پیرس میں ہوئے عالمی آب و ہوا اجلاس میں جو قرارداد پیش کی گئی‘ اس پر امریکی صدر اوباما‘ فرانسیسی صدر اولاند اور نریندر مودی اپنی اپنی پیٹھ خود ہی ٹھونک رہے ہیں۔ وہ اسے عظیم کامیابی کی غیر معمولی دستاویز بتا رہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اب دنیا کے 196 ملک کچھ ایسا کریں گے جس سے عالمی گرمی پد(درجہ حرارت) 2 یا 1.5 ڈگری تک ہی بڑھے گا یعنی گزشتہ ڈیڑھ دو سو سال میں جو آلودگی پھیلی ہے‘ وہ اب زیادہ نہیں پھیلے گی۔ یہ امید بہت اچھی ہے لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ پیرس دستاویز میں کون سی ایسی بات کہی گئی ہے‘ جس کوسبھی ملک اپنی مرضی سے کریں گے یا نہ کریں گے تو انہیں اس کا ہرجانہ بھرنا پڑے گا؟ یہ ٹھیک ہے کہ ہمارے انوائرنمنٹ وزیر پرکاش جاوڑیکر نے وہاں بھارت کی طرفداری کافی مضبوطی کے ساتھ رکھی لیکن اتنے بڑے پہاڑ کی کھدائی کے بعد نکلا کیا؟ کچھ بھی نہیں۔ خوشحال ملکوں نے 2020ء کے بعد ہر سال سو بلین ڈالر دینے کی بات کہی ہے‘ لیکن یہ ذمہ داری نہیں ہے۔ وہ نہ دیں تو آپ کیا کریں گے؟ ترقی یافتہ ملک اگر بجلی کے متبادل ذرائع کے لیے ان سو بلین ڈالر پر منحصر ہی رہیں گے تو ان کا خدا ہی مالک ہو گا۔ ابھی تو یہی پتا نہیں ہے کہ کون سا ملک کتنا دے گا اور جو بھی دے گا‘ وہ بھی پانچ سال بعد دے گا۔
دنیا کی بدقسمتی ہے کہ چین اور بھارت کے لیڈر بھی نقلچی بنے ہوئے ہیں۔ وہ بھارت اور چین کو امریکہ کا پچھ لگو بنائے ہوئے ہیں۔ اسی کا طریقۂ زندگی اپنانے کا نعرہ وہ لگا رہے ہیں۔ انہیں پتا ہی نہیں کہ جسے وہ ترقی سمجھ رہے ہیں‘ وہ تباہی ہے۔ دنیا کے ظالموں نے سارے قدرتی وسائل کو چوس ڈالا ہے۔ پیرس میں نہ تو کسی لیڈر اور نہ ہی خود اجلاس نے یہ آواز دی کہ لوگ اپنی ضرورت سے زیادہ خوراک‘ کپڑے‘ مکانوں‘ کاروں‘ ریفریجریٹروں‘ ایئرکنڈیشنروں‘ موبائل فونوں‘ ہتھیاروں‘ بجلی وغیرہ کا استعمال نہ کریں۔ کم سے کم میں کام چلائیں۔ اگر دنیا کے ایک ارب لوگ بھی اس قانون پر عمل کریں تو باقی چھ ارب لوگوں کی زندگی میں اجالا ہو جائے گا۔ آلودگی بڑھنا تو دور‘ وہ اپنے آپ کم ہوتی چلی جائے گی۔
ریزرویشن، اب جج بھی کٹہرے میں
گجرات ہائی کورٹ کے جج جے بی پارڈی وال کو مبارک کہ انہوں نے ایک دم خم سچ بول دیا۔ ہاردک پٹیل کے معاملے میں اپنا فیصلہ سناتے ہوئے انہوں نے بیچ میں کہہ دیا ہے۔ ایک تو ریزرویشن اور دوسری بدعنوانی! ان کی اس بات سے ناراض ہو کر راجیہ سبھا کے 58 ممبروں نے ان پر کیس چلانے کی پیشکش کی۔ بہت خوب، کتنے عقل کا کام کیا ہے‘ ان ممبروں نے۔ پتا نہیں‘ انہوں نے ایسا کیوں کیا ہے؟ وہ ریزرویشن کی بات سے خفا ہو گئے ہیں یا بدعنوانی کی بات سے؟دونوں ہی معاملات میں لیڈر حضرات سب سے آگے رہتے ہیں یعنی لیڈرشپ کرتے ہیں۔ یہ دونوں ہی مدعے‘ ایسے ہیں جو لیڈروں کو سب سے زیادہ پسند ہیں۔ ایک مدعہ ان کو ووٹ دلاتا ہے‘ دوسرا مدعہ انہیں نوٹ دلاتا ہے۔ ووٹ اور نوٹ ہی ہماری سیاست کے انو لوم ولوم (یوگ کی ایک ریاضت ) ہے۔ پارڈی وال اتنے بڑے عہدے پر پہنچ گئے لیکن دل کے بڑے ہی سادے سیدھے ہیں۔ انہیں کیا ضرورت تھی کہ وہ ان حکومت کرنے والوں کی دکھتی نس پر انگلی رکھتے۔ حیرانی ہے کہ لوک سبھا کے ممبروں کو ان پر غصہ نہیں آیا۔ وہ تو نامزد نہیں ہوتے۔ وہ چن کر آتے ہیں۔ ریزرویشن کے ووٹوں سے بھی چنے جاتے ہیں۔ نوٹوں کے بنا چناؤ کیسے ہو سکتا ہے؟ وہ چپ ہیں لیکن جو پارٹی لیڈروں کے ذریعے نامزد کیے جاتے ہیں اور ایم ایل ایز‘جن پر آنکھ بند کر کے ٹھپہ لگا دیتے ہیں‘ وہ بوکھلائے ہوئے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ پارڈی وال گجراتی ہیں اور انہیں بھی نریندر مودی نے اشارہ کر دیا ہو۔ آج کل ملک میں سبھی چھاپے اور مقدمے نریندر مودی کے اشارے پر چل رہے ہیں۔ شاید اس لیے سارے مخالف لیڈروں نے کیس کی درخواست پر دستخط کر دیے ہیں۔
لیکن ارکان پارلیمنٹ کی اس درخواست کی ہوا پہلے ہی نکل چکی ہے۔ پارڈی وال نے اپنے فیصلے کے بنیادی سبق میں سے دوتین جملے نکال دیے ہیں‘ جن پر ہمارے لیڈر تیز ہو رہے ہیں۔ پارڈی وال پر اراکین پارلیمنٹ نے الزام لگایا ہے کہ ریزرویشن کی مخالفت کر کے انہوں نے آئینی اصول کی خلاف ورزی کی ہے۔ یہ بہت ہی بیکار مثال ہے۔ آئین میں 100 ترامیم ہوئی ہیں۔ کیا ان ترمیموں کو آئین کی خلاف ورزی مانا جائے گا؟ آئین تو سدا کے لئے تبدیلی دستاویز ہے‘ وہ معاشرے کا‘ ملک کا‘ لوگو ں کا عکس ہوتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ وہ بھی بدلتا ہے۔ اگر کوئی جج اس میں تبدیلی کی مانگ کرتا ہے تو اس کا دھمکانا غیر آئینی ہے۔
شام پر کرشمائی اتفاق
گزشتہ پانچ سال سے چل رہے شام کی گھریلو جنگ کو رکوانے پر سلامتی کونسل متفق ہو گئی ہے۔ سلامتی کونسل کے سبھی پندرہ ممبر ممالک نے اتفاق رائے سے ایک قرارداد پاس کرکے اس ملک میں امن قائم کرنے کاعزم کیا ہے۔ شام میں بشارالاسدکی حکومت ہے۔ اس کے خلاف ایک طاقتور تنظیم نے بغاوت چھیڑ رکھی ہے۔ اس لڑائی میں اب تک ڈھائی لاکھ لوگ مارے جا چکے ہیں اور لگ بھگ 40 لاکھ لوگ ہجرت کر گئے ہیں۔ ایران اور روس اسد کو ٹکائے رکھنے کے لیے پورا زور لگائے ہوئے ہیں اور سعودی عرب‘ امریکہ‘ ترکی‘ اردن‘ کویت وغیرہ باغیوں کو مدد کرتے رہے ہیں۔ شام میں گزشتہ کچھ برسوں سے سرد جنگ کا نظارا دکھائی پڑ رہا ہے۔ عظیم قوتیں سیدھے سیدھے نہ سہی‘ گھما پھرا کر ایک دوسرے سے لڑتی رہی ہیں۔ ایسے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ایک رائے کیسے ہو سکتی تھی؟ لیکن یہ کرشمہ گزشتہ جمعہ کو ہو گیا ہے۔ ابھی ایک دو دن پہلے ہی بھارت میں اس کے وزیر دفاع نے اعلان کیا تھا کہ اگر شام میں اقوام متحدہ کے نگرانی میں فوجی ٹریننگ ہو گی تو اس میں بھارت بھی حصہ لے گا۔ اب تو اس مشن کی شکل ہی بدل جائے گی۔ پتا نہیں کہ بھارت کو اس میں حصہ لینے کی ضرورت بھی ہو گی یا نہیں۔
اپنی 11 نکاتی قرارداد میں سلامتی کونسل نے کہا ہے کہ وہ اگلے چھ ماہ میں شام میں ایسی سرکار قائم کرنے کی کوشش کرے گا ‘جو سبھی کے لیے قابل قبول ہو‘ پُراعتماد اور فرقہ واریت سے مبرّا۔ یہ سرکار 18 ماہ میں ایک آئین بنائے گی اور غیرجانبدارانہ اور جائز انتخابات کرائے گی۔ سلامتی کونسل سبھی فریقوں سے جنگ بندی کی اپیل بھی کرے گی۔ سلامتی کونسل کی پیشکش اتنی اچھی ہے کہ اس پر یقین ہی نہیں ہو رہا ہے‘ کیونکہ سعودی عرب اور امریکہ اسد کو پھوٹی آنکھوں بھی نہیں بھاتے۔ اسے وہ فوراً ہٹانا چاہتے ہیں جبکہ روس اور ایران یہ مانتے ہیں کہ اسد کو ہٹانے پر شام عالمی دہشت گردی کا سب سے بڑا گڑھ بن جائے گا۔ وہاں لاقانونیت ہو جائے گی اور وہ لاقانونیت سارے مغربی ایشیا میں پھیل جائے گی۔
دونوں خیموں میں اس فرق کے باوجود وہ ایک دوسرے کو تعاون کرنے کو تیار ہو گئے ہیں‘ یہ بین الاقوامی سیاست کا عجیب واقعہ ہے۔ 17 ملکوں کی ایک جماعت گزشتہ تین سال سے اس مدعے پر بات چیت کر رہی ہے۔ یہ اسی کا انجام ہے کہ ابھی روس اور امریکہ اسی طرح سعودی عرب اور ایران اپنی اپنی ضد کو چھوڑ کر تھوڑے نرم پڑے ہیں۔ دیکھتے ہیں اگلے چھ ماہ میں اس کے کچھ ٹھوس انجام سامنے آتے ہیں یا نہیں ؟