"DVP" (space) message & send to 7575

بڑا سارک :کریلااور نیم چڑھا

اب جبکہ پاکستان سفارتی تعلقات کے طور پر چاروں طرف گھر گیا ہے ‘وہ بچ نکلنے کے لیے نئے راستے تلاش کر رہا ہے ۔پاکستان کے خاص سفیر کی طرح امریکہ گئے مشاہد حسین نے اب ایک نیا حربہ استعمال کیا ہے ۔انہوں نے نیویارک میں کہا ہے کہ موجودہ سارک کافی چھوٹا ہے اسے بڑا کیا جانا چاہیے ۔اس میں چین ایران اور وسطی ایشیا کے پانچوں جمہوری ممالک کو شامل کیا جانا چاہیے ۔اس کے پیچھے دو مقصد دکھائی پڑتے ہیں ۔ چین کا نام لے کر اب پاکستان برکس کی گوواکانفرنس کو ناکام کرناچاہتا ہے ۔اس میں چین کو پانی پر چڑھا دیا۔ اب چین کوشش کرے گا کہ برکس اجلاس میں دہشت گرد ی کو لے کر پاکستان کے خلاف کوئی بیان جاری نہ ہو ۔دوسرا مقصد یہ ہے کہ سارک کے آٹھ ملکوں میں چھ نئے مسلم ملک بھی شامل ہو جائیں ۔ابھی تین پہلے سے ہی ہیں ۔افغانستان ‘بنگلہ دیش اور مالدیپ ۔مشاہد سے کوئی پوچھے کہ ابھی تین مسلم سارک میں ہیں ‘انہوں نے پاکستان کی مذمت کی یا نہیں ؟جب انہوں نے ہی ساتھ نہیں دیا تو ماضی کے سوویت یونین سے کیوں امید لگائے بیٹھا ہے ؟ اس کے علاوہ ایران بھی پاکستان کا ہمیشہ ساتھ نہیں دیتا۔ایک بات اور ! مشاہد نے برما اور ماریشئس کا نام کیوں نہیں لیا ؟اس میں بھی تو ہمارے جنوب ایشیا کے لوگ رہتے ہیں ۔
جہاں تک چین کو ممبر بنانے کا سوال ہے ‘وہ جنوب ایشیا کا ملک کب سے بن گیا ؟جنوب ایشیائی ملکوں کے ساتھ چین کے تعلقات بہتر ہوں اس میں کوئی ہرج نہیں ہے ۔لیکن چین کو سارک کا ممبر بنا بھی دیا جائے تو چین کیا کر لے گا ؟ وہ اکیلا پڑ جائے گا ۔سارک میں سارے فیصلے سبھی کی رضامندی سے ہوتے ہیں نئے سارک یا بڑے سارک میں پندرہ ملکوں میں سے اگر تیرہ کی مخالفت ہوگی تو سارک ٹھپ ہوجائے گا ۔ سارک میں ایران ‘برما ‘ماریشئس ‘وسط ایشیائی جمہوری ممالک کو ضرور جڑنا چاہیے 'یہ میرا بنیادی خیال ہے‘ لیکن پاکستان ابھی آٹھ ممبر ملکوں کو ہی نہیں چلنے دے رہا ہے تو پندرہ بیس ممبر ملکوں کو وہ کیسے چلنے دے گا؟چین کو جوڑ لینے سے وہ کریلا اور نیم چڑھا ہو جائے گا ۔
بھارت کے لوگوں کی فراخ دلی
بھارت کے لوگوں کے بارے میں یہ مانا جاتا ہے کہ وہ بہت دقیانوس اور لاپروا ہیں ۔ لیکن بریلی کے اس واقعہ نے بھارت کے لوگوں کی دریا دلی اور جدید دور پر مہر لگا دی ہے ۔آپ نے چودہ برس کی اس لڑکی کے بارے میں کئی خبریں پڑھی ہوں گی ‘ جس کے پیٹ میں پچیس ہفتوں کا حمل تھا ۔اور ڈاکٹروں نے اس کا حمل ضائع نہیں کرنے دیا تھا ‘ کیونکہ بیس ہفتوں سے زیادہ کے حمل کو گرانا غیر قانونی ہوتا ہے۔ سارا معاملہ عدالت میں چلا گیا ۔ اس درمیان اس لڑکی نے ایک بچے کو جنم دے دیا ۔ بچہ ایمبولینس میں پیدا ہوا کیونکہ مقامی صحت مرکز کی نرس نے ڈلیوری اس لیے نہیں کروائی کہ وہ بچہ زیادتی سے پیدا ہوا ہے ۔ اس بچے کی چودہ برس کی والدہ اور اس کے والدین نے زیادتی سے پیدا ہوئے بچے کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے ۔ 
یہ خبر جوں ہی پھیلی ‘درجن بھر خاندانوں کی طرف سے یہ درخواست آئی کہ اس نونہال بچے کو وہ گو دلینے کے لیے تیار ہیں ۔ ظاہر ہے کہ وہ ہی لوگ تیار ہوئے جن کے یہاں کوئی بچہ ہوا ہی نہیں یا جو اپنے گھر میں ایک لڑکا چاہتے ہیں ۔ان خاندانوں کو گود لینے کے لیے کئی دیگر بچے مل سکتے ہیں لیکن اس بچے کے لیے ان کا آگے آنا غیر معمولی بات ہے ۔اس بچے کو گود لینے کے لیے کئی غریب اور امیر خاندان بھی تیار ہیں ۔کئی ہندو اور مسلم خاندان بھی تیار ہیں کتنی عجیب بات ہے یہ !
اب زیادتی کرنے والے کا والد کہتا ہے کہ اس زیادتی کرنے والے کو جیل ہونی چاہیے کیونکہ اس نے اس لڑکی سے شادی کا وعدہ کر کے جسمانی تعلق بنائے تھے ۔یہ عجیب سی بات ہے ۔شادی سے پہلے جسمانی تعلقات بنانے کے لیے رضامند ہونے اور پھر اسے زیادتی کہنے میں بہت فرق ہے ۔ رضامندی ہے تو زیادتی کیسی ؟یہ خاندان اب اس زیادتی کرنے والے لڑکے کی لڑکی سے شادی بھی نہیں کرنا چاہتا لیکن اس لڑکے کے والد کا کہنا ہے کہ اگر بچے کے ڈی این اے سے ثابت ہو جائے کہ وہ اس کے بیٹے کا ہی ہے تو اس لڑکی سے وہ اپنے لڑکے کی شادی کے لیے تیار ہو سکتے ہیں ۔یہ بھی ایک قسم کی فراخ دلی ہے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں