نریندر مودی نے وزیراعظم بننے کے دو برس بعد اس ہفتے ایسا کام کیا ہے ‘جو کسی اچھے وزیراعظم کو ہرماہ کرنا چاہیے اور ہر ماہ نہ کر سکے تو کم ازکم تین ماہ میں ایک بار تو ضرور کرنا چاہیے ۔کون سا کام ہے ‘یہ ؟یہ کام عوام سے سیدھے مخاطب ہونے کا ۔عام میٹنگ یا جلسوں کے ذریعے بھی وزیراعظم لوگوں سے مخاطب ہوتے ہی رہتے ہیں اور مودی تو سب سے زیادہ ہوتے ہیں لیکن وہ یک طرفہ بحث ہوتی ہے لیکن وہ جب صحافیوں سے سے بات کرتے ہیں تو سیدھی عوام سے ہی دوطرفہ بحث ہوتی ہے ۔صحافی اکثر و ہی سوال لیڈروں سے پوچھتے ہیں ‘جو عوام پوچھنا چاہتا ہے ۔
مودی نے کوئی پریس کانفرنس نہیں کی ۔وہ بعض دفع خطرناک ثابت ہو جاتی ہے ‘جیسے کہ راجیو گاندھی کے زمانے میں ہو گئی تھی ۔ آپ کچھ صحافیوں کو پہلے سے ہی پٹی ضرور پڑھا سکتے ہیں لیکن پوری برادری کا کوئی بھروسہ نہیں ۔پتا نہیں ‘کون کب کون ساپٹاخہ پھوڑ دے !ایسی پریس کانفرنسیں کرنے کے لیے پہلے وزرائے اعظم میں خوداعتمادی ہونی چاہیے ۔ہم توقع کرتے ہیں اگلے سال بھر میں مودی اتنی ہمت ضرور جٹا لیں گے کہ وہ کھلی پریس کانفرنس کر سکیں ۔ اس بار انہوں نے جس چینل کو انٹرویو دیا ‘وہ انگریزی کا چینل ہے لیکن اس کے اینکر نے ہندی میں سوال پوچھے اور وزیراعظم نے ہندی میں ہی جواب دیے ۔اس اینکر نے جتنے ادب اور حد میں رہ کر سوال پوچھے وہ حیرت انگیز تھا اور اس سے بھی زیادہ خوشی کی بات یہ تھی کہ مودی کے جوابات میں بہت آسانی سے عوام دکھائی پڑتا تھا ۔ دوسرے الفاظ میں یہ انٹرویو ٹھیک رہا ہوگا لیکن کچھ نہ ہونے سے تو انٹرویو ٹھیک ہونا ہی اچھا ہے ۔
اب اس انٹر ویو پر آجائیں۔جہاں تک اس پورے انٹرویو کا سوال ہے ‘کل ملا کر اس سے مودی کی شان خوبصورت ہو کر ہی ابھرتی ہے ۔مودی کے جوابات نے ان کی اس شہرت کو دھونے کی کوشش کی ہے کہ وہ احسان فراموش سیاستدان ہے ۔انہوں نے باربار اپنے اختیارات کی بجائے فرض کی بات کہی ۔انہوں نے عہدہ وزیراعظم کو عہدہ نہیں خدمت گزار کا ذکر کیا ۔انہوں نے اپنی طاقت نہیں ‘ذمہ داری پر زور دیا ۔انہوں نے کہا غرور توڑتا ہے اور ذمہ داری جوڑتی ہے ۔انہیں30 برس بعد پہلی بار واضح اکثریت ملی ہے ‘اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اپوزیشن کا مذاق اڑائیں وہ سبھی پارٹیوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں ۔انہوں نے ایک اور کرشماتی بات کہہ ڈالی کہ میں صرف چنائو کے دوران ہی اپوزیشن پر حملہ یاتنقید کرتا ہوں ۔
ورنہ میری تقاریر میں ہمیشہ کام کی باتیں ہوتی ہیں ۔کاش !مودی نے جو کچھ کہا ہے ‘ان کا برتائو بھی ویسا ہی رہے ۔اگر وہ اپوزیشن کو گلے لگانے کو تیار ہوں تو کوئی سبب نہیں ہے کہ مون سون سیشن میںضروری قانون پاس نہ ہو۔اچھا ہوا کہ اینکر نے اٹ پٹے سوال نہیں پوچھے ‘جیسے کہ پریس کانفرنس میں پوچھے جاتے ہیں۔ اسکا فائدہ یہ ہوگا کہ وزیراعظم کو اب اپنے جوابات کوعمل میں لاکر دکھانا ہوگا ۔اس انٹرویومیں دیگر کئی مدعوں پر سوال جواب ہوئے ۔سب سے پہلے خارجہ پالیسی پر بات ہوئی ۔جتنے سطحی سوال تھے ‘اتنے ہی سطحی جواب تھے ۔چاہے پاکستان ہو ‘چین ہو ‘ امریکہ ہو‘ایران ہو ‘این ایس جی ہو ‘کسی بھی مدعہ پر کوئی گہرا سوال نہیں پوچھا گیا ۔وزیر اعظم چاہتے تو اینکر کی لاعلمی کو نظرانداز کرتے اور اپنے کروڑوں ناظرین کو سمجھاتے کہ بیرونی ممالک میں کی گئی ان کی دوڑ دھوپ کا ٹھوس فائدہ بھارت کو کیا ہوا ؟انہوں نے یہ تو ٹھیک کہا کہ اب دنیا وہ نہیں رہی ‘لیکن وہ یہ نہیں بتا سکے کہ موجودہ عالمی سیاست میں بھارت کا ہدف کیا ہے اور مقام کیا ہے ؟ وہ یہ ضرور کہتے رہے کہ پاکستان اور چین سے مذاکرات جاری رہیں گے ۔نہ انہوں نے دیگر ہمسایوں کے بارے میں کچھ کہا اور نہ عظیم طاقتوں کے بارے میں ۔پاک اور چین کے ساتھ گفتگو میں کوئی حد رہے گی یا نہیں ‘اس سوال کا جواب وہ ٹال گئے ۔
ملک کی اکانومی سدھارنے کے بارے میں انہوں نے اپنی سرکار کی کوششوں کا بیورا دیا ۔کسانوں کو دی جارہی سہولیات کا بھی ذکر کیا ۔جن دھن جیسی کئی تجاویز کا حوالہ دیا ۔اس سے دل پر اچھا اثر پڑا‘لیکن روزگار کیوں نہیں بڑھا ‘مہنگائی کیوں نہیں کم ہوئی‘عام آدمی راحت کیوں نہیں محسوس کر رہا ہے ۔ان سوالوں کے مطمئن کردہ جواب وزیراعظم نہیں دے سکے ۔اینکر کی ہمت نہیں ہوئی کہ وہ یہ پوچھے کہ بدعنوانی میں ذرا بھی کمی کیوں نہیں آئی ؟یہ تو ٹھیک ہے کہ دوبرس میں لیڈروں کے پیسہ کھانے کا کوئی معاملہ سامنے نہیں آیا ‘لیکن عام آدمی آج بھی سرکاری دفتروں میں رشوت کے بنا ایک قدم بھی آگے کیوں نہیں بڑھا پاتا ؟
وزیراعظم نے کہا کہ اب ہم نے 24گھنٹے اور ساتوں دن دکانیں کھولنے کی سہولیات فراہم کی ہیں ۔اس سے روزگار اور تجارت دونوں بڑھیں گے ۔وزیراعظم نے کالے دھن کے بارے میں کھلا چیلنج دیا ہے ۔30 ستمبر تک کی چھوٹ ہے ۔اسکے بعد کسی کو بھی بخشا نہیں جائے گا۔ایسی شیر بھبھکیاں کئی سرکاریں دے چکی ہیں۔ لیڈر بھول جاتے ہیں لیکن کالے دھن کے سب سے بڑے ذریعے ‘نگہبان اور صارف وہی ہیں۔ انتخابات میں خرچ ہونے والے اربوں روپیہ کیا ہوتے ہیں ؟وہ بنا کمایا ہوا‘رشوت کا دھن یعنی پکا کالادھن ہوتا ہے ۔اپنے خون پسینے کی کمائی صرف اسی لیے کالی کہلاتی ہے کہ اس پر ٹیکس نہیں دیا گیا ہے۔ لوگ خوشی خوشی ٹیکس دیں گے ‘اگر انہیں بھروسہ ہوگا کہ ان کے پیسہ کو نوکرشاہوں اور لیڈروں کی عیاشی میں برباد نہیں کیا جائے گا ۔
کتنا عجیب ہے کہ 125 کروڑ لوگوں کے ملک میں صرف سواکروڑ لوگ ٹیکس دیتے ہیں ‘جبکہ دینا چاہیے کم ازکم پچیس سے تیس کروڑ لوگوں کو ۔ٹیکس کم کریں اور ٹیکس دینے والے بڑھائیں ۔500 اور 1000 کے نوٹ بند کریں ۔خود مودی حلف لیں کہ وہ کالے دھن کا استعمال نہیں کریں گے اور بھاجپا کو بھی نہیں کرنے دیں گے ۔ دیکھیں ‘کیسا کرشمہ ہوتا ہے ۔جب ملک میں کالادھن پیدا ہی نہیں ہوگا تو اسے باہر سے واپس لانے کی ضروت ہی کیوں پڑے گی ۔
وزیراعظم نے ریزرو بینک کے گورنر رگھو رام راجن اور بھاجپا لیڈروں کے غیر ضروری بیانوں کے بارے میں جو دوٹوک رائے دی ‘اسکی تعریف سبھی کریں گے ۔اگر وہ روٹین میں پریس کانفرنس کرتے رہیں تو بہت سی غلط فہمیاں دور ہوں گی اور ان کے بڑبولے ساتھیوں پر اپنے آپ لگام لگے گی ۔