ڈاکٹر رام منوہر لوہیا نے ملک میں انگریزی ہٹائو تحریک شروع کی تھی ۔تقریباً پچپن برس پہلے میں نے ا نہیں اندور کے اپنے کرسچن کالج میں بلایا تھا ۔زبان کے سوال پر میں مہارشی دیانند اور مہاتما گاندھی کے نظریات سے پہلے ہی متاثر تھا ۔ جب میں نے ڈاکٹر لوہیا کو سنا تو مجھے لگا کہ وہ عظیم بنیادی نظریہ کے مالک ہیں اور انہوں نے ہمیں بتایا کہ زبانی غلامی کے سبب ملک کا کتنا بڑا نقصان ہو رہا ہے ۔میں 1957 ء میں پنجابی زبان کی تحریک میں پہلے ہی جیل کاٹ چکا تھا ۔اب میں نے سارے ملک میں گھوم گھوم کر انگریزی کا نہیں ‘اس کے تھوپے جانے کی مخالفت کی ۔مہارشی دیانند ‘مہاتما گاندھی اور ڈاکٹر لوہیا کے نظریات کو میں نے نئے دلائل اور حقیقت کے ساتھ آگے بڑھایا۔اندور کے کچھ نوجوانوں نے میری تقاریر کو ٹیپ کر کے ایک کتاب شائع کروائی ۔'انگریزی ہٹائو‘ کیوں اور کیسے ؟‘اس کتاب کی ایک لاکھ سے زیادہ کاپیاں بِک چکی ہیں اور دس زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے ۔1971 ء میں مشہور شاعر شری بھوانی پرساد مشرا مجھے ونوبا جی سے ملوانے وردھا لے گئے تو ونوبا جی نے کہا کہ 'بابا (خود )اس چیز کا سب سے بڑا علامہ ہے لیکن تمہاری کتاب میں اسے بھی نئے مثال ملے۔
اب میں یہی بات بندو نایر کے بارے میں کہنا چاہتاہوں۔ آج انگریزی کے اخبار 'ہندو‘میں ان کی تحریز چھپی ہے ۔وہ انگریزی کے پروفیسر ہیں ۔ملیالی ہیں ۔انہوں نے انگریزی زبان کے غیر سائنسی ہونے کے بارے میں ایسی باتیں بتائی ہیں ‘جن کے بارے میں مَیں نے اور آپ نے بھی کبھی سوچا نہیں ہوگا ۔جیسے انگریزی میں زمان مستقبل نہیں ہوتا ۔وہ حال کی ٹانگ مروڑ کر اسے زمان مستقبل بنا دیتے ہیں ۔ہندی میں ہم کہتے ہیں ۔میں گیا ‘میں جاتا ہوں ‘میں جائوں گا لیکن انگریزی میں اسے کیسے کہیں گے ؟I went, I am going,I am going tomorrrow, مستقبل اور حال دونوں کا عمل ایک ہی ہے‘ going نایر پوچھتے ہیں کہ جس زبان میں زمان مستقبل نہیں ہے ‘اس کا مستقبل کیا ہے ؟اسی طرح انگریزی الفابیٹ میں 26 حروف سے 44 آوازیں نکلتی ہیں۔ آپ بولتے کچھ ہیں اور لکھتے کچھ اور ہی ہیں ۔جیسے "c"حرف کے پانچ اچارن ہیں ۔سٹی ‘ کار ‘چیئر ‘کورس ‘کیمپین ۔دنیا میں مشہور انگریزی ادیب برنارڈ
شا نے اچارن متعلق ایسے مثال دیے ہیں کہ ہنس ہنس کر آپ کا پیٹ پھول جائے ۔میری تقاریر میں ایسے کئی مثال میں دیتا رہا ہوں ۔یہ سب سچائی اور مثال ونوبا یا میں نے یا بندو نایر نے انگریزی کو نیچا دکھانے کے لیے نہیں ‘بلکہ یہ بتانے کے لیے دیے ہیں کہ ہماری بھارتی زبانیں گرامر اور حروف کی تعدادکے نظریے سے انگریزی سے بہت آگے ہیں ۔ہم غیر ملکی زبانیں خوب سیکھیں لیکن اپنے دل میں اپنی زبانوں کی جانب مایوسی لے کے نہ بیٹھ جائیں ۔نایر جی کو مبارک!
سرکار اور اپوزیشن‘ دونوں ہی پگلائے
پارلیمنٹ کے دونوں سدنوں میں آجکل جیسی بحث چل رہی ہے ‘کوئی بتائے کہ اس سے ملک کا کیا فائدہ ہو رہا ہے ‘سرکار کی کون سی نئی پالیسی بن رہی ہے ‘پارلیمنٹ کی کون سے شان بڑھ رہی ہے ؟اپوزیشن تو اپنی عقل کے دیوالے پن کا ثبوت دے ہی رہی ہے ۔ اقتداریوں نے اپنی کھال بچانے کے علاہ کیا کیا ہے ؟اپوزیشن ایک دم پگلائی ہوئی ہے ۔چاہے معاملہ روہت ویمولا کی خود کشی کا ہو یا جواہرلعل نہرو یونیورسٹی کے کنہیا کی گرفتاری کا‘دونوں کو ڈنڈا بنا کر اپوزیشن اپنی بھڑاس نکال رہی ہے ۔وہ مودی سرکار کو آڑے ہاتھوں لینے کی پوری کوشش کر رہی ہے ۔مانو کسی ڈوبتے کو تنکے کا سہارا مل گیا ہے ۔ایک تنکے کا ڈنڈا بنا کر وہ بھاجپا سرکار کو پیٹ رہی ہے ۔گزشتہ چھ ماہ میں اپوزیشن نے کسی ٹھو س مدعے پر ملک میں کوئی بحث یا مہم چلائی۔کچھ غیرمدعوںکواٹھایااور انہیں لے اڑی ۔مدعے دوسروں کے اور بھنانے خود چل پڑی ۔اب ڈر یہ ہے کہ اس کی یہ چالاکی کہیں اس کے گلے کی پھانس ہی نہ بن جائے ۔اس میں شک نہیں ہے کہ کنہیا کی گرفتاری کافی ناسمجھی والا قدم تھا اور اس کی ہر کسی نے مذمت کی لیکن سرکار نے اپنے گلے کا سانپ اتار کر اپوزیشن کے گلے میں ڈال دیا ہے ۔اس سانپ کے منہ میں اس نے افضل گرو ‘کشمیر کی آزادی اور بھارت کے ٹکڑوں کا زہر بھر دیا ہے ۔اپوزیشن اپنے ہی جال میں پھنس گئی ہے ۔افضل گرو کو پھانسی پر لٹکانے والے پارٹی کے لیڈر اس کی برسی منانے پہنچ گئے ۔مجھے ابھی ابھی کچھ پُراعتماد ذرائع سے پتا چلا ہے کہ جے این یو کے معاملے میں سرکار سے الگ کہیں دیگر عناصر کی مداخلت ہوئی ہے ۔ایسے لوگوں کی ‘جو آجکل خوش قسمتی سے بڑے عہدوں پر فائز ہیں لیکن جو صرف مقامی لیڈر یا کارکن رہے ہیں ۔ان کے احکامات پر پولیس کو عمل کرنا پڑا ہے ۔اگر یہ سچ ہے تو یہ شرمناک ہے ۔اس کی تفتیش ہونی چاہیے ۔پولیس افسروں سے پوچھا جانا چاہیے کہ کس کے اشارے پر وہ جے این یو میں گھسی تھی اور کن لیڈروں نے تل کا تاڑ بنانے کی کوشش کی ہے ۔افضل گرو کے نام پر کوئی پروگرام کرنا اور بھارت کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی بات کرنا بالکل غلط ہے لیکن اسے غلط کہنے کا حق اس پارٹی اور اس سرکار کو کیسے ہے ‘جو افضل کو شہید ماننے والی پی ڈی پی کے ساتھ کشمیر میں ہاتھ ملا چکی ہے اور آگے بھی ملانے کے لیے بیتاب ہے۔یہ پارٹی ہے کہ چوں چوں کا مرباّ ؟اس کے اصول اور نظریات کہاں ہو اہو گئے ؟سرکار اور اپوزیشن ‘دونوں ہی بوکھلائے سے لگ رہے ہیں ۔پتا نہیں ‘ دنیا کے اس بڑے جمہوری ملک کا کیا ہوگا؟