"DVP" (space) message & send to 7575

بے لگام شمالی کوریا

چھوٹے سے چھوٹے ملک شمالی کوریانے ساری دنیا کو ہلا دیا ہے ۔اس نے ہائیڈروجن بم کا دھماکہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے ۔اگر دعویٰ صحیح ہے تو یہ بم ‘ایٹم بم کے مقابلے میں 1000 گنازیادہ تباہ کن ہوتا ہے ۔شمالی کوریا میں تاناشاہی کی حکومت ہے۔ تیس بتیس سال کے لڑکے کم جونگ کو اپنے مرحوم والد کے تخت پر جلد ی میں بٹھا دیا گیا۔وہ اپنی طاقت بڑھانے کیلئے ایٹم بم چھوڑ رہا ہے۔اپنے یوم ولادت (8 جنوری ) سے دودن پہلے یہ دھماکے کرکے اس نے خود کو ہی ایک تحفہ دے دیا ہے۔شمالی کوریا اب عظیم لیڈر کا جنم دن کافی زور شور سے منا رہا ہے ۔کم جونگ کو شمالی کوریا کے لوگ ایسا طاقتورحکمران بتا رہے ہیں ‘جو امریکہ ‘روس اور چین سے بھی نہیں ڈرتا ۔اس نے اپنے دشمن ملکوں ‘جنوبی کوریا اورجاپان کو کپکپی چڑھا دی ہے ۔اس نے تو سلامتی کونسل کی قرارداد کی پرواکی اور نہ ہی ان چھ ملکوں کے ساتھ بات چیت کی ‘جس نے شمالی کوریاسے وعدہ لیا تھا کہ وہ خود پر اب جوہری ضابطہ رکھے گا۔شمالی کوریا پہلے بھی تین جوہری دھماکے کر چکا ہے ۔اس میں ذرا بھی شک نہیں ہے کہ اتنے برسوں سے وہ چین کی شہ پراچھلتا رہتا تھا لیکن اب اس نے چین کو جواب دے دیا ہے ۔ اصلیت تو یہ ہے کہ وہ امریکہ ‘بھارت اور جنوبی کوریاکی بڑھتی ہوئی گہرائی سے بھی غصے میںہے ۔اس نے جو یہ جوہری چوکے چھکے لگائے ہیں اس کے پیچھے کچھ ممالک کی مدد ہو سکتی ہے۔ 
بین الاقوامی سیاست میں حال ہی میں کئی نئے تناؤ پیدا ہوئے ہیں۔ ان کے درمیان یہ نئی مصیبت آکھڑی ہوئی ہے ۔یہ ناممکن نہیں کہ سلامتی کونسل شمالی کوریاکے خلاف سخت رویہ اپنائے ۔اگر سلامتی کونسل نے شمالی کوریا پر نئی پابندیوں کا اعلان کردیا تو وہاں کے غریب ‘دکھی ‘اور خوفزدہ لوگوں کی زندگی برباد ہو جائے گی ۔تاناشاہی بوٹوں کے نیچے سسکتے شمالی کوریا کو کچھ وقت پہلے امریکہ نے لاکھوں ٹن اناج بھیجا تھا تاکہ وہ بین الاقوامی معاشرے کا کچھ لحاظ کرے اور جوہری دھماکوں پر ضابطہ رکھے‘لیکن اپنی عیاشیوں اور اہمیت کیلئے مشہور یہ کم جونگ فیملی اپنی ضد پر اڑی ہوئی ۔نوجوان کم جونگ نے شمالی کوریا کے طاقتور لیڈراور اپنے چچاہیون یونگ چول اور دیگر لیڈروں کا قتل کروادیا۔شمالی کوریا بالکل بے لگام ہوگیا ہے ۔اس نے این پی ٹی معاہدہ رد کردیا ہے اور سی ٹی بی ٹی پر دستخط نہیں کیے ہیں ۔اس کا کہنا ہے کہ وہ ایک خودمختار ملک ہے ۔ وہ اپنے اندر یا باہر‘جو چاہے گا ‘وہ کرے گا ۔اسے کوئی روک نہیں سکتا ۔ 
پاکستان سے بات ہو جم کر
نریندر مودی جیسے ہی 25 دسمبر کو اچانک لاہور پہنچے ‘میں نے بھارت اور پاکستانی ٹی وی چینلوں پر ان کی اس پہل کادلی خیر مقدم کیا تھا لیکن ساتھ ہی کہا تھا کہ انہوں نے زبردست جوأ کھیلا ہے۔ جب جب بھی دونوں ملکوں کے بیچ امن کی بات چلتی ہے ‘کوئی نہ کوئی حادثہ ہو جاتا ہے ۔وہ حادثہ دہشتگردی کا ہو یا سیاسی چالوں کا۔ جب نواز شریف مودی کی حلف برداری تقریب میں دلی میں آئے تھے تو دہشتگردوں نے افغانستان میں ہمارے سفارتخانہ پر ہلّہ بول دیا تھا ۔ اب بھی جبکہ دونوں ملکوں کے افسر ملنے والے ہیں دہشتگردوںنے صرف پٹھان کوٹ میں ہماری فضائی فوج کے اڈے کواڑانے کی کوشش ہی نہیں کی بلکہ مزار شریف اور جلال آباد کے ہمارے قونصلیٹوں پر ہلّہ بولنے کی نالائقی بھی کی‘ مجھے اس کا اندازہ پہلے سے ہی تھا۔اس لیے میں نے 25 دسمبر کو ہی کہا تھا کہ اگر ایسا کوئی حادثہ ہوگیا تو مودی کیا منہ دکھانے لائق رہیں گے ؟
پٹھان کوٹ میں جیسے ہی حملہ ہوا‘میں نے دونوں ملکوں کے چینلوں پر کہا کہ مودی اور نواز‘دونوں کو مل کر مشترکہ بیان جاری کرنا چاہیے اور نواز کو دہشتگردوں کے خلاف فوراً سخت کارروائی کرنی چاہیے لیکن دونوں وزرائے اعظم سوتے رہ گئے ۔اس بیچ ملک کے عوام اور اپوزیشن لیڈروں کے درمیان مودی کی دال پتلی ہو گئی۔ 56 انچ کا سینہ سکڑ کر چھ انچ کا رہ گیا ۔ اب دیری سے ہوئی گفتگو ‘صرف بات چیت بن کر نہ رہ جائے‘ بلکہ ٹھوس کارروائی میں بدل جائے تو ابھی بھی مودی کے دورۂ لاہور کی پہل مثبت ہو سکتی ہے ۔
اب بھارت کی اپوزیشن ہی نہیں ‘بھاجپا اور سنگھ کے بھی لوگ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ ہونے والی بات چیت کو رد کر دیا جائے۔ وہ سشما سوراج کانام لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ دہشتگردی اور بات چیت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے ۔میں پوچھتا ہوں کہ بات چیت بند کرنے سے کیا دہشتگردی بند ہوجائے گی؟آپ لڑائی نہیں چھیڑنا چاہتے ہیں ۔ آپ میں اتنی ہمت بھی نہیں ہے کہ آپ دہشتگردوں کا آخر تک پیچھا کر سکیں یعنی 'ہاٹ پرسیوٹ ‘کر سکیں تو جو ہتھیار آپ چلا سکتے ہیں ‘وہ بھی کیوں نہیں چلانا چاہتے ؟آخر جنگ کے بعد بھی بات ہی کرنی پڑتی ہے ۔مہابھارت کی لڑائی کے وقت روز شام کو کوروؤں اور پانڈوؤں میں بات ہوتی تھی یانہیں ؟اب تو بات ہونی ہی چاہیے ‘اور جم کر ہونی چاہیے ۔بھارت کو میاں نواز سے پوچھنا چاہیے کہ ان دہشتگردوں کو آپ بھارت اور پاکستان دونوں کا دشمن مانتے ہیں یا نہیں؟اگر مانتے ہیں تو ان سے نمٹنے کیلئے فی الفور پالیسی کیوں نہیں بناتے ؟دونوں ملکوں کا بھلا اسی میں ہے ۔
عامر خان کے خلاف کیسا بے وقوفانہ عمل ؟
