پاکستان کے صوبہ بلوچستان کی دارالحکومت کوئٹہ میں 8 اگست کو ہوئی دہشت گردی نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ دہشت گردی کی وارداتیں تو پاکستان میں آئے روز ہوتی رہتی ہیں‘ لیکن کوئٹہ میں جو ہوا‘ وہ ہمارے اس پڑوسی ملک کے لیے فکرکی بات ہے۔ کوئٹہ کے اس ہسپتال میں پہنچنے والے لگ بھگ 200 وکیلوں پر خود کش حملہ کیا گیا۔ اب تک 75 لوگ جاں بحق ہوئے اور قریب قریب 100 زخمی ہیں۔ مرنے والے لوگ وہ ہیں‘ جو اپنی وکیل یونین کے سربراہ بلال انور کاسی کے جنازے میں شامل ہونے وہاں گئے تھے۔
بلال انور کاسی کو صبح صبح دو بندوق برداروں نے گولی مار کر قتل کر دیا تھا۔ ہسپتال سے ان کا جنازہ روانہ ہونا تھا‘ لیکن اس سے پہلے ہی وہاں جمع ہونے والے وکیلوں پر خود کش حملہ کر دیا گیا۔ پاکستان کے اتنے اہمیت والے لوگوں کا ایک ساتھ قتل پہلی بار ہوا ہے۔ اس حملے کی ذمہ داری خراسانی گروپ اور تحریک طالبان نے قبول کی ہے۔ ان دہشت گرد جماعتوں کا کہنا ہے کہ پاکستان کے وکیلوں کو سبق سکھانا ضروری ہے‘ کیونکہ وہ جمہوریت اور انسانی حقوق کی رٹ لگاتے رکھتے ہیں۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ نواب ثنااللہ نے اس حملے کے لیے بھارت کی ایجنسی 'را‘ کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
وزیر اعلیٰ کو میں کیا کہوں؟ ان کی عقل پر مجھے رحم آتا ہے۔ بلوچستان میں پہلے سے تحریک چل رہی ہے۔ اور اب یہ انتہا پسند وہاں اتنے خونخوار ہو گئے ہیں کہ انہوں نے جنازے میں شامل لوگوں پر حملہ کر دیا۔ ایسے تو کوئی دشمن ملک بھی نہیں کرتا۔ یہ واقعہ پاکستان کے اتحاد کے لیے بہت بڑا خطرہ بن سکتا ہے‘ ورنہ وزیر اعظم نواز شریف اور چیف آف آرمی جنرل راحیل شریف کوئٹہ ایک ساتھ کیوں پہنچتے؟ پشاور کے آرمی پبلک سکول میں بچوں کے قتل نے فوج کو 2014ء مجبور کیا تھا کہ وہ دہشت گردوں کا صفایا کرنے کے لیے پہلے سے جاری آپریشن میں تیزی لائے۔ اب یہ واقعہ حکومت پاکستان کو ان دہشتگردوںکا مکمل خاتمہ کرنے کے لیے پابند کرے تو پاکستان کے ساتھ ساتھ بھارت اور افغانستان کو بھی کافی راحت مل سکتی ہے۔ یہ بالکل صحیح موقع ہے‘ جبکہ ان تینوں ملکوں کو مل کر سبھی دہشت گردوں کے خلاف ایک متحد مورچہ کھڑا کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ جنوبی ایشیا کے بلوچوں‘ سندھیوں‘ پٹھانوں‘ کشمیریوں‘ تبتیوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بارے میں بھی سوچا جانا چاہیے۔
کشمیر پر ادھوری بات
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے پہلے دلتوں کے بارے جرات مندانہ بیان دیا اور اب کشمیر کے بارے میں! کشمیر کے بارے میں انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کو وہی آزادی ہے‘ جو باقی بھارتیوں کو ہے۔ کشمیر کے بچوں کے ہاتھ میں پتھر نہیں‘ لیپ ٹاپ ہونے چاہئیں۔ دونوں باتیں بہت عمدہ لیکن دونوں ادھوری ہیں۔ پہلے آزادی کی بات ہونی چاہیے۔ میں سدا لکھتا رہا ہوں اور ٹی وی چینلوں پر کہتا بھی رہا ہوں کہ میں کشمیر کی آزادی کا مکمل حمایتی ہوں‘ لیکن علیحدہ ہونے کا بالکل نہیں۔ کشمیر کو بھارت سے الگ کرنے کا مطلب ہے‘ اس کو دس بیگھے کی کھیتی بنا دینا۔ اگر گیلانی جیسے رہنما ابھی کشمیر کو بھارت کا غلام کہتے ہیں تو میں ان سے عرض کروں گا کہ کشمیر اگر بھارت سے الگ ہو گیا تو
وہ کئی طاقتوں کا غلام بن جائے گا۔ بڑے ملک تو بڑے ملک‘ چھوٹے ملک بھی اس پر آنکھیں جمائے رکھیں گے۔ کشمیر چاروں طرف زمین سے گھرا ہوا ہے‘ یعنی اس کی کوئی سرحد سمندر کے ساتھ نہیں لگتی۔ اس حوالے سے راستے کے لیے وہ دوسروں کا محتاج رہے گا۔ اس کے پاس تجارت و صنعت نہیں ہے۔ بے روزگاری بے انتہا ہے۔ دوسرے بہت سے مسائل بھی ہیں‘ جن میں کشمیری لوگ گھرے ہوئے ہیں۔ اس خوبصورت علاقے کے معصوم لوگوں کی حالت منڈی میں کھڑے مال کی طرح ہو جائے گی۔ بین الاقوامی جنگل کے خونخوار پنچھی اسے نوچ کھائیں گے۔ یہی حال 'پاکستانی کشمیر‘ یعنی آزاد کشمیر کے الگ ہونے پر ہو گا۔ ضروری یہ ہے کہ دونوں کشمیر ایک ہوں۔ یہ دونوں پاکستان اور بھارت کے بیچ کھائی بننے کی بجائے پل بنیں۔ ای ٹی وی کو دیے گئے ایک خاص انٹرویو میں تین چار دن پہلے میں نے کہا تھا کہ پورے کشمیر کو ہی نہیں‘ میں ایک ایک کشمیری کو اسی طرح سے آزاد دیکھنا چاہتا ہوں‘ جیسے کہ میں خود دلی میں ہوں اور میاں محمد نواز شریف لاہور میں ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ نریندر
مودی نے آسان طریقے سے میری بات کو دہرایا‘ لیکن زیادہ اچھا ہوتا کہ وہ میری بات کو پوری طرح سمجھتے اور اسے کھل کر کہتے۔ کہتے ہی نہیں‘ کچھ ٹھوس کرتے بھی۔
اب پتھر اور لیپ ٹاپ کی بات کر لیتے ہیں۔ نریندر مودی نے کہا ہے کہ کچھ کشمیری لیڈروں نے نوجوانوں کے ہاتھ میں پتھر پکڑا دیے ہیں۔ انہوں نے بالکل غلط کہا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مودی کو کشمیر کے اصلی حالات کا پتا ہی نہیں ہے۔ اس وقت کشمیر کے نوجوانوں کو بھڑکانے کے لیے پاکستان یا حریت لیڈروں کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ خود بھڑکے ہوئے ہیں۔ سرکار کے پاس ایسے لوگ ہی نہیں ہیں‘ جو اُن باغی بچوں سے بات کر سکیں جس کے ہاتھ میں پتھر ہے۔ وہ پتھر چلائے گا اور جس کے ہاتھ میں بندوق ہے وہ بندوق چلائے گا۔ پتھر اور بندوق سے اس مسئلے کا کوئی حل نہیں نکلنے والا ہے۔ اگر آپ کشمیری نوجوانوں کے ہاتھوں میں پتھر نہیں‘ لیپ ٹاپ‘ کتاب اور کرکٹ کا بلا دیکھنا چاہتے ہیں تو پہلے انہیں یہ محسوس کرائیں کہ وہ آپ کے بچے ہیں۔ وہ اس وقت غصے کی حالت میں ہیں‘ لیکن ان کو رام کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اگر ہمارے درجنوں بچے مارے جائیں اور اندھے ہو جائیں تو کیا ہم 32 دن تک چپ بیٹھے رہ سکتے ہیں؟ نریندر مودی اور ان کی کابینہ کو اس بارے میں بھی سوچنا چاہیے۔