جے پور میں گروشرن چھابڑا کی بھوک ہڑتال سچ مچ موت تک ثابت ہوئی ۔بھوک ہڑتال کرتے کرتے انہوں نے دم توڑ دیا ۔ان کے عزیزوں نے ان کے جسدِ خاکی کی آخری رسومات بھی ادا نہیں کیں ۔ہسپتال کو ان کا جسم بطور عطیہ دے دیا ۔ملک میں اتنا بڑا حادثہ ہو گیا لیکن کوئی ہلچل نہیں۔اس سے کیا ثابت ہوتا ہے؟ہمارے اخبارات اور ٹی وی چینلوں کو صرف وہی خبریں معلوم پڑتی ہیں ‘جو غصہ اور فرقہ واریت پیدا کریں ‘لوگوں کے جذبات کو بھڑکائیں یا زبردستی کی بحث کا موضوع بنیں۔چھابڑا جی چار ہفتوں سے بھوک ہڑتال پر بیٹھے تھے لیکن دلی کے اخباروں اور چینلوں پر ان کی کوئی خبر نہیں تھی ۔
وہ بھوک ہڑتال پر کیوں بیٹھے تھے؟ان کی صرف دو مانگیں(مطالبات) تھیں ۔ایک تو راجستھان میں شراب پر پابندی عائد ہو اور دوسری وزیراعلیٰ بھی لوک پال کے ماتحت ہو۔یہ دونوں مانگیں سبھی کے فائدے میں تھیں۔ان میں کسی ایک فرد کا بھلایا ذاتی لالچ کی کوئی بات دوردور تک نہیں تھی۔ چھابڑا جی متحرک سیاست سے الگ ہو چکے تھے ۔وہ بی جے پی میں تھے ۔بی جے پی سے پہلے وہ جنتا دل کے ایم ایل اے (1977 - 80ء) رہ چکے تھے ۔وہ بنیادی طور پرگاندھی وادی تھے ۔وہ جب بھی دلی آتے ‘ ان سے بات ہوتی تھی ۔ہماری ہر تحریک کاپُرجوش طریقے سے ساتھ دیتے تھے ۔پچھلی دفعہ انہوں نے بھوک ہڑتال کی تھی تو ان سے دو تین بار فون پر بات ہوئی تھی ۔وہ سب کا بھلا کرنے والے آدمی تھے ۔
ہو سکتا ہے کہ لیڈر لوگ ان کی دونوں مانگوں سے اختلاف رکھیں، لیکن تعجب ہے کہ انہوں نے ان کو مر جانے دیا۔ لیڈروں کی یہ بے رحمی کتنی شرمناک ہے؟اگر چھابڑا جی کسی خاص پارٹی میں ہوتے تو آج سرکار کو لینے کے دینے پڑ جاتے ۔ہمارے لیکھکوں ‘فنکارو ں اور صحافیوں کو بھی اس موت سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔میں ان سے اور لیڈروں سے پوچھتا ہوں کہ کیا سچ مچ یہ موت تھی؟تو پھر قتل کسے کہتے ہیں ؟ چھابڑا جی بھوک ہڑتال کرنے والے پہلے آدمی نہیں ہیں ۔مہاتما گاندھی سے لے کر اب تک ہزاروں لوگ بھوک ہڑتال کرچکے ہیں لیکن کیا ان کے حوالے سے ہمارے لیڈروں اور عوام نے اتنی بے رحمی دکھائی؟
اس واقعہ سے کیا نتیجہ نکالیں ؟کیا اب صرف نوٹنکی بازاور بندوق دھاریوں کا ہی زمانہ ہے ؟''کوئی بات معاشرے کے فائدے کی ہے‘‘یہ ثابت کرنے کے لیے کیا کسی حملہ آورگروہ کا سہارا لینا ضروری ہو گیا ہے ؟چھابڑا جی کو بھی یہ دیکھ لینا چاہیے تھا کہ یہ زمانہ کیسے لوگوں کا ہے ؟انہیں میرا پُرادب خراج عقیدت !
مودی نے جگایا دبوئوں کو !
نریندر مودی کے یوم پیدائش پر ہمارے ملک کے کئی نامی گرامی تاریخ دان ‘ادیب ‘صحافی اور فلمی ستارے وغیرہ شامل ہوئے ۔یہ مخالفت کا پروگرام کریں ‘اس میں کوئی برائی نہیں ہے بلکہ اچھی بات ہے ‘کیونکہ ان لوگوں کا حرکت میں آنا تبھی ہوتا ہے ‘جب انہیں دربارداری کرنی ہوتی ہے، اعزازات اور انعامات لینے ہوتے ہیں ۔ورنہ ‘ملک میں کتنے ہی طوفان آئیں ‘زلزلے آئیں‘ قحط یا سیلاب آئیں،اس طبقے کے لوگ کنبھ کرن کی نیند سوئے رہتے ہیں ۔ہندی کے ادیب کبھی میدان میں نہیں آتے ‘چاہے سرکاریں ہندی کو کتنا ہی ذلیل کرتی رہیں ۔ملک میں ہزاروں سکھوں اور مسلمانوں کا قتل عام ہوا ‘دلتوں اور محروم طبقے کے لوگوں کو زندہ جلایا گیا‘کئی دانشوروں کی پٹائی اور بے رحمی سے خون کیے گئے ‘ایمرجنسی تھوپ دی گئی لیکن اس طبقے کے لوگوں نے چوں تک نہیں کی ‘کیونکہ ان کا مقصد تو یہی رہا ہے ،''کوئی حاکم ہوئے ہمیں کا ہانی‘چیری چھانڈی ہوئو ب نہیں رانی‘‘۔نریندر مودی کو مبارک کہ اس گجراتی لیڈر نے ان دبو لوگوں کو جگا دیا ۔اگر انہیں دانبھولکر کے خون کی فکر ہوتی تو2013ء میں یہ مہاراشٹر اوروفاقی سرکار وں کی ناک میں دم کر دیتے، لیکن بیچارہ مودی وہاں نہیں تھا ۔ان لوگوں کو نہ دانبھولکرکی پروا ہے ‘نہ کال برگی کی اور نہ ہی اخلاق کی۔ انہیں تو مودی پر ہلہ بولنا ہے اس لئے یہ لوگ رائی کا پہاڑ اور بات کا بتنگڑ بنا رہے ہیں۔ اس کا فائدہ بھی مودی کو ہی مل رہا ہے ۔فرقہ پرستی ہو رہی ہے۔ ہمارے شوقینِ قلم انجانے میں ہی فرقہ واریت کی زہریلی بیل کو پانی دے رہے ہیں ۔
ہمارے کچھ تاریخ دانوں پر مودی کا ایسا نشہ چڑھا ہے کہ وہ پگلا گئے ہیں ۔وہ کہہ رہے ہیں کہ آرایس ایس اور آئی ایس آئی ایس (داعش) ایک جیسے ہیں ۔جنہیں حالیہ زمانے کی اتنی تھوتھی سمجھ ہے ‘وہ بھلا تاریخ کو کیسے سمجھیں گے؟سنگھ کے کچھ پہلو آپ کو پُراعتراض یا ناقابل قبول لگ سکتے ہیں اور آپ بالکل ٹھیک بھی ہو سکتے ہیں لیکن اس کی برابری کسی بین الاقوامی دہشت گرد جماعت سے کر دینا کون سی سوچ ہے ‘کون سی مثال ہے یا عقلمندی ہے؟اگر آپ کو مودی کی مخالفت کرنی ہے تو سرعام لکھ کر اور بول کر کیوں نہیں کرتے ؟بہادر دانبھولکر اور بے قصور اخلاق کو اپنا مہرہ کیوں بنا رہے ہیں ؟
لندن میں پھر مور ناچ
اگر پیرس میں دہشت گردی کا واقعہ ایک دن پہلے ہو جاتا تو نریندرمودی کے دورہِ لندن پر پانی پھر جاتا ‘کیونکہ ان بیرونی دوروں کا خاص ہدف ہے پرچار ۔غیر ممالک میں بھی اور بھارت میں بھی !دہشت گردی کا واقعہ تو پیر س میں ہواتھا لیکن بھارتی ٹی وی چینل اور اخبار بھی پوری طرح اس خبر سے بھرے تھے ۔مودی کا دورہِ لندن اس حساب سے بے حد کامیاب ہوگیا۔دیگرغیرممالک کے مقابلے یہ ماناجا سکتا ہے کہ یہ زیادہ کامیاب رہا۔ ویمبلے میں جو ساٹھ ہزار کا جلسہ ہوا‘ویسا کیا آج تک کوئی برٹش وزیراعظم کر سکا؟برٹش وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون اس جلسے میں بیٹھے تھے۔ جوش میں آئے بنا نہیں رہے ہوںگے!میرے کچھ بیرونی ممالک میں بھارتی دوستوں نے مجھ سے کہا کہ انہوں نے لال قلعے پرآزادی کا پہلا جشن نہیں دیکھا تھا لیکن ویمبلے کے جشن کے سامنے وہ پہلا جشن بھی کیا جشن رہا ہوگا ؟اس جشن نے اپنے پنکھ برطانیہ کے ساتھ ساتھ بھارت میں بھی پھیلا دیے تھے۔ یہ مور کا ناچ بہار کے کوؤں کی کانوَکانوَکو ڈھک دینے والا تھا ۔دوستوں نے یہ بھی لکھ بھیجا کہ ویمبلے کی رونق کے آگے بہار کی شکست پھیکی پڑ گئی ۔ایک کیا‘ کئی بہار بھی ہار جائیں تو کوئی پروا نہیں۔ بیرونی ممالک میں مقیم دوست یہ سوچیں تو کوئی بات نہیں لیکن ڈر یہی ہے کہ ہمارے عالمی نیتا جی بھی کہیں اسی طرح سے نہ سوچنے لگیں ؟ناچتا ہوامور دیکھنے والوں کو تو اچھا لگتا ہی ہے لیکن مور خود بھی مدہوش ہو جاتا ہے ۔
دوسری بڑی کامیابی یہ رہی کہ انگلینڈ کے ساتھ 90 ہزار کروڑ پائونڈ کے کئی معاہدے ہوئے ہیں ۔ایسے معاہدے اور اس سے بھی بڑے بڑے معاہدے گزشتہ بیرونی دوروں میں بھی ہوئے، لیکن سرکار یہ نہیں بتاتی کہ وہ کاغذ سے اتر کر زمین پر کب آئیں گے؟کیا وہ دور کے ڈھول بنے رہیں گے ؟بہار کی ہار کے دوسرے دن ہی سرکار نے پندرہ شعبوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو آسان بنا دیا لیکن کیا بھاجپا کے مزدور یونین کی دلیل اس نے سنی؟یونین کا کہنا ہے کہ جتنی بیرونی سرمایہ کاری بھارت آئی ہے ‘اس سے کہیں زیادہ بیرونی لوگ منافعے ‘پگھار اور بھتوں میں لوٹ لے گئے ہیں ۔آنکھ بند کر بیرونی سرمایہ کاری کو بلاوا دینا بھارت کو لٹوانا ہے ۔یہ سرکار دماغ سے کچھ کام لے گی یا صرف ہاتھ‘پیر اور زبان چلاتی رہے گی ؟