سپریم کورٹ (بھارت)نے ایک تاریخی فیصلہ دیا ہے ۔ آئینی بینچ کے پانچ ججوں نے یہ فیصلہ متحد ہو کرلکھاہے ۔فیصلہ یہ ہے کہ ملک کے سبھی میڈیکل میںداخلے ‘ایک جیسے ہوں گے ۔ابھی تک رسم یہ چلی آئی ہے کہ ہر صوبے کے میڈیکل امتحانات الگ الگ ڈھنگ سے ہوتے تھے ۔ اس کا انجام یہ ہوتا تھا کہ ایک صوبہ کے ڈاکٹروں کو دوسرے صوبوں میں نوکریاں ملنے میں پریشانیوں کا سامنا کر نا پڑتا تھا ۔اتنا ہی نہیں ‘ہر نجی میڈیکل میں بھرتی کے امتحان بھی اپنے اپنے ڈھنگ سے الگ الگ ہوتے تھے ۔ ان کی تائید میں یہ مثال دی جاتی تھی کہ وہ اپنے شاگردوں کی قابلیت بڑھانے کے لیے اپنے ڈھنگ کاسخت امتحان لیتے ہیں لیکن کھوج کرنے پر پایا گیا کہ میڈیکل کے سٹوڈنٹس سے ایک ایک دو دو کروڑ روپیہ 'کیپیٹیشن فیس‘لی جاتی ہے اور امتحان کے پہلے ہی ان کی بھرتی طے ہوجاتی ہے ‘یہ انتظام برسوں سے چلا آرہا ہے ۔اس کے دو خراب انجام ہوتے ہیں ۔پہلا‘ بدعنوانی کو بڑھاوا ملتا ہے ‘جو شاگرداپنی بھرتی کے لیے لاکھوں کی رشوت دیتا ہے ‘وہ زندگی بھر مریضوں کے گلے پر چھری پھیرتا رہتا ہے ۔وہ کروڑوں کماتا ہے۔ ہمارے ہسپتال قصاب خانے بن جاتے ہیں ۔دوسرا‘پیسے کے زور پر نالائق شاگرد بھرتی ہو جاتے ہیں ۔وہ زندگی بھر اپنی ناقابلیت کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں ۔وہ مریضوں کو تنگ کرتے رہتے ہیں اور ان کی جان تک لے لیتے ہیں ۔
اب پورے ملک میں ایک ہی بھرتی امتحان ہونے سے
بدعنوانی اور ناقابلیت پر کافی لگام لگے لگی لیکن ہماری سرکاروں اور عدالتوں کی سوچ میں ابھی بھی بہت کمی ہے ۔ میڈیکل کی پڑھائی ملک میں جادوٹونا بن گئی ہے۔جس دن میڈیکل کی ساری پڑھائی ہندی اور دیگر بھارتی زبانوں میں
ہونے لگے گی ‘جادوٹونا ختم ہو جائے گا ۔ ڈاکٹر اور مریض کا فاصلہ کم ہو جائے گا ۔ڈاکٹری کی پڑھائی کافی آسان ہو جائے گی ۔ ہمارے دیہاتی ‘غریب ‘محروم اور دلت طبقے کے بچے بھی آسانی سے ڈاکٹر بن سکیں گے ۔اگر ڈاکٹر کی بنیادی پڑھائی کے ساتھ ساتھ کنسلٹنٹ ڈاکٹری ‘نرسنگ ‘کمپائونڈری کی پڑھائی پر بھی زور دیا جائے تو بہتر ہوگا ۔اس کے علاوہ ایک بھرتی امتحان کے ساتھ ساتھ پورے ملک میں میڈیکل کا ایک ہی نصاب ہویہ بھی ضروری ہے ۔بھرتی امتحان کے معاملے میں بھارت کی میڈیکل کونسل کو میں مبارک باد دیتا ہوں لیکن اس سے یہ امید بھی کرتا ہوں کہ وہ اسی برس سے میڈیکل کی پڑھائی کی زبان بھی بدلنے کا عزم کرے گی ‘یہ انقلابی قدم ہوگا ۔
نتیش ‘ر یزرویشن اور چھرا
گزشتہ ہفتہ بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار کی شراب بندی کے بارے میں میں نے دو لیکھ لکھے تھے لیکن اب یہ تیسرا لیکھ بھی لکھنا پڑ رہا ہے ۔ آج اخباروں میں پڑھا کہ ویر منی اعزاز لیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شیڈول کاسٹ اور محروم ذات والوں کے لیے غیر سرکاری نوکریوں میں بھی پچاس فیصد ریزرویشن کا انتظام ہونا چاہیے اور سرکاری نوکریوں میں وہ پچا س فیصد سے بھی زیادہ ہونا چاہیے ۔ انہوں نے مسلمانوںاور عیسائیوں کے لیے بھی ریزرویشن کی مانگ کی ۔دلیل یہ دی کہ مذہب بدلنے سے ذات تھوڑے ہی بدل جاتی ہے ۔ان ریزرویشنوں کے لیے انہوں نے آئین میں ترمیم کی مانگ کی ہے ۔
اگر یہ سب باتیں انہوں نے صرف تھوک ووٹ پانے کے لیے کی ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔سیاست کا مطلب ہی ووٹ اور نوٹ ہے ۔ اپنی عوامی مقبولیت بڑھانے کے لیے ہر لیڈر جال بچھاتا ہے ۔لیکن اگر نتیش جیسے سمجھ دار لیڈرسچ مچ ان باتوں میں اعتماد کرتے ہیں تو یہ فکر کی بات ہے ۔نتیش ابھی بہار کے وزیراعلیٰ اور جے ڈی یو کے صدر ہیں ۔لیکن اگلے دوبرس میں وہ عہدہ ِوزیراعظم کے امیدوار بن جائیں گے ۔ان سے امید کی جاتی کہ وہ ریزرویشن کے سڑے گلے انتظام کے خلاف عوامی تحریک چلائیں گے ۔بھارت میں ریزرویشن بالکل فیل ہوگیا ہے ۔یہ حقیقت میں دلتوں اور محروموں کی پشت میں جھنکا ہوا چھرا ہے ۔ ان کی صرف ملائی دار پرتوں کی دوسری اور تیسری پیڑھی کے لوگ ریزرو عہدوں پر سنگل حق جمائے ہیں ۔اصلی ضرورت مندوں کی ان سرکاری عہدہِ ریزرویشن تک کوئی پہنچ ہی نہیں ہے ۔تعلیم میں ضرورت مند دلتوں اور محروموں کو 80 فیصد ریزرویشن دیا جائے اورپیدائش کی بنیاد پر کوئی فرق نہیں کیا جائے ۔تو بھارت دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرے گا ۔ نوکریوں میں ریزرویشن کے خاتمے کے ساتھ نتیش جیسے لیڈر سے امید کی جاتی ہے کہ جیسے انہوں نے شراب بندی کی تحریک چلائی ہے‘ویسے ہی 'ذات توڑو‘تحریک بھی چلائیں گے ۔بھارت میںذات پات کی رسم کی جڑ کو سبز رکھنے والی سب سے سڑی ہوئی کھاد کا ہی دوسرا نام ہے ریزرویشن۔
امبیڈکر کو بھنائے بھاجپا
ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈکر کا 125واں یوم پیدائش زورشور سے بھاجپا سرکار منا رہی ہے اسے دیکھ کر کانگریسی لوگ دنگ رہ گئے ہیں۔ بھاجپائیوں نے کانگریسیوں کو بھی مات کر دیا ہے ۔ اسمیں ذرا بھی شک نہیں ہے کہ آزادی کے بعد کانگریسیوں نے امبیڈکرکو ضرورت سے زیادہ اہمیت دی ہے ۔ انگریزوں کے زمانے میں گاندھی اور امبیڈکرکے بیچ برابر مٹھ بھیڑ ہوتی رہی ۔ گاندھی کو نیچا دکھانے میں امبیڈکر نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی ۔گاندھی تو انگریزوں کی مخالفت کرنے پر تُلے ہوئے تھے لیکن امبیڈکر گاندھی کو ناکام کرنے کے لیے اندر ہی اندر انگریزوں سے ملی بھگت بنائے رکھتے تھے ۔گاندھی چاہتے تھے کہ اچھوت پن ختم ہو اورہری جن لوگ ہندو سماج میں گھل مل کر رہیں لیکن امبیڈکر ہری جنوں میں علیحدگی کو پنپا رہے تھے ۔ان کے دل میں ہندو سماج کے لیے جو زبردست نفرت تھی وہ عادتاًتھی۔ انہوں نے سوناروں کے ہاتھوں بہت کڑوے گھونٹ پیئے تھے ۔ انہوں نے آخر میںہندو مت چھوڑ کر بودھ مذہب اپنا لیا تھا حیدرآباد کے نظام انہیں مسلمان بنانے کی بھی کوشش کر رہے تھے امبیڈکر نے‘ شیڈول کاسٹ والے یا دلتوں کے لیے 1932 ء کی گول میز کانفرنس میں الگ ووٹ کے مانگ کی حمایت کی تھی‘جس کی مخالفت میںگاندھی کو تاعمر بھوک ہڑتال پر بیٹھنا پڑا تھا۔'دلتوں کے مسیح‘ کہلوانے والے امبیڈکرنے خود'دلت ‘ لفظ کی سخت مخالفت کی تھی۔لیکن انگریزوں کی شہ پر اسی لفظ کو مان کر ہندو سماج میں علیحدہ پسند ی کو پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ۔1909 ء کے ایکٹ میں جیسے مسلمانوں اور 1919 ء کے ایکٹ میں سکھوں کے الگ ووٹ بنا دیے گئے تھے ‘ویسے ہی 1935 ء کے ایکٹ میں دلتوں کے لیے الگ انتظام بنانے پر انگریز تُلے ہوئے تھے ۔
ایم سی راجا جیسے عوام کے چہیتے دلت لیڈر کو الگ کر کے انگریزوں نے امبیڈکرجیسے عاقل کو دلتوں کا سربراہ مان لیا تھا‘ ویسے ہی انہوں نے مسلمانوں کا لیڈر محمد علی جناح کو بنا دیاتھا۔ امبیدکرجتنا حسد گاندھی سے رکھتے تھے ‘اس سے زیادہ جناح سے رکھتے تھے ۔وہ پاکستان اور مسلم اتحاد کے اتنے ہی مخالف تھے ‘جتنے ساورکر تھے ۔اس نظریہ سے بھاجپا اگر امبیڈکر کو بھنانے پر تلی ہوئی ہے تو کیا غلط کررہی ہے؟ساورکر اور امبیڈکر میں کافی تال میل تھا ۔
اسمیں شک نہیں کہ امبیڈکر زبردست قابل آدمی تھے ۔آزادی کے سنگرام میں بڑے بڑے لیڈروں سے بھی زیادہ عزت امبیڈکرکو اس لیے ملی کہ وہ آزاد بھارت میں دلت ووٹ کھینچنے کے چقماق بن چکے ہیں ۔کانگریسیوں نے گاندھی اور نہرو کے بعدسب سے زیادہ مورتیاں امبیڈکر کی کھڑی کی ہیں ۔انہیں بھارت رتن بنایا جبکہ بھارت کی آزادی کو وہ معمولی سمجھتے تھے۔ کانگریسیوں نے امبیدکرکو آئین کا بنانے والااعلان کر دیا ۔جبکہ وہ آئین کی 'ڈرافٹنگ کمیٹی‘کے ممبر تھے ۔انہوں نے اپنے کردار کی خود سخت الفاظ میں مذمت کی ہے ۔اب بھاجپا کی نریند مودی سرکار بھی اسی جھن جھنے کو بجا کر صوبائی چنائووں میں دلتوں کے ووٹ جھاڑناچاہتی ہے ۔جو امبیڈکر‘ذات کا مکمل خاتمہ ‘(جاتی کا سموُل ناش) جیسی انقلابی کتاب لکھ گئے ہیں ‘وہ ذات پات کے زہر کو ختم کرنے کی بجائے ہمارے سبھی لیڈراسے پن پانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔کیا کریں‘وہ سب ووٹ اور نوٹ کے غلام جو ہیں ۔