وزارت سیاحت کے سیکرٹری نے جس طرح ارکان پارلیمنٹ کو گمراہ کیا ہے‘اس کی سزا کیا ہو سکتی ہے ‘یہ تووزیر سیاحت ڈاکٹر مہیش شرما یا حود پارلیمنٹ ہی طے کرے گی لیکن وہ کیا کوئی ایسی دستاویز پیش کر سکتے ہیں ‘جس سے پتا چلے کہ عامرخان نے سرکار سے یا میکین کمپنی سے کوئی معاہدہ کیا ہے ؟کیا وزارت سیاحت کے سیکرٹری ونود جتشی بتا سکتے ہیں کہ عامر خان کا معاہدہ کس تاریخ کو ختم ہو ا ہے؟اگر وہ تین سال کا تھا تو گزشتہ دس سال تک کیسے چلتا رہا ؟اگر عامر کو 'اتھتی دیوو بھوہ‘اور 'ان کریڈیبل انڈیا‘کرتے ہوئے دس برس ہوگئے تو تین سال کے حساب سے ان کا معاہدہ ابھی دو سال تک اور بھی چلنا چاہیے تھا ۔وہ معاہدہ دوسال پہلے ہی کیسے ختم کردیا گیا ہے؟حقیقت تو یہ ہے کہ عامر خان نے کسی معاہدے پر دستخط نہیں کیے ۔انہوں نے آج تک سرکار سے یا کسی کمپنی سے یا کسی ٹی وی چینل سے ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں لی ۔ان سے ہمارے کئی وفاقی وزراء نے ذاتی طور درخواست کی ۔انہوں نے تہ دل سے اسے قبول کرکے ٹی وی چینلوں پر یہ پروگرام نشر کیے ۔اس سے ملک کے لاکھوں نوجوان متاثر ہوئے اور ان کی زندگی سدھاری ۔عامر خان نے یہ پروگرام وطن سے محبت کی خاطر کیے ۔ اس بغیر لالچ کی خدمت کیلئے عامر کا شکرگزار ہونے کی بجائے انہیں 'برانڈ ایمبسڈری ‘ سے ہٹاناان کی بے عزتی کرنا ہے ۔ لیکن عامر کا ردعمل بھی کیا ردعمل ہے ؟وہ کسی فلمی اداکار کا نہیں ‘کسی سچے فقیر کا ردعمل مانا جائے گا ۔عامر نے کہا ہے کہ اسے رکھنا یا ہٹانا سرکار کی مرضی ہے اور وہ ہمیشہ وطن کی خدمت کیلئے تیار رہیں گے۔عامر کے اس معاملے کی جانچ نریندر مودی کرو ا ہی رہے ہیں ‘وزارت سیاحت کی یونین نے بھی وزارت سیاحت کے سیکرٹری ونود جتشی کی جم کر کھنچائی کی ہے ۔جتشی بغلیں جھانکتے رہے ۔وہ یہ نہیں بتا سکے کہ عامر کو انہوں نے کیوں ہٹایا ؟خبریں ایسی ہیں کہ اب امیتابھ بچن کو یہ ذمہ داری دی جائے گی ۔امیتابھ اسے قبول کریں گے تو یہ بڑے شرم کی بات ہوگی ۔میں تو ان سے کہوں گا کہ اگر ان کے پاس یہ پیشکش آئے تو وہ اسے ٹھکرادیں ۔اس بات کے سبب مودی سرکار کی حالت پتلی ہو رہی ہے ‘امیتابھ بچن اپنی عزت داؤ پر کیوں لگائیں ۔
عامر کے ساتھ یہ اس لیے کیا جا رہا ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کرن راؤ کی باہمی گفتگو کو سرعام کیا تھا ۔کرن راؤ کو اپنے چھوٹے سے بچے کی جو حفاظت کی فکر تھی ‘اس کا سبب کیا تھا ؟اس کا سبب تھا ٹی وی چینلوں اور اخباروں ذریعے کھڑا کیا گیا ‘نقلی خوف !دادری حادثے کو ایسی ناٹکی صورت دی گئی کہ ا س نقلی شور سے کچھ لوگ ڈر گئے۔شور تو نقلی تھا لیکن ڈر اصلی تھا ۔اس خوف کو کرن راؤ نے ظاہر کردیا تو کون سا آسمان ٹوٹ گیا؟کرن راؤکی بات کی سزا عامر جیسے محب وطن کو دینا بے وقوفی ہے۔ یہ ٹھیک نہیں ہے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں