صدر فرنسوااولاند فرانس کے پہلے صدر نہیں ہیں ‘جو ہمارے یوم جمہوریہ پر مہمان خاص بنے ہیں ۔ان سے پہلے چار دیگر فرانسیسی صدوربھی ہمارے یومِ جمہوریہ پر مہمانِ خاص بن چکے ہیں لیکن اس بار اولاند کا آناخاص اہمیت والا ہے ۔اس بار فرانس کے صدرہمارے مہمان بنے ہیں،دہشت گردی کے سایہ میں ۔سارے مغربی ممالک میں اگر دہشتگردوں نے سب سے زیادہ نقصان کسی کو پہنچایا ہے تو وہ فرانس ہے ۔ مشرقی ملکوں میں دہشتگردی کا سب سے زیادہ نقصان کسی نے اٹھایا ہے توبھارت نے اٹھایا ہے ۔اسی لئے دونوں ملکوں نے دہشتگردی کے خاتمے پر الگ سے ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے ۔فرانس نے کہا ہے کہ بھارت کو حق ہے کہ وہ پاکستان سے یہ مانگ کرے کہ وہ اس کے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے ۔دونوں ملکوں نے دہشتگردوں کے خلاف متحد ہ نگرانی اور کارروائی کا بھی عزم کیا ہے ۔یہ بھی توجہ کی بات ہے کہ کسی بیرونی ملک (فرانس )کی فوج کے جوانوں نے پہلی بار بھارت کے یوم جمہوریہ کے موقع پر مظاہرہ کیا ہے۔
بھارت اور فرانس اپنے اپنے ڈھنگ سے بڑے آزاد ملک رہے ہیں ۔سرد جنگ کے دنوں میں فرانس امریکی خیمے کا ممبرہوتے ہوئے بھی اپنی خود مختاری بنائے رکھتا تھا‘ اس طرح بھارت روس کا گہرا دوست ہونے کے باوجود اُس کا کبھی پچھ لگونہیں بنا۔ بھارت اور فرانس کا یہ ایک جیسا برتاؤانہیں آپس میں جوڑتا ہے۔ جوہری مُدہ پر بھی بھارت کی جانب فرانس کا رویہ اوروں سے بہتر تھا۔ فرانس تہ دل سے چاہتا ہے کہ بھارت ایٹمی سپلائرز گروپ کا ممبر بنے ۔وہ ہمیں سلامتی کونسل کا ممبر بھی بنانا چاہتا ہے لیکن ہمارے دونوں ملکوں میں دوریاں اس لئے بھی دکھائی پڑتی ہیں کہ فرانس کو اپنی زبان پر فخر ہے اور ہم انگریزی کے غلام ہیں ۔
اولاند کے اس دورے کے دوران دونوں ملکوں نے دفاعی تعاون کا دس برس کا معاہدہ کیا ہے،اس کے علاوہ درجن بھردیگر سمجھوتے بھی ہوئے ہیں ۔ان میںشمسی توانائی خاص ہے ۔جس پر فرانس 200 2 کروڑ روپیہ خرچ کرے گا ۔وہ 800 ریل کے انجن بھی بنائے گا ۔وہ بھارت کو 36 لڑاکا جہاز رافل دینے کا وعدہ تو کر ہی چکا ہے ‘ہیلی کاپٹر بنانے میں بھی مدد کرے گا۔ بھارت فرانس تجارت ابھی صرف آٹھ ارب ڈالر کی ہے ‘جوکہ جرمنی ‘امریکہ اور چین کے مقابلے میں بہت کم ہے ۔اسے بڑھانے کی بھی تدبیر کھوجنی ہوگی۔ اگر بھارت میں فرانسیسی زبان کے پڑھانے پر کچھ زوردیا جائے تودونوں ملکوں کے رشتے کافی گہرے ہو سکتے ہیں ۔
سبھاش بوس:مودی کادم
نیتا جی سبھاش چندربوس سے متعلقہ سبھی خفیہ دستاویز شائع کرکے نریندر مودی سرکار نے بڑی جرأت کا ثبوت دیا ہے ۔اس میں جرأت کی کوئی خاص بات نہیں ہے لیکن پھر بھی میں اسے جرأت کی بات کیوں کہہ رہا ہوں ؟اس لئے کہ پچھلی سبھی سرکاروں نے سبھاش چندربوس کے معاملے میں دبو پن کا کام کیا ہے ‘سبھاش بوس کی عوام میں مقبولیت سے ڈری ہوئی تھیں ۔انہیں لگا کہ اگر ان دستاویزات سے یہ ثابت ہو گیا کہ 1945 ء میں سبھاش چندر بوس کا انتقال ہو گیا تھا تو ان کی شامت آ جائے گی ‘کیونکہ بھارت کے عوام میں یہ بھرم پھیلا دیا گیا تھا کہ سبھاش بوس زندہ ہے اور جواہر لعل نہرو نہیں چاہتے تھے کہ زندہ سبھاش بوس بھارت آجائیں ۔اگر سبھاش بوس آگئے توبھارت کے عوام نہرو کو ہٹاکر انہیں وزیراعظم کی کرسی پر بٹھا دیں گے۔سبھاش بوس زندہ ہیں اور وہ کہیں گمنامی میں زندگی بسر کر رہے ہیں ۔سبھاش بوس کے رشتے دار ابھی بھی اس بھرم میں ہیں ۔وہ 119 سال کیا‘ دوسوسال بعد بھی ان کے نام کو یونہی دوہراتے رہیںگے ۔دوجانچ کمیشنوں نے دوٹوک الفاظ میں اس بات کی تصدیق کی تھی کہ 1945 ء میں ایک ہوائی حادثہ میں سبھاش بوس کی موت ہو گئی تھی۔
لیکن بھارت کی سرکاریں اتنی ڈری ہوئی تھیں کہ وہ سبھاش بوس کے ہڈیوں کے کلش کو بھارت لانے کے لیے تیار نہیں تھیں۔انہیں بھارت رتن اعلان کا خطاب دینے کے باوجودیہ اعزاز اس لیے نہیں دیا گیا کہ 'انہیں مرحوم ‘ کہا جائے یا نہیں ؟اب ان دستاویزوں نے اس طرح کے سبھی خوف وخطروں کو خارج کر دیا ہے۔ جہاںتک نہرواور سبھاش بوس کے باہمی مقابلے کا سوال ہے‘وہی رہا ہے لیکن نہرو کی فراخ دلی دیکھئے آج سے ساٹھ برس پہلے وہ سبھاش بوس کی بیٹی انیتا شینکل کے لیے لگاتار چھ ہزار روپے ہر سال بھجواتے رہے‘جو آج کے حساب سے ایک لاکھ روپیہ سے بھی زیادہ بیٹھتے ہیں،جب انیتا پہلی بار بھارت آئیں تو وہ نہرو جی کے گھر ‘تین مورتی ہائوس میں رہیں ۔اسی طرح 1969 ء میں جب میں نے کابل کے 'ہندو گجر ‘میں سبھاش بوس کے روپوش ہونے کی جگہ کھوج نکالی اور وزیراعظم اندرا گاندھی کو خط لکھا تو انہوں نے بہت خوشی ظاہر کی اور کہا کہ وہ خود وہاں جاکر اس مکان کو یادگار بنوانا چاہیں گی ۔
سبھاش بوس کے دستاویزوں کو سیاست کی دلدل میں گھسیٹنا بالکل نامناسب ہے ۔مودی پر یہ الزام لگانا غلط ہے کہ ان دستاویزوںکوانہوں نے اس لئے کھولا ہے کہ نہرو اور گاندھی کو بدنام کیا جائے ۔سبھاش بوس کو نہرو نے ‘جنگ کا مجرم ‘ کہا ہے ‘اس بات کی ایک جھوٹا دستاویز بھی پھیلائی جا رہی ہے ۔اگر نہرو اور اندر سبھاش کے مخالف تھے تو میں پوچھتا ہوں کہ چوہدری چرن سنگھ ‘مرار جی ڈیسائی ‘اٹل بہاری واجپائی نے ان کے دستاویز کیوں نہیں ظاہر کیے؟ان کی تو سبھاش بوس سے کوئی دشمنی نہیں تھی۔ اس کا اصلی سبب یہی رہا ہے کہ سرکاریں ڈری ہوئی تھیں ۔مودی کو مبارک کہ انہوں نے دم دکھایا ۔یہ بات دوسری ہے کہ اس کا فائدہ مغربی بنگال کے چناو ٔمیں مودی کو تھوڑا بہت مل سکتا ہے ۔
مودی کی گاڑی پٹری پر کب آئے گی؟
گزشتہ تین ہفتوں میں مجھے ملک کے کم از کم دس شہروں اور دیہات میں جانے کا موقع ملا ۔ابھی میں ممبئی ہوں ۔کئی نامی گرامی فلمی ہستیوں کے بیچ ۔پچھلے دنوں میں الگ الگ صوبوں میں مجھ سے بھاجپا ‘کانگریس اور سماج وادی پارٹی کے کئی لیڈراوروزراء بھی ملے۔ہری دوار میں کئی سادھو سنتوں سے میری ملاقات ہوئی ۔الگ الگ شہروں کے بڑے تاجر ‘صحافیوں اوردانشوروں سے بھی بات ہوئی ۔آرایس ایس کے کچھ خاص لوگوں اور چار سے پانچ وزرائے اعلیٰ سے بھی بات ہوئی ۔کئی پروگراموں بھی تقریر کرنے کا موقع ملا ۔
تعجب ہے کہ ڈیڑھ سال پہلے اور آج کے ماحول میں زمین آسمان کا فرق نظر آیا ہے ۔کسی نے بھی نہیں کہا کہ وہ موجودہ سرکار کے کام کاج سے مطمئن ہے۔یہ بھی کسی نے نہیں کہا کہ مودی سے وہ بالکل ناامید ہیں ۔جب وہ مودی بولتے ہیں تواس کا مطلب ہے سرکار !مودی اور سرکار ایک دوسرے کے نعم البدل ہیں ۔مودی ہی سرکار ہیں ۔مودی ہی اعلیٰ ہیں ‘باقی سب جھوٹ ہے ۔دوسرے وزیر کیا کر رہے ہیں یا نہیں کر رہے ہیں ‘اس کا کوئی خاص مطلب نہیں ہے ۔پارٹی صدر اور دیگر عہدیداران کی تو گنتی ہی نہیں ہے۔اخلاق کا مسئلہ ہو یا روہت ویمولا کا ‘اگر مودی نے خاموشی اختیار کی ہے تو کسی بھی وزیر کے کچھ بولنے کا کوئی مقصد نہیں ہے ۔مودی کو سب لوگ اچھے وزیرپرچار کی طرح جاننے لگے ہیں ۔بیرونی ممالک میں انہوں نے جتنا بھارت کا پرچار کیا ہے‘اب تک کسی بھی وزیراعظم نے نہیں کیا لیکن بھارت میں انہوں نے جتنے بھی مشن چھیڑ ے ہیں ‘ان کے نام اتنے اٹ پٹے ہیں اور انگریزی میں ہیں کہ وہ لوگوں کے گلے ہی نہیں اترتے ۔تیل کی عالمی قیمتیں ایک تہائی رہ گئیں ‘بھارت سرکار کو اربوں روپیہ حصول ہوئے لیکن نہ تو تیل کی قیمتیں کم ہوئیں ‘نہ مہنگائی کم ہوئی ۔کوئی ایسا ناٹکی کام بھی نہیں ہوا‘جسے عوام کے سامنے نمونے کی طرح پیش کیا جاسکے۔سارے ملک میں زبردست آپا دھاپی دیکھ رہا ہوں ۔اگر مودی کی گاڑی اگلے چھ ماہ میں بھی پٹری پر نہ آئی توملک کی بدقسمتی تو ہوگی ہی ‘بھاجپا اور سنگھ کو بھی گہرا نقصان اٹھانا پڑے گا۔