بھی ہوئے کہ جو بہاری لیڈر فضول کی باتیں کررہے ہیں ‘یہ صرف انہی کیلئے ہے ۔یہ تینوں لیڈر عہدہ وزیراعظم کے امیدوار ہیں ۔راج ناتھ سنگھ سب سے چالاک نکلے۔ انہوں نے کیا خوب کہا کہ کسی بھی لیڈر کے خلاف کارروائی کی ضرورت نہیں ہے ۔نااتفاقی کا احترام ہونا چاہیے ۔شکست کی خامیوں کا پتا چلے تو اس میں بہتری کی جائے ۔
ظاہر ہے کہ بی جے پی کی لگاتار حالت خستہ ہوتی جارہی ہے لیکن یہ کانگریس کی طرح ابھی پرائیویٹ لمیٹیڈ کمپنی نہیں بنی۔ اس لئے اس میں تھوڑے دن پھول جھڑیاں چھوٹتی رہیں گی لیکن وہ پھر اسی ڈھرے پر چل پڑے گی ‘جس پر وہ ڈیڑھ سال سے چل رہی ہے ۔آرایس ایس کولو لوگ فضول بدنام کر رہے ہیں ۔اس کا حال بھی 'راستہ دکھانے والی ‘جماعت جیسا ہی ہے یعنی اٹل جی ‘ایڈوانی جی اور جوشی جی جیسا ہی ہوگیا ہے ۔ملک کی لگ بھگ سبھی پارٹیوں کا حال ‘کم وبیش ایک جیسا ہی ہو گیا ہے ۔پارٹیوں کی اندرونی جمہوریت ختم ہونے کو ہے ۔ایک ہی لیڈر یا اس کا چھوٹا ساگروہ سارے فیصلے کرتا ہے ۔بی جے پی لیڈروں میں اتنا قابل کوئی نہیں ہے ‘جو یہ 'خصی کرنے والی‘سچائی کے خلاف آواز اٹھا سکے ۔اگر مودی اور شاہ چاہیں تو وہ ابھی بھی اپنا راستہ سدھار سکتے ہیں ۔وہ پارٹی کے انتظامات کو جمہوری طریقے سے چلا کر سکتے ہیں ۔بھارتی سیاست کا آج یہ سب سے بڑا چیلنج ہے ۔ملک کے چاروں بزرگ لیڈروں سے امید ہے کہ ان دونوں صوبائی لیڈروں کو وہ ذرا ابھرنے دیں ۔ابھی سے ان کو خصی کرنا ٹھیک نہیں ہے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں