بیلئجم کے دارالحکومت میں ہوئی دہشتگردی کی کارروائی نے ایک بار پھر یورپ کو دہلا دیا ۔زخمیوں کی تعدادڈیڑھ سو سے زیادہ ہو گئی اور چوتیس سے زیادہ ہلاک ہوئے ۔یورپ کے قریب قریب سبھی ملکوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔یہ حملہ اس لئے ہواکہ چار دن پہلے ہی عبدالسلام نام کے آدمی کو پکڑا گیا تھا ۔یہ وہ شاطر گنہگار ہے ‘جس نے پیرس حملے کی سازش رچی تھی ‘یعنی برسلز حملہ‘پیرس حملے کی ہی اگلی کڑی ہے ۔برسلز اس بات کا واضح اشارہ کرتا ہے کہ یورپ کے دیگر کے شہروں کوبھی اسی طرح کے حملوں کے خلاف ابھی سے خبردار ہو جانا چاہیے ۔داعش کے دہشتگرد اگر شام میں ناکام ہو رہے ہیں تو اس کا غصہ یورپ میں نکال رہے ہیں ۔کوئی تعجب نہیں کہ پیرس اور برسیلس جیسے واقعات ایشیا میں بھی ہونے لگیں ۔
تعجب ہے کہ یورپ کے ملک امریکہ کی طرح اپنے آپ کو محفوظ کیوں نہیں کر پا رہے ہیں ؟'نائن الیون‘ کے بعد آج تک امریکہ میں دہشتگردی کا اتنا بڑا حملہ نہیں ہوا ٔ لیکن یورپ میں کئی برسوں سے اس طرح کے حملے ہوتے چلے جا رہے ہیں ۔اس کا سبب تو یہی ہے کہ ایشیا اور افریقہ میں یورپ کے جتنے بھی باشندے تھے ‘ان کے باشندوں کو یورپی ملکوں کی شہریت حاصل کرنے میں خاص مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ۔وہاں وہ لاکھوں کی تعداد میں ہیں ۔انہی کے بیچ میں سے دہشتگرد پیدا ہوتے ہیں۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ ان ملکوں میں فری ویزا ہے ۔ایک ملک میں جرم کرو اور دوسرے ملک میں جاکر چھپ جائو۔ایک ملک میں اچھے بن کر بیٹھے رہو اور دوسرے ملک میں آگ لگا دو ۔تیسراسبب یہ ہے کہ جو ایشیائی اور افریقی باشندے یورپ آ جاتے ہیں۔‘ان میں سے زیادہ بے روزگارہوتے ہیں ‘بغیر تعلیم اور تربیت والے ہوتے ہیں‘ نہایت ہی غریب ہوتے ہیں۔ انہیں مذہب کے نام پر بہکانا آسان ہوتا ہے ۔وہ یوں بھی رنگ کے فرق اور مذہب کی بنیاد پر بہکائے ہوئے ہوتے ہیں ۔ایسے گمراہ نوجوانوں سے ہی یہ دہشتگردی کی کارروائی کروائی جاتی ہے۔یورپ کہہ رہا ہے کہ وہ دہشتگردوں کے خلاف جنگ میں مصروف ہے لیکن سوال یہ ہے کہ وہ بار بار ان سے پِٹ کیوں جاتا ہے ؟ان دہشتگردوں کا مقابلہ کرنے کے لیے جوبھی روایتی طریقے ہیں‘ انہیں ضرور اپنایا جائے لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ مذہبی لوگ دہشتگردوں کے خلاف فتوے جاری کریں اور ہر مسجد میں تشدد ‘قتل و غارت گیری کے خلاف تقاریر کی جائیں ۔جب تک دہشتگردی کو 'کافرانہ حرکت ‘ اعلان نہیں کیا جائے گا ‘جوان لوگ گمراہ ہوتے رہیں گے ۔وہ امن پسند مسلمانوں کا جینا حرام کر دیں گے ۔
اسلام پر مودی کی زبردست تقریر
