"DVP" (space) message & send to 7575

مودی اب لیڈر بننے کی راہ پر

بلیا نے نریندر مودی کی زینت ہی بدل دی ۔اب تک لوگ یہ مان رہے تھے کہ مودی کی سرکار ملک کے بڑے دولتمندوں کی خدمت کر رہی ہے ۔اسے نہ تو ملک کے مڈل کلاس کی پروا اور نہ ہی غریبوں کی لیکن بلیا میں مودی نے غریب خاندان والوں کی رسوئی گیس کی ٹنکیاں مفت دینے کا اعلان کر کے کروڑوں دلوں کو چھو لیا ہے ۔اگلے تین سال میں پانچ کروڑغریب خاندانوںکو یہ ٹنکیاں مل سکیں گی ۔گیس کی ٹنکیاں دیتے وقت مودی نے اپنی والدہ کی جو کہانی سنائی‘اس نے پتھر دل لوگوں کے دل کوبھی پگھلا دیا ہوگا ۔انہوں نے بتایا کہ وہ جس کمرہ میں اپنی والدہ کے ساتھ رہتے تھے ‘اس میں کھڑکیاں نہیں تھیں ۔جب چولہا جلتا تھا تو کمرے میں اتنا دھواں بھر جاتا تھا کہ ماں کا چہرہ بھی نہیں دکھتا تھا ۔اب ملک کے کروڑ وں غریب لوگوں کی اس چولہے سے جان چھوٹے گی ۔سچ مچ مودی کا دل خوشی سے بھر گیا ہوگا کہ جو آدمی ایک وقت اپنی ماں کو چولہے سے نجات نہیں دلا سکا ‘وہ آج کروڑوں مائوں‘اور بہنوں کو اس پریشانی سے آزاد کر رہا ہے ۔
مودی کے اس فعل کو چناوی پینترا کہنا مناسب نہیں ہوگا۔اترپردیش کے چنائومیں اس پہل کا فائدہ بھاجپاکا ضرور ملے گا لیکن یہ ثواب کا کام ہے ‘سیاسی ہتھکنڈا نہیں ہے۔ اگر یہ صرف پینترا ہوتا تو ملک کے ایک کروڑ دس لاکھ لوگ گیس سلنڈر پر ملنے والی ڈیڑھ سو روپیہ کی رعایت کیوں چھوڑ دیتے؟آج ملک میں لیڈروں کی عزت پیندے میں بیٹھی ہوئی ہے ۔ ان کے کہنے سے کوئی ڈیڑھ سو روپیہ کیا ‘ڈیڑھ پیسہ کی بھی قربانی نہیں کرے گالیکن اتنے لوگوں نے مودی کی آواز کو کیوں سنا ؟اسی لیے کہ وہ خالص خدمت ‘خالص دوسروں کی فائدے کی آواز تھی ۔
لیکن اصلی اور بڑ اسوال یہ ہے کہ اس عوامی حمایت سے مودی کچھ سیکھنا چاہیں گے یا نہیں ؟اس کا پہلا سبق تو یہی ہے کہ انہیں یہ اتنی بڑی حمایت نوکرشاہوں کی بدولت نہیں ملی ہے اور نہ ہی ان کی پارٹی کے گیارہ کروڑ ممبروں کی اس میں کوئی مدد ہے ۔وہ سب اپنی اپنی گوٹیاں بٹھانے میں مشغول ہیں ۔یہ حمایت وزیراعظم کو نہیں ملی ہے ۔وزیر اعظم تو کئی آئے اور گئے۔یہ حمایت کسی قانون کی وجہ سے بھی نہیں ملی ہے ‘یہ ملی ہے ‘عوام سے سیدھا رابطہ قائم کرنے کی وجہ سے !عوام سے جو سیدھا رابطہ قائم کر سکے ‘وہی لیڈر ہے ۔ گزشتہ دو برس میں لگ بھگ درجن بھر تجاویز شروع کی گئیں لیکن وہ سب ٹی وی کے پردوں پر یا اخباروں کے کاغذوں پر چپک کر رہ گئیں ۔جیسے مودی نے گیس ٹنکی پر سرکاری سبسڈی چھوڑنے کی اپیل کی ‘ویسے ہی شراب بندی ‘ملکی زبان کا استعمال ‘‘رشوت خوری کا خاتمہ ‘پانی بچائو وغیرہ مدُوں پر بھی عوام سے سیدھی اپیل کریں اور اس کا اثر دیکھیں ۔وزیراعظم تو وہ ہیں ہی ‘وہ ملک کے لیڈر بھی بنتے چلے جائیں گے ۔
گیانی ذیل سنگھ کی کیسی سوویں سالگرہ
آج گیانی ذیل سنگھ کا 100واں یوم پیدائش ہے ۔سالگرہ صدارتی ہائوس میں منائی گئی ۔گیانی جی کی بیٹیوں نے مجھے بھی مدعو کیا۔میں بھی گیا ۔کل ڈیڑھ دو سو لوگ تھے ۔صدر ‘نائب صدراور سابق وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ اور وغیرہ وغیرہ ۔ سامعین کے بیچ کانگریس کے موجودہ لیڈروں میںسے وہاں ایک بھی موجود نہیں تھا ۔صرف شوراج پاٹِل ‘شیلا ڈکشٹ اور پون بنسل تھے ۔نہ سونیا گاندھی ‘نہ راہول گاندھی ‘نہ احمد پٹیل ‘نہ چدم برم ‘نہ انطونی اور نہ ہی سلمان خورشید ،کوئی نہیں ۔بھاجپا کے ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی ضرورآئے تھے ۔صدر پرنب مکھرجی کیا بولے ‘کچھ سمجھ میں نہیں آیا ۔ ان کا اچارن عجیب سا ہوگیا ہے ۔نائب صدر حامد انصاری نے رسم ادائی کر دی ۔صرف من موہن سنگھ کی تقریر ٹھیک ٹھیک رہی ۔ایسا لگا کہ یہ لوگ گیانی جی سے متعارف بھر تھے ۔انہیں جانتے نہیں تھے۔
میں سوچتا رہا کہ ایسا کیوں ہوا ؟ہو سکتا ہے کہ سونیا اور راہول کو اندرونی بات کاپتا ہو ۔وہ اندرونی بات یہ تھی کہ صدر کے طور پر گیانی ذیل سنگھ راجیو گاندھی سے بہت خفا ہو گئے تھے ۔گیانی ذیل سنگھ کا ایک اتوار کو مجھے فون آیا کہ کیا آپ ابھی صدارتی ہائوس آسکتے ہیں ؟میں پہنچا تو انہوں نے مجھے اپنے فیملی کوارٹر میں بٹھایا ۔ عام ہال میں نہیں ۔انہوں نے کہا کہ کئی لوگ مجھے صلاح دے رہے ہیں کہ میں راجیو گاندھی کو عہدہ وزیر اعظم سے برخاست کردوں ۔ میں نے کئی آئینی جانکاروں سے بات بھی کی ہے ۔آپ کا کیا خیال ہے ؟میں نے کہا ‘گیانی جی ،کیا آپ بھارت کو پاکستان بناناچاہتے ہیں ؟آپ رات کو بارہ بجے راجیو کو برخاست کریں گے اور ایک بجے تک آپ تہاڑ جیل میں ہوں گے آپ سے ملنے کوئی نہیں آئے گا ‘سو امیرے ۔گیانی جی حیران رہ گئے ۔ میں نے ان سے کہا کہ راجیو تو آپ کے ہاتھ کا لگایا ہو ا پودا ہے۔
کیا آپ ہی اسے اکھاڑیں گے ؟اس کے علاوہ کیا اندراجی نے ہی آپ کو صدر نہیں بنایا ؟کیا وہ قرض اسی طرح چکایا جائے گا ؟اس کے علاوہ کیا راجیو سجن آدمی نہیں ہیں ؟اس سے سیاسی غلطیاں ہو سکتی ہیں لیکن اس کی سجنتا میں ذرا بھی شک نہیں ہے ۔اس پر گیانی جی نے راجیو کے باادب ہونے کا ذاتی تجربہ سنایا اور ان کی آنکھوں سے اشک بہنے لگے ۔انہوں نے گرو گرنتھ صاحب کی ایک بانی بھی مجھے سنائی اور مجھے کہنے لگے کہ سارا بوجھ اتر گیا ۔
یہ واقعہ آج پہلی بار سرعام کر رہا ہوں۔اس کے علاوہ بھی ان کی زندگی کے نہایت ہی ذاتی پوشیدہ راز بھی بتاتے رہے ہیں لیکن انہوں نے وہ باتیں اپنی سوانح عمری میں نہیں کہی ہیں ۔ان کی سوانح عمری کو تحریر کی شکل دینے والے ان کے سیکرٹری اے ایس بترا آج میرے پاس بیٹھے تھے ۔بترا جی نے آج مجھ سے کہا کہ گیانی جی نے انہیں یہ کہا تھا جو باتیں سوانح عمری میں نہیں ہیں ‘وہ بھی انہوں نے آپ کو (یعنی مجھے ) بتائی ہیں ۔گیانی جی نے مجھے کہا تھا کہ ان کی وفات کے دس بیس سال بعد میں انہیں لکھنا چاہوں تو لکھ دوں ۔گیانی جی سے میری واقفیت اب سے 35 - 36 برس پہلے تب ہو ئی تھی‘جب وہ وزیرداخلہ تھے ۔دوستی گہری ہوگئی جو اُن کی زندگی کے آخری لمحات تک رہی ۔ان کی پہلی یادگار تقریرکرنے کی درخواست ان کی فیملی ممبران نے مجھ سے کی تھی ۔ گیانی جی کی کچھ اور یادگار باتیں کبھی بعد میں ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں