ہماری سرکار کی کشتی نوٹ بندی کے بھنور میں پھنستی ہی چلی جا رہی ہے ۔ایسا لگ رہا ہے کہ آجکل اس کے پاس کوئی کام ہی نہیں ہے ‘ سِوااس کے کہ وہ نئے نوٹوں کے لیے روز مار کھاتی رہے ‘نئے اور پرانے نوٹوں کے ذخیروں کو پکڑتی رہے ‘بدعنوان بینکروں پر جانچ اور مقدمے چلائے ‘40 کروڑ بینک کھاتوں کی جانچ کروائے اور جن دھن کھاتے داروں کو نیا اصول سکھائے ۔اب جبکہ سارا کالادھن سفید ہو چکا ہے اور جتنی ٹیکس پہلے ملتی تھی ‘اس کