پاکستان کے خلاف مبینہ سرجیکل سٹرائیک ہوئے لگ بھگ پندرہ دن ہو چکے ہیں لیکن دہشت گردی کی کارروائیاں رکنے کا نام نہیں لے رہیں۔ پمپور کے ایک ادارے میں دہشت گردوں اور جوانوں کے بیچ مڈبھیڑ کئی روز جاری رہی۔ اس سے پہلے دہشت گردوں نے تھانے میں گھس کر پولیس والوں سے بندوقیں چھین لی تھیں‘ اور اس کے پہلے کپواڑہ ‘بارہ مولا اور پونچھ میں ہمارے فوجی خیموں پر حملے ہوئے تھے۔ مبینہ سرجیکل سٹرائیک کے باوجود ان حملوں کا کیا مطلب لیا جائے؟
اس کا ایک مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ اگر سرجیکل سٹرائیک کی گئی تو اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ کیا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایل او سی پر سرجیکل سٹرائیک جیسے کوئی چیز ہوئی ہی نہیں؟ اگر ہوتی تو کوئی نتیجہ ضرور نکلتا؟ لیکن صورتحال اس کے الٹ بھی ہو سکتی ہے یعنی سرجیکل سٹرائیک‘ جسے پاکستانی سرکار فرضی قرار دے رہی ہے‘ سے وہ اتنی زخمی ہے کہ اسے کوئی نہ کوئی حرکت کرنا پڑتی ہے۔ اس واقعہ کا ایک پہلو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کشمیری مزاحمت کار کسی نہ کسی طرح آگ کو سلگائے رکھنا چاہتے ہیں تاکہ یہ جھٹ پٹ واقعات دونوں ملکوں کے بیچ جنگ کی صورت نہ اختیار کر جائیں۔
جو بھی ہو‘جموں و کشمیر کی محبوبہ سرکار ان للکاروں کے سامنے کافی لاچار ثابت ہو رہی ہے۔ یہ مطمئن امر ہے کہ مرکزی سرکار صبر سے کام لے رہی ہے۔ پاکستان کے تیور بھی حملہ آور والے نہیں۔ اگر ان واقعات کو لے کر جنگ ہوئی تو وہ دونوں ملکوں کے لیے تباہ کن ثابت ہو گی‘ لیکن پاکستان کو یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ کشمیر میں ایسی کارروائیاں ہوتی رہیں تو مودی سرکار کی ویلیو پیندے میں بیٹھ جائے گی‘ اور اپنی ساکھ بچانے کے لیے مجبور ہو کر اسے سرجیکل سٹرائیک کرنا پڑ سکتی ہے‘ جو محدود نہیں رہے گی۔
ایک دلت کا افسوسناک قتل
کمایوں کے باگیشور میں ایک دلت کو چیر دینے والا واقعہ رونما ہوا۔ سوہن رام کو صرف اس لیے بے رحمی سے قتل کر دیا گیا کہ اس نے آٹے کی مشین پر آٹے کو چھو لیا‘ جہاں وہ اپنا آٹا لینے گیا تھا۔ ان دنوں جبکہ نوراتروں کے روزے چل رہے ہیں‘ ایک دلت نے آٹے کو ناپاک کر دیا۔ گائوں کے ایک استاد للت کرناٹک نے جب دلت سوہن رام کو اس گناہ کے لیے برا بھلا کہا تو اس نے اعتراض کیا۔ اس پر للت نے اپنے ہاتھ سے اوزار گھمایا اور للت کی گردن کاٹ ڈالی۔ دلت اسی وقت مر گیا۔ جب اس کے خاندان کے لوگ اس کی نعش کے پاس بیٹھ کر رو رہے تھے تو للت کے والد اور بھائی نے ان کو دھمکیاں بھی دیں۔
اب دلتوں نے ایک جٹ ہو کر مانگ کی ہے کہ قاتل للت کرناٹک کو اگر فوراً سزا نہیں دی گئی تو سارے ملک میں زبردست تحریک چلائی جائے گی۔ قاتل کو سزا دینے کے لیے تحریک چلانا پڑے‘ یہ تو بڑے ہی شرم کی بات ہے۔ اسے تو اپنے آپ ہی سخت سزا ملنی چاہیے اور فوراً ملنی چاہیے تاکہ ملک کے کروڑوں لوگوں کو صحیح سبق ملے۔ خوشی کی بات ہے کہ قاتل للت اور اس کے والد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ یہ واقعہ ہندو سماج میں پھیلے ہوئے کینسر کو اجاگر کرتا ہے۔ ایسے نوراتر کی عبادت کرنے کا مطلب کیا ہے‘ جو کسی انسان کا قتل کرنے کے لیے مجبور کر دے۔ قاتل للت نے جس بے رحمی سے سوہن رام کی گردن کاٹی اس سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟ کیا یہ نہیں کہ اونچی ذات والوں کے دماغ میں نسل در نسل فرق کا جو زہر انڈیلا جاتا ہے‘ یہ اسی کا نتیجہ ہے۔ ذات پات نے اس زہر کو آج تک زندہ رکھا ہوا ہے۔ یہ صرف قانون سے ختم نہیں ہوگا۔ ایسی خراب روایات کے خلاف جب تک ملک میں طاقتور تحریک نہیں چلے گی اور بیداری پیدا نہیں ہو گی تب تک اس طرح کے سخت سنگین جرائم ہوتے رہیں گے۔