"DVP" (space) message & send to 7575

انقلاب برپا کریںمسلم خواتین

بھارتی مسلم خواتین تحریک نے انقلابی بیڑا اٹھایا ہے۔اس نے کئی صوبوں سے لگ بھگ پچاس ہزار مسلم خواتین کے دستخط لے لیے ہیں ۔یہ دستخط ہیں ‘ان خواتین کے جنہوں نے' تین دفعہ طلاق‘کی مخالفت کی ہے ۔اچھا ہو کہ صرف پچاس ہزار مسلم خواتین ہی نہیں ‘پانچ کروڑ مسلم خواتین اس یادداشت پر دستخط کریں ۔سرکار اور غیر سرکار ی اداروں کو طلاق کی اس سڑی گلی روایات کی مخالفت کرنی چاہیے ۔جنہوں نے دستخط کیے ہیں ‘وہ تو پڑھی لکھی یا تھوڑا بہت پڑھی لکھی ہیں لیکن جوکروڑوں ان پڑھ خواتین ہیں ‘وہ اس رسم سے متاثر ہیں ۔وہ غریب ہیں ‘دیہاتی ہیں ‘بے روزگار ہیں ‘بے زبان ہیں ‘مجبور ہیں ۔انہیں اس تحریک سے جوڑنے کی زیادہ ضرورت ہے ۔ان میں تو کئی تو ایسی ہیں ۔ جو ایک ہی وقت میں تین دفعہ طلاق کو ٹھیک بھی سمجھتی ہیں ۔ پیدائش سے ہی ان کے دماغ میں یہ بھر دیا جاتا ہے کہ ان کا شوہر اگر صرف تین بار 'طلاق‘بول دے تو ان کا نکاح ختم ہو جائے گا ۔انہیں یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ قرآن پاک میں یہ کہیں نہیں لکھا ۔یہ عرب لوگوں کی روائت ہے ۔اسے آنکھ بند کر ہم لوگ کیوں مانیں ؟قرآن شریف میں تو خواتین کی حفاظت اور عزت کی کئی ہدایات ہیں ۔اس کے علاوہ ہمیں ایک بنیادی بات سب سے پہلے سمجھنی چاہیے ۔وہ یہ کہ ہر مذہب اور ہر اصول
اپنے ملک اور زمانہ سے متاثر ہوتے ہیں ۔وقت لگاتار تبدیل ہوتا رہتا ہے اور جب ملک بھی بدل جائے تو پرانی گھسی پٹی باتوں سے چپکے رہنا تو اپنے مذہب کی حکم عدولی ہی ہے ۔یہ اصول سبھی مذاہب پر نافذ ہوتا ہے۔اگر نہیں تو کیا رامائن اور کیا مہابھارت کی ہر بات کو ہم ابھی بھی مانے چلے جا سکتے ہیں ؟کیا راجا دشرتھ کی طرح کئی بیویاں اور رانی دروپدی کی طرح کئی شوہر آج بھی ہندو لوگ رکھ سکتے ہیں یا انہیں رکھنا چاہیے ۔سبھی مذاہب کی دائم باتیں بہت کم ہوتی ہیں ۔انہیں ضرور ڈٹ کر پکڑے رہنا چاہیے ۔لیکن ملک کے حساب سے رکاوٹ والی باتوں کو چھوڑنے کی تیاری بنی رہنی چاہیے۔یہ 'تین دفعہ طلاق‘اسی درجے میں آتا ہے ۔'نکاح حلالہ‘اس سے بھی بدتر ہے ۔اس کے مطابق اگر کو ئی طلاق شدہ عورت اپنے خاوند سے دوبارہ ملنا چاہے تو کسی دوسرے مرد سے اسے شادی اور ہم بستری کرنی پڑے گی ۔کتنی غلط بات ہے ‘یہ!کئی غیر عرب ملکوں نے اسلام قبول کیا ہے لیکن انہوں نے عربوں کی رسومات قبول نہیں کیے ہیں۔ پٹھان لوگ آج بھی شریعت کی بجائے اپنی 'پشتون
والی‘والی رسم کرتے ہیں ۔اسی طرح ایران ‘الجزائر‘مصر‘وغیرہ نے بھی کئی گوپاپنتھی قوانین کو رد کردیا ہے ۔بھارت کے مسلمانوں کو تو اس معاملے میں سب سے آگے ہونا چاہیے ‘کیونکہ ان کے پاس بھارتی روایات اور تبدیلی کی انمول سوغات ہے ‘جو کسی بھی دیگر مسلم ملک کے پاس نہیںہے ۔ 
تامل ناڈو :سزاخوب لیکن بہت کم 
تامل ناڈو میں چنائو کے دوران ایک تاریخی واقعہ ہواجس کی طرف ہمارے تماشا چینلوں اور اخباروں نے بہت کم دھیان دیا واقعہ یہ تھا کہ دو ودھان سبھا حلقوں کے چناوٗملتوی ہو گئے ۔ ایسے ملتوی تو کئی بار ہوئے ہیں لیکن تامل ناڈو میں ملتوی ہونا غیر معمولی تھا ۔ایسے پہلے کبھی نہیں ہو ا۔یہ چنائو رد ہوئے پیسہ بانٹنے کے سبب !ووٹروں کو نوٹ دو اور ان سے ووٹ لو ۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ کون سی بڑی بات ہے ؟یہ تو ہر انتخابات میں ہوتا ہے اور چناوی علاقے میں ہوتا ہے ۔پیسہ‘شراب ‘کپڑے ‘گہنے اور کیا کیا چیزیں نہیں بانٹی جاتی ہیں ۔لیکن اب تک جو بھی چنائوملتوی ہوئے ہیں ‘وہ پولنگ بوتھ پر قبضے ‘امیدواروں کے قتل‘تشدد‘ووٹنگ میں دھاندلی وغیرہ کے سبب ہوئے ہیں لیکن الیکشن کمیشن نے پہلی مرتبہ یہ ہمت والا قدم اٹھایا ہے ۔چناوی بدعنوانی کو روکنے والا یہ سب سے ضروری قدم ہے ۔الیکشن کمیشن نے پہلے 16 مئی کا چنائو23 کو کیا اور پھر اسے 21 مئی کو ملتوی کر کے 13 جون کو کرنا پڑا۔اراواکریچی اور تنزائورودھان سبھا علاقوں کے چنائو ملتوی پر گورنر کے روزیاہ نے اعتراض کیا ۔ انہوں نے کہا کہ ان دونوں علاقوں کے دو ایم ایل ایز راجیہ سبھا کے چنائو میں ووٹ نہیں کر سکیںگے ۔الیکشن کمیشن نے اس اعتراض کو مسترد کردیا ۔ بالکل ٹھیک کیا ۔
ان دونوں علاقوں میں نہ صرف امیدوار وں کے گھروں سے نقد کروڑوں روپیہ پکڑے گئے بلکہ شراب کی سینکڑوں بوتلیں ‘ چاندی کے سکے اور ووٹروں کو رشوت میں بانٹی جانے والی کئی چیزیں بھی پکڑی گئیں ۔یہ تب پکڑی گئیں ‘جب پہلی بار چنائو رد ہو گئے تھے۔یعنی ان امیدواروں کو نہ تو کوئی شرم لحاظ تھی اور نہ ہی قانون کا ڈر !ایک امیدوار کے مطابق ان چناوی علاقوں میں لگ بھگ سو کروڑ روپیہ پہلے ہی بانٹ دیے گئے تھے ۔ایسے میں کمیشن کو اتنا حق ہونا چاہیے کہ ان رشوت بانٹنے والے امیدواروں کو زندگی بھر کے لیے چناؤ لڑنے سے محروم کر دے اور انہیں کم ازکم دس دس سال کی سزا دے ۔جو بھی پارٹی کارکن رشوت دیتے پکڑے جائیں ‘انہیں بھی دو دو برس کی سزا ضرور دی جائے ۔رشوت لینے والے ووٹروں کے خلاف بھی کچھ نہ کچھ قانونی کارروائی ضروری ہے ۔
ہماری جمہوریت کی جڑیں کھوکھلی کرنے کا کام یہ چناوی بدعنوانی ہی کرتا ہے ۔یہیں سے سارے بدعنوانوں کی شروعات ہوتی ہے ۔اربوں روپیہ کا کالادھن یہیں سب سے زیادہ کام آتا ہے ۔لیڈروں کو جو دھنا سیٹھ چنائوں میں پیسہ دیتے ہیں ‘وہ ان سے سود سمیت وصولتے ہیں ۔لیڈروں کی دیکھا دیکھی میںافسر بھی ہاتھ صاف کرتے ہیں ۔ساری انتظامیہ میں پھیل پھیل کے یہ مرض کینسر بن جاتا ہے ۔الیکشن کمیشن نے جو اس کی سزا دی ہے ‘وہ قابل تعریف ہے لیکن وہ بہت کم ہے ۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں