گجرات میں نئے وزیر اعلیٰ آ گئے۔ وجے روپانی لائق اور محنتی ہیں‘ اس میں کسی کو بھی شک نہیں۔ وہ آنندی بین کے وزیر بھی تھے اور صوبہ کے پارٹی صدر بھی۔ وہ لمبے وقت سے سنگھ سوئم سیوک اور سٹوڈنٹ یونین کے متحرک کارکن ہیں۔ وہ شاید آنندی بین سے کہیں زیادہ کامیاب وزیر اعلیٰ ثابت ہوں لیکن روپانی کو جس طریقے سے لایا گیا ہے اس پر غور کرنا ضروری ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بھاجپا کا کانگریس کے نقش قدم پر چلنے کا عمل زوروں پر ہے۔ جمہوریت پر لیڈریت بھاری پڑ رہی ہے۔
آنندی بین کو ہٹانے کی بات جب سے چلی‘ یہ طے ہو گیا تھا کہ نتن پٹیل کو وزیر اعلیٰ بنایا جائے گا۔ جونہی آنندی بین 75 برس کو پہنچیں اور اپنے عہدے کو چھوڑنے کا اعلان کیا‘ نتن پٹیل حقیقی وزیر اعلیٰ کے طور پر کام بھی کرنے لگے تھے۔ وہ گزشتہ کئی برسوں سے بھاجپا سرکار میں وزیر بھی تھے۔ جب نئے وزیر اعلیٰ کو چنا جانا تھا‘ پٹیل کے گھر اور احمد آباد میں مٹھائیاں بانٹی جا رہی تھی لیکن اچانک وجے روپانی کے نام کا اعلان ہو گیا۔ نتن پٹیل آتے آتے رہ گئے۔ آنندی بین رو پڑیں حالانکہ نتن کو نائب وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا۔ یہاں سوال یہ ہے کہ کیا بھاجپا میں بھی وزیر اعلیٰ کی تقرری کانگریس کی طرح ہونے لگی ہے یا نہیں؟ اگر روپانی کی جگہ پٹیل کو چنا جاتا تو کیا وہ بھی درست انتخاب ہوتا؟ پٹیل کا نام بھی اوپر سے تھوپا جاتا۔ روپانی چونکہ امیت شاہ کے خاص دوست ہیں‘ اس لئے مودی اور امیت نے ان کے نام پر ایم ایل ایز لیڈر کا ٹھپا لگوا دیا۔ ایم ایل ایز کو بھی ربڑ سٹیمپ بننا پڑا۔ اس کی اپنی کوئی قیمت نہیں
رہی۔ یہ ہماری جمہوریت کو اسی طرح اندر سے اندر کھوکھلا کرتی رہی ہے۔ اسی لیے کانگریس صرف نام کی پارٹی رہ گئی ہے۔وہ پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی بن گئی ہے۔ بھاجپا بھی ''میں اور بھائی‘‘ پارٹی بنتی جا رہی ہے۔ گجرات کی بھاجپا میں اب گٹ بازی تیز ہو جائے گی اور پٹیلوں کی بغاوت بھی زور پکڑے گی۔ بھاجپا اس کا مقابلہ کیسے کرے گی‘ یہ چیلنج ہے۔ بھاجپا کی ''بھائی بھائی لیڈرشپ‘‘ ابھی 'ماں بیٹا لیڈرشپ‘ کی طرح تجربہ کار اور مضبوط نہیں ہے۔ اس کے روشن مستقبل کی دعا ہے۔
غیر واضح بیان
محافظ گایوں کے بارے میں مودی نے اپنی خاموشی توڑی ہے۔ کچھ مدعوں پر انہوں نے من موہن کھال اوڑھ رکھی تھی‘ اسے ٹائون ہال میں اتار دیا‘ لیکن اس میں سے جو سجن باہر نکلے‘ وہ تو کوئی اور ہی ہیں۔ انہیں نریندر مودی کون مان لے گا؟ مودی کو دوٹوک رائے ظاہر کرنے کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے‘ لیکن ٹائون ہال میں انہوں نے ادھوری چالاکی دکھا دی۔ اصلی مدعہ کو وہ گول کر گئے۔ میرے خیال میں اصلی مدعہ‘ گائے کی حفاظت کا! گائے کی حفاظت کے بہانے انسانی ذات کی قربانی کا تھا۔ اس مدعہ کو لے کر گجرات کے دلت اور اتر پردیش کے مسلمان بھڑکے ہوئے ہیں۔ ملک کے دو بڑے ووٹ بینکوں میں سیندھ لگ گئی ہے۔ کیا مودی کے بیان سے کچھ مرہم لگا ہے؟ مودی نے وہ موقع کھو دیا جو کسی بھی وزیر اعظم کو پورے ملک کا وزیر اعظم بناتا ہے نہ کہ صرف ان تیس فیصد ووٹر لوگوں کا‘ 2014ء میں جن کی لہر میں بہہ کر مودی کنارے آ لگے تھے۔ جب بدنامی کا سانپ پھنکار رہا تھا‘ تو مودی نے ڈنڈا نہیں چلایا۔ کیفیت من موہن والی اپنا لی۔ اب سانپ کے نکل جانے کے بعد انہیں ڈنڈے کے یاد آئی‘ لیکن اسے چلانے کی بجائے وہ روئی کے گولے چھوڑ رہے ہیں۔ ایک گولا انہوں نے یہ چھوڑا کہ نگہبان گائے کے نام
پر 80 فیصد لوگ اپنی تجارت چلا رہے ہیں۔ ان پر انہیں غصہ ہے لیکن سچائی یہ ہے کہ سرکار تو باقی 20 فیصد لوگوں کی کارستانیوں کے سبب بدنام ہو رہی ہے۔ وہ تجارت کر رہے ہیں یا نہیں‘ وہ سرکار چلا رہے ہیں‘ پارلیمنٹ چلا رہے ہیں‘ بھاجپا چلا رہے ہیں۔ مودی سے پورا ملک ان کے بارے میں سننا چاہتا تھا لیکن مودی نے ٹھیک ہی کہا کہ ہر بات پر مودی کیوں بولیں؟ اگر بولیں تو 24 گھنٹے بس وہ بولتے ہی چلے جائیں۔ مودی نے یہ ٹھیک کہا کہ بھارت میں پلاسٹک کی تھیلیاں اور کچرا نگلنے سے گایوں کی اموات زیادہ ہو رہی ہیں۔ وہ یہ کہنا بھول گئے کہ جنہیں ہم ہندو لوگ ماتا جی کہتے ہیں‘ وہ کوڑے دانوں اور سڑکوں پر پڑی گندگی میں منہ مارتی رہتی ہیں۔ ہم کیسے محافظ ہیں گائے کے؟ ہمیں شرم ہی نہیں آتی؟ نریندر بھائی کو چاہیے کہ وہ امیت بھائی سے پوچھیں کہ اس بھائی پارٹی کو‘ تیرہ کروڑ وطن پرستوں کو ہی گائے کی خدمت میں لگا دیں تو دیکھیں بھارت کی گایوں کو سچ مچ میںگائے ماتا کا درجہ کیسے نہیں ملتا ہے؟
ہیگ کی عدالت کا فیصلہ
ہیگ کی عدالت نے جنوبی چین کے سمندر کے معاملے میں چین کا مطالبہ مسترد کر دیا ہے۔ اس کا فیصلہ یہ ہے کہ چھ ملکوں کو چھونے والے اس سمندر پر اکیلے چین کا حق نہیں ہو سکتا۔ چین کے موقف کے خلاف فلپائن نے للکار دی تھی۔ فلپائن کے سکاربرو جزیرہ پر چین نے قبضہ کر لیا تھا اور اس سمندر میں پھیلے ہوئے کئی چٹانی علاقوں پر اپنے ہوائی اڈے بنا لیے تھے۔ سمندر کے کنارے واقع دیگر ممالک ویتنام‘ ملائیشیا‘ برونائی اور تائیوان کے ساتھ بھی چین کی جھڑپیں ہونے لگی تھیں۔ 1980ء میں ویتنام کے 60 ملاحوں کو مار دیا گیا تھا۔ ویتنام کے ساتھ مل کر بھارت بھی اس سمندر میں سے تیل نکالنے پر کافی پیسہ لگا رہا ہے۔ بھارت کے چار سمندری جہاز اس سمندر کی سیر بھی کر آئے ہیں۔
چین کے خلاف بین الاقوامی عدالت میں جو مقدمہ چلایا گیا‘ اس میں پانچ ممالک کے ججوں نے مشترکہ طور پر چین کے دعووں کو غلط قرار دیا ہے۔ ان سبھی ججوں کا ماننا ہے کہ چین ایسے کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکا‘ جن سے یہ ثابت ہو کہ اس سمندر میں چین کا 200 کلومیٹر کا اقتصادی علاقہ بنتا ہے۔ اس سمندر کے 85 فیصد حصے پر چین کے حق کی بات کو ججوں نے رد کر دیا۔ ججوں نے یہ بھی کہا کہ اس سمندر میں جو قدرتی معدنیات ہیں‘ اس پر سبھی اس سمندر سے لگنے والے ممالک کا حق ہے۔
چین نے اس فیصلے کو رد کر دیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ یک طرفہ ہے اور امریکہ کے اشارے پر کیا گیا ہے‘ فلپائن تو محض بہانہ ہے۔ اس سمندر پر قبضہ تو دراصل امریکہ کرنا چاہتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اس فیصلے کے خلاف جانے پر چین کو سزا نہیں دی جا سکتی لیکن اس سے چین کی ساکھ متاثر ہو گی۔ اسے مغرور ملک تصور کیا جائے گا۔ اسی طرح کا فیصلہ جب بنگلہ دیش کی حمایت میں اور بھارت کے خلاف آیا تو بھارت نے اسے مان لیا تھا‘ لیکن چین من مانی کرتا ہے۔ جو چین این ایس جی کے معاملے میں بھارت کو ہدایات دے رہا تھا‘ کیا اسے اس کا جواب نہیں مل گیا۔ اب ممکن ہے اس سمندرکے ذریعے ہونے والے پانچ ٹریلین ڈالر کی بین الاقوامی تجارت میں بھی چین مداخلت کرنے لگے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ چین اور فلپائن دونوں دھینگا مشتی نہیں کر رہے ہیں۔ وہ دونوں بات چیت کے ذریعے سارے معاملے کو حل کرنے کا اعلان کر رہے ہیں۔