وزیراعظم نریندر مودی نے عالمی صوفی پروگرام میں کمال کی تقریر کی ۔ ظاہر ہے کہ خود مودی نہ تو اسلام کو سمجھتے ہیں ‘نہ ہی صوفی ازم کو اور نہ ہی اس کی تاریخ کو !شاید وزیراعظم نرسمہا رائو کے علاہ کسی کوبھی صوفی ازم کی ایسی سمجھ نہیں تھی جیسی کہ مودی کی تقریر میں ظاہر ہوئی ہے ۔اس لیے جس عاقل نے مودی کی تقریر کوتیار کرایا ہے ‘پہلے تواُسے مبارک اور مودی کو اس سے بھی زیادہ مبارک !کیونکہ مودی نے سنگھ کا سوئم سیوک سنگھ رہتے ہوئے اسلام کی زبردست تعریف کر دی ہے۔ مودی نے کہا کہ اسلام کا مطلب ہے ‘سلامتی کا مذہب! امن کا مذہب! اللہ کے جو 99 نام ہیں ‘ان میں تشدد کہیں بھی نہیں جھلکتا۔ اللہ کے سب سے پیارے جو دو نام ہیں ‘وہ ہیں رحمن او ررحیم !ایسے مذہب کے نام پر دہشت گردی پھیلانا ‘اس مذہب کو بدنام کرنا ہے۔ ایسی دہشت گردی کا مقابلہ صرف تلواراور بندوق سے نہیں ہو سکتا‘ صوفیانہ نظریے سے ہی ہوسکتا ہے ۔مودی کی یہ ادا بھی اصلی ہندوپن کی ادا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ صرف اسی طریقے سے دہشت گردوں کو درست راہ پر لایا جا سکتا ہے ۔
لیڈروں کا دم مت گُھٹائیں
آج ایک ساتھ چار خبریں پڑھ کر دل ذرا بے چین ہوگیا ۔پہلی خبر یہ تھی کہ آسارام کے اس 'سادھو ‘(عقیدت مند)کو پولیس نے گرفتار کر لیا ہے ‘جس نے تین لوگوں کا قتل کیا تھا ۔یہ تین لوگ کون تھے ؟یہ تینوں لوگ وہ تھے‘ جنہوں نے آسارام کی کالی کرتوتوں کے خلاف عدالت میں گواہی دی تھی ۔دوسری خبر چھگن بھجبل کے بارے میں تھی ۔وہ مہاراشٹر کے نائب وزیراعلیٰ رہے دس برس تک اس عہدے کو شان بخشتے رہے ۔اس دوران انہوں نے رشوت کھا کر کچھ ٹھیکیداروں کو ایسے ٹھیکے دیے ‘جس سے سرکار کو 870 کروڑ روپیہ کا نقصان ہونے کا اندازہ ہے ۔پہلے بھجبل کا بھتیجا پکڑا گیا۔ بھجبل شوسینا‘کانگریس اور نیشنلسٹ کانگریس کی ہوا کھا چکے ہیں۔ اب وہ جیل کی ہوا کھا رہے ہیں ۔تیسری خبر کولکتہ کی ہے ۔ممتا بینرجی کی ترن مول کانگریس کے لگ بھگ درجن بھر وزراء ‘ایم پی ایز‘ایم ایل ایز اور عہدیداران کے و یڈیو سامنے آئے ہیں ۔'نارد نیوز‘ نے سٹنگ آپریشن کر کے بتایا ہے کہ ٹی ایم سی کے لوگ کس بے حیائی سے رشوت خوری میں لگے ہوئے ہیں ۔چوتھی خبر مجلس اتحاد کے لیڈر اسدالدین اویسی کی ہے ۔وہ کہتا ہے کہ میری گردن پر چھری رکھ دو ‘تب بھی میں 'بھارت ماتا کی جے نہیں بولوں گا۔
واہ کیا بات ہے ؟کتنی بہادری کی بات ہے ‘اویسی کی ؟کون بے وقوف اپنی چھری خراب کروائے گا تم سے‘ بھارت ماتا کی جے بلوانے کے لیے ؟تم کو بولنا ہے تو بولو ‘ورنہ بھاڑ میں جائو !ہمارے سادھو سنت فقیر بھی کتنے غضب کے ہیں ۔جیل کے اندر بیٹھے بیٹھے بھی قتل کرا سکتے ہیں ۔وہ مرنے کے بعد سب کو نجات بانٹتے ہیں اور زندہ ہوتے ہوئے بھی اس تودہ خاکی سے نجات دلا دیتے ہیں ۔ اپنے پیارے لیڈروں کے تو کہنے ہی کیا رشوت لیتے ہوئے ان کے رنگے ہاتھ پکڑا جانا ہمارے لیے خبر ہے لیکن ان کے لیے وہ کیاہے ؟کچھ نہیں ہے ۔روزمرہ کا دھندہ ہے ۔سانس ہے ۔اگر لیڈر اور افسر رشوت نہ کھائیں تو کیا ان کی سانس بند نہیں ہو جائے گی ؟ارے ‘اخبار اور ٹی والو! آپ لیڈروں کا دم گھونٹنے پر کیو ں اتارو ہو گئے ہیں ؟
کیا مودی مانیں گے سنگھ کی صلاح
مجھے خوشی ہے کہ تعلیم اور علاج کی خراب حالت پر گزشتہ دو برس سے میں جیسا لکھ رہا تھا ‘بالکل ویسی ہی قرارداد راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کی تنظیم نے پاس کی ہے۔تعلیم اور علاج ‘یہ دو شعبے ایسے ہیں کہ اگر انہیں سنبھال لیا جائے تو کسی بھی ملک کو خوشحال اور طاقتور بننے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔اگر وہ ملک بھارت ‘ چین یا امریکہ جیسا ہے تو اسے عالمی قوت بننے سے کوئی روک نہیں سکتا ۔لیکن پچھلے پونے دوسال میں مودی سرکار نے کیا کیا ہے ؟اس نے تعلیم اور صحت کو سدھارنے کی بجائے ملک میں تعمیراتی کاموں کی وجہ سے اس کی اہمیت کو کم کر دیا ہے ۔تعلیم کی بجٹ میں بھی کٹوتی کر دی ہے ۔اگر دونوں مُدوں (ایشوز) پر اس سنگھ کے خدمت گاروںکو سنگھ خبردار نہیں کرے گا تو کون کرے گا؟بھارت کی موجودہ اپوزیشن نے اپنا اعتماد اتنا کھو دیا ہے کہ اگر وہ ان دونوں مُدوں کو اٹھائے گی تو بھی اس پر کوئی توجہ نہیں دے گا ۔
یہی حال تعلیم کا بھی ہے۔ میں نے کچھ ماہ پہلے لکھا تھا کہ سرکاری مکاتب اور کالجوں کا معیار اور لیول بلند کرنا ہو تو سبھی سرکاری ملازموں اور عوامی لیڈروں کے لیے یہ لازمی ہونا چاہیے ۔کہ ان کے بچے سرکاری تعلیمی اداروں میں ہی پڑھیں۔ یہی شرط ان کے علاج پر بھی نافذ کی جائے ۔ نجی ہسپتالوں اور نجی تعلیمی اداروںپر یا تو مکمل پابندی ہو یا پھر انہیں اصول میں رہنے کیلئے مجبور کیا جائے۔ اس کے علاوہ سنگھ نے جس بات پر زور نہیں دیا ‘ وہ یہ ہے کہ ملک میں اعلیٰ تعلیم کا ذریعہ ہندی یا دیگر ملکی زبانیں ہونی چاہئیں ۔انگریزی پڑھانے والے سبھی سکولوں اور کالجوں کا لائسنس رد ہونا چاہیے ۔ ہاں ‘انگریزی اور غیر ملکی زبانوں کو اپنی مرضی مطابق پڑھنے پڑھانے پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے۔یہ سرکار میڈیکل ‘قانون ‘سائنس ریاضی اور تکنیکی مضامین کو ہندی میں پڑھانے والی یونیورسٹیاں کیوں نہیں کھولتی ؟نوکرشاہی کے ذریعے چل رہی یہ سرکار اگر مجبور ہے تو سنگھ والے خود پہل کیوں نہیںکرتے؟