پاک بھارت خارجہ سیکرٹریوں کی بات چیت جس ڈھنگ سے ٹلی ہے ‘وہ یہ بتاتا ہے کہ دونوں ملکوں نے غیر معمولی ماہرانہ انداز سیاست کا تعارف دیا ہے ۔نہ بھارت نے اپناٹھیکرا پاکستان کے سر پھوڑا ہے اور نہ ہی پاکستان نے بھارت کے سر!دونوں ملکوں کے لیڈروں کے بیچ یقینایہی گفتگو ہوئی ہے اور دونوں نے مل کر یہ مشترکہ فیصلہ کیا ہے ۔ذرا ہم یاد کریں ‘گزشتہ ان دو مواقع پر جب مذاکرات ٹوٹے تھے ۔ایک حریت کے بہانے اور دوسرا کشمیر کے بہانے !دونوں سرکاروں نے ایک دوسرے کے سر پر چھپر رکھنے کی کوشش کی تھی دونوں میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اپنی اپوزیشن کا منہ بند کر سکیں لیکن 25 دسمبر کو نریندر مودی کے دورۂ لاہورنے ایسا کرشماتی ماحول پیدا کردیا ہے کہ دونوں سرکاروں میں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کا دم آگیا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ مودی نے اپنے 56 انچ سینے میں زیادہ ہوا نہیں بھرنے دی ۔انہوں نے اپنے مخالفین کی طنز وتنقیدکو خاموشی سے برداشت کیا ۔وہ بولے ضرور لیکن نواز شریف سے ۔اگر وہ پہلے کی طرح پٹھان کوٹ حملے پر فوراًردعمل کرتے تواسکے دو بُرے اثر پڑتے ۔ایک تو پاکستان سرکار سدا کی طرح پلٹ وار کرتی اور دوسرا‘ بھارت کے عوام پوچھتے کہ آپ صرف باتیں ہی بناتے رہتے ہیں یا کچھ کرکے بھی دکھائیں گے؟مودی کے صبر نے ان کے مخالفین اور پاکستان ‘دونوں کو قابو کر لیا ۔مودی کے
سنجیدہ اور خاموش رویہ نے سب سے زیادہ مدد کی میاں نواز کی!ایسا پہلی بار ہوأ ہے کہ پاکستان کی فوج نے اپنے لیڈروں کی بات کو ترجیح دی ہے ۔آرمی چیف راحیل شریف نے نواز شریف کے ساتھ قدم سے قدم اٹھایا ہے ۔اس لیے یہ بھی پہلی بار ہوا ہے کہ دہشت گردی کے کسی واقعہ پر پاکستان نے مثبت رویہ اختیار کیا ہے‘ ورنہ ہمیشہ پاکستان کہہ دیتا رہا ہے کہ یہ دہشت گردی بھارت کا ڈھونگ ہے تاکہ وہ پاکستان کو بدنام کر سکے۔
بارک اوباما نے اپنی خاص تقریر میں پاکستان کا نام لے کر کہا ہے کہ وہ بین الاقوامی دہشت گردی کا مرکز بن رہا ہے ۔امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے بھی نواز شریف پر بار بار زورڈالا ہے کہ پٹھان کوٹ حملے کی سازش کرنے والوں کو پکڑیں ۔اس بیچ سب سے بڑی بات تو یہ ہوئی کہ امریکی کانگریس نے پاکستان کو دیے جانے والے ایف 16 لڑاکو ہوائی جہازوں کے بارے میں دوبارہ غور شروع کر دیا ہے۔اس سے بھی زیادہ میاں نواز شریف کے ہاتھ اس بات سے بھی مضبوط ہوئے ہیں کہ پاکستان کے کئی سیاسی تجزیہ کاروں اور کچھ سینئر صحافیوں نے بڑی ہمت دکھائی ہے اور اپنی سرکار سے مانگ کی ہے کہ وہ پٹھان کوٹ کے ملزموں کے
خلاف سخت کاروائی کرے ۔پاکستان کے عام لوگ بھی اپنے ہی دہشتگردوں سے بے حد تنگ آچکے ہیں ۔ڈیڑھ سال پہلے فوج نے دہشتگردوں کے خلاف جوجنگ چلائی تھی ‘اس میں اس نے لگ بھگ دس ہزار دہشتگردوں کا صفایا کر دیا تھا۔اب ایسا لگ رہا ہے کہ پاکستان اچھے دہشتگردوں اور برے دہشتگردوں میں فرق کرنا بند کرنے لگا ہے ۔پہلے مانا جاتا تھا کہ جو دہشتگرد ہندوستان پر حملہ کریں‘ وہ اچھے ہیں اور جو پاکستان میں حملہ کرتے ہیں ‘وہ برے ہیں لیکن گزشتہ پانچ چھ سال کے تجربے نے پاکستان کو یہ سبق سکھا دیا ہے کہ بھارت کے مقابلے اسے زیادہ چوٹ پہنچی ہے۔ پاکستان میں زیادہ لوگ مارے گئے ہیں ۔پشاور میں فوجی سکول کے ڈیڑھ سوبچوںکی موت نے عوام کا دل دہلا دیا تھا ۔اگر پاکستان کی سرکار اور فوج اپنے عوام کے اس جذبے کی قدر کرکے اپنی سوچ تبدیل کر رہی ہے تو بھارت ہی نہیں ‘دنیاکے سارے ممالک اس کا خیر مقدم کریں گے۔
لیکن اصلی سوال یہ ہے کہ پاکستان فی الحال دکھاوٹ کر رہاہے یا حقیقت میں تبدیل ہو رہا ہے؟بھارت سرکار بھی کچھ کہنے کی حالت میں نہیں ہے ۔جہاں تک نوازشریف کا سوال ہے‘ وہ تو یقینا بھارت سے بہتر تعلقات بنانے چاہتے ہیں ۔وہ بنیادی طور پر تاجر ہیں اس لیے امن پسند ہیں ۔لیکن گزشتہ ستر برس سے بھارت کے خلاف پاکستان میں جیسا پرچار ہو رہا ہے‘اب اس کا الٹا پہیہ گھمانا آسان نہیں ہے ۔میاں نوازشریف پاکستانی پنجاب کے ہیں۔ صوبہ پنجاب سارے صوبوںسے بڑا ہے اور پنجاب میں ہی سب سے زیادہ بھارت کے خلاف ماحول بنا ہوا ہے۔ اس کا فائدہ اٹھا کر جیش محمد کے سرغنہ مسعود اظہر نے میاں نواز کو للکار دی ہے۔ پاکستانی سرکار کی ہمت نہیں پڑ رہی ہے کہ وہ واضح کہے کہ اس نے مسعود کو گرفتار کر لیا توکیا ہوا؟گرفتار تو حافظ سعید اور لکھوی کو بھی کیا گیا تھا ۔اس نازک مقام پر یہ اچھا ہوا کہ بھارت نے اپنی جانب مذاکرات رد نہیں کیے ۔اس نے پاکستان کی ڈور لمبی کر دی ہے۔ دیکھیں ‘پاکستان اپنی چال کیسے چلتا ہے ؟یہ صاف ہے کہ پاکستان آج اس کیفیت میں نہیں ہے کہ وہ دہشتگردوں کی کمر توڑ سکے ۔اسے پتا ہے کہ لال مسجد پرحملہ بول کر مشرف نے کیسے اپنی کرسی گنوائی تھی لیکن وہ وہ دہشت گردی کی ایک ٹانگ تو توڑ سکتا ہے۔تب تک بات چیت ٹل جائے تو ٹل جائے ۔اگر ابھی دونوں سیکرٹری ملتے تو مودی کی بڑی کرکری ہوتی ۔دونوں وزرائے اعظم‘ دونوں مشیر ‘دونوں سیکرٹری ‘دونوں ملکوں کے صحافی فون اور ٹی وی چینلوں پر جو کر رہے ہیں ‘وہ گفتگو نہیں تو کیا ہے ؟جنرل مشرف اور ہمارے وزیر دفاع اور فوج کے سربراہ جنرل دلبیر سہاگ جو بیانات دے رہے ہیں ‘اس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ دونوں ملکوں کے پرانے گھسے پٹے رویہ کودوبارہ زندہ کر رہے ہیں ۔دونوں ملکوں کے زیادتی کرنے والوں کیلئے وہ لالی پوپ کی طرح ہیں ۔لیکن میاں نواز شریف سچ مچ مودی کی شرافت کی عزت لوٹانا چاہتے ہیں اور مودی کے مخالفوں کا بھارت میں منہ بند کرنا چاہتے ہیں توانہیں بھارت کے خلاف دہشتگردوں کے سارے اڈوں کو فوراًتباہ کرنا چاہیے۔انہیں پتا ہونا چاہیے کہ دہشتگرد کسی کے سگے نہیں ہوتے ۔سری لنکا کے دہشتگردوں نے راجیو گاندھی کے ساتھ اور افغان دہشتگردوں نے ضیاالحق ساتھ جو کیا ہے ‘وہ کسی سے چھپا نہیں ہے ۔۔مودی اور نواز کیلئے پٹھان کوٹ حملہ ایک ایسا تاریخی موقع بن گیا ہے ‘جو دونوں ملکوں کی ستر سال پرانی گانٹھوں کو کھول سکتا ہے ۔
(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)