ڈونلڈٹرمپ کی جیت سے امید کی جاتی ہے کہ بھارت اور امریکہ ایک دوسرے کے جتنے نزدیک ہیں‘ اس سے زیادہ نزدیک آ جائیں گے۔ اس کے کئی اسباب ہیں۔ پہلا‘ ٹرمپ ایسے پہلے امریکی صدر ہوں گے جنہوں نے بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کا نام لے کر انہیں 'عظیم انسان‘ کہا۔ ہو سکتا ہے یہ جملہ انہوں نے بھارتی نژاد امریکی ووٹروں کو خوش کرنے کے لیے اچھالا ہو‘ لیکن یہ حقیقت میں دونوں لیڈروں کے بیچ اچھے تال میل کی امید بڑھاتا ہے۔ دوسرا‘ اس بار ریپبلکن پارٹی کے بھارتی نژاد امریکیوں نے کمال کر دیا۔ انہوں نے ٹرمپ کی حمایت میں ہندی نعرے اور پوسٹر لگائے۔ اب کی بار ٹرمپ کی سرکار! کیا ٹرمپ کو یہ پتا نہیں چلا ہو گا؟ ہزاروں بھارتیوں نے نیو جرسی میں بڑا جلسہ کرکے ٹرمپ کو جِتانے کی اپیل کی تھی۔ کوئی تعجب نہ ہو گا کہ نئی ٹرمپ سرکار میں کچھ لائق بھارتیوں کو طاقتور عہدے بھی ملیں۔ ٹرمپ کے بھارتی نژاد حمایتیوں کا تعاون انہیں بھارت کی جانب ضرور جھکائے گا۔ تیسرا‘ ٹرمپ نے دہشتگردوں کے خلاف جتنے زبردست بول بولے‘ آج تک کسی امریکی صدر نے نہیں بولے۔ اگر ٹرمپ اپنی بات پر ٹکے رہے تو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے دہشتگردوں کا مکمل خاتمہ کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑیں گے‘ چاہے وہ دہشتگرد شام میں ہوں‘ یورپ میں‘ یا دنیا کے کسی اور علاقے میں۔ وہ ایسے پہلے امریکی صدر ہوں گے‘ جو میرے اور تیرے دہشتگردوں میں فرق نہیں رکھیں گے۔ ان کی یہ پالیسی بھارت کے لیے بہت مفید ثابت ہو گی۔ وہ پاکستان کی فوج اور آئی ایس آئی کے کان ضرور مسلیں گے۔ چوتھا‘ بھارت کے اندر بھی کروڑوں لوگ ایسے ہیں‘ جو ٹرمپ کے عاشق ہیں‘ کیونکہ ٹرمپ دوٹوک بات کرنے والا آدمی ہے۔ اسی لیے ٹرمپ کی حمایت میں جنتر منتر پر مظاہرے بھی ہوئے ہیں۔ مودی کے مرید اپنے آپ ٹرمپ کے مرید بن جاتے ہیں۔ پانچواں‘ جہاں تک ٹرمپ
کے ذاتی کردار کا سوال ہے‘ تو اس سے بھارت کا کیا لینا دینا؟ پھر ہمیں یہ پتا ہونا چاہیے کہ ٹرمپ کے بارے میں جو کچھ امریکی خواتین نے کہا‘ درست ہونے پر بھی امریکی لوگوں کے لیے وہ عام سی بات ہے۔ امریکی ووٹروں پر بعض خواتین ان کی باتوں کا کوئی خاص اثر نظر نہیں آیا۔ چھٹا‘ ٹرمپ کی جیت بھارت کے لیے اس نظر سے بھی اچھی ہو سکتی ہے کہ روسی لیڈر ولادیمیر پیوٹن کے ساتھ اس کے جذباتی تعلقات کے بارے میں سبھی کو معلوم ہے۔ اگر روس کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بہتر ہوں گے‘ تو دنیا کے کئی علاقوں میں تنائو کم ہو گا۔ بھارت کے ساتھ روس کے تعلقات دوبارہ گہرے ہونے لگے ہیں۔ بھارت‘ روس اور امریکہ اگر مل کر کام کریں تو وہ چین پر روک لگا سکتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ صدر بننے سے پہلے یا بعد میں ٹرمپ اپنا پہلا بیرونی دورہ بھارت کا کریں!
دلی کا گیس چیمبر: کیسے بچیں؟
کسی زمانے میں تانا شاہ ہٹلر کے گیس چیمبر مشہور تھے۔ ایک میں ایک یہودی کو بٹھا دیا جاتا تھا اور منٹوں میں ان کا دم گھٹ جاتا تھا‘ لیکن جب کوئی پورا شہر ہی گیس چیمبر بن جائے تو حالات کیا ہو سکتے ہیں؟ دلی کی گزشتہ ہفتے کی تاریخ کبھی بھلائی نہیں جا سکے گی۔ اتنا دم گھونٹو دھواں میں نے دلی میں پچھلے پچاس برس میںکبھی نہیں دیکھا۔ اس گیس چیمبر میں پھنسا ہوا آدمی فوراً نہیں مرتا۔ وہ مرتا ضرور ہے لیکن رہ رہ کر! آہستہ آہستہ۔ اپنے مرنے کا اسے پتا ہی نہیں چلتا۔ اسے ہم مودی کجری وال گیس چیمبر نہیں کہہ سکتے‘ کیونکہ اسے ہٹلر کی طرح انہوں نے نہیں بنایا‘ اور ان کا اپنا دم بھی اسی چیمبر میں گھٹ رہا ہے‘ لیکن دلی اور وفاقی کی سرکاریں اتنے دن سوتی رہیں‘ یہ حیرانی کی بات ہے۔
فی الحال دلی سرکار نے کچھ ٹھوس اقدام کیے ہیں۔ ان کے نتائج جلد دکھائی دیں گے۔ ہوا چلنا بھی شروع ہو گئی ہے۔ آج دھوپ بھی ذرا تیز نکلی ہے۔ یہ سارے قدم جلد راحت پہنچائیں گے۔ لیکن یہ راحت بے حد خطرناک ثابت ہو سکتی ہے‘ کیونکہ جو دائمی زہر دلی والے ہر پل پیتے رہتے ہیں‘ اس پر پردہ پڑ جائے گا۔ سب سمجھیں گے‘ سب ٹھیک ٹھاک ہو گیا ہے‘ لیکن حقیقت میں ایسا ہو گا نہیں۔ دائمی راحت کے لیے کچھ مشورے میرے پاس بھی ہیں۔ جیسے‘ کاروں کو خاص سڑکوں پر تبھی چلنے دیا جائے‘ جبکہ ان میں کم از کم چار سواریاں ہوں۔ کم سواری والی کاروں پر ٹیکس لگایا جائے۔ اب سے پچاس سال پہلے میں نے اس اصول کو عملی طور پر نافذ ہوتے ہوئے امریکہ میں دیکھا تھا۔ اس کے نتیجے میں سڑکوں پر چار کے بجائے ایک کار چلے گی اور تقریباً تین چوتھائی آلودگی کم ہو گی۔ دوسرا‘ آلودگی والی کاروں پر سخت جرمانہ لگایا جائے۔ ڈیزل سے چلنے والی پرانی کاریں‘ بسیں‘ ٹرک وغیرہ بند کیے جائیں۔ سب گاڑیاں سی این جی پر چلیں۔ تیسرا‘ کھیتوں کے کچرے کی کھاد بنے۔ اس کا جلانا بند کیا جائے۔ چوتھا‘ پٹاخوں پر بھاری ٹیکس لگے۔ انہیں شہر یا گائوں میں طے شدہ مقامات پر چلانے کی اجازت ہو‘ گھروں اور محلوں میں نہیں۔ پانچواں‘ گھروں‘ دکانوں‘ دفتروں اور سڑکوں کے کنارے پیڑ لگائے جائیں۔ چھٹا‘ سڑکیں اور مکانات بناتے وقت دھول پر قابو کے لیے پردے لگائے جائیں۔ ساتواں‘ لوگوں سے درخواست ہے کہ وہ کاروں میں چلنے کو اپنی حیثیت کا پیمانہ نہ بنائیں۔ چھوٹی موٹی سڑکیں پیدل یا سائیکل سے بھی پار کی جا سکتی ہیں۔ یہ قدم دلی ہی نہیں ملک کے ہر بڑے شہر کے باشندے اٹھا سکتے ہیں۔
راہول جی بالکل ٹھیک کہتے ہیں!
کانگریس کی بیٹھک میں نائب صدر راہول گاندھی نے کہا ہے کہ یہ وقت جمہوریت کے لیے نہایت ہی اندھیرے کا دور ہے۔ یہ پڑھ اور سن کر لوگ ہنس رہے ہوں گے‘ لیکن میں کہتا ہوں کہ راہول جی سو فیصد صحیح ہیں۔ کیسے؟ دیکھیے‘ جو راہول گاندھی نے کہا ہے‘ وہی بات سیاست کی کتاب کا کوئی بھی علامہ کہے گا۔ کون سی جمہوریت سب سے صحت مند اور طاقتور مانی جاتی ہے؟ وہی‘ جس میں سرکار اور اس کے مخالفین‘ دونوں ہی مضبوط ہوں۔ اس میں شک نہیں کہ موجودہ سرکار بے حد مضبوط ہے۔ اسے نہ تو کوئی باہر سے ہلا سکتا ہے اور نہ ہی اندر سے۔ اندرا گاندھی کے بعد ایسی مضبوط سرکار بھارت میں پہلی بار آئی ہے۔ بھاجپا کی یہ سرکار نہرو سرکار سے بھی زیادہ مضبوط ہے۔ وزیر اعظم نہرو کی عوامی مقبولیت غیر معمولی تھی‘ لیکن ان کی سرکار اور پارٹی میں ان کے طاقتور مخالف بھی تھے۔ ان پر روک لگانے والے کئی لوگ تھے۔ شیام پرساد مکھرجی‘ ڈاکٹر امبیڈکر‘ منوہر لوہیا‘ جے پرکاش نارائن‘ مہاویر تیاگی اور پرشوتم داس ٹنڈن جیسے کئی قابل لوگ تھے‘ لیکن آج نریندر مودی کے سامنے کوئی چوں بھی نہیں کر سکتا۔ وہ لوگ بھی ڈرے ہوئے ہیں‘ جو مودی کے پیدا ہونے کے پہلے سے سنگھ اور پارٹی میں متحرک ہیں یعنی سرکار بے حد مضبوط ہے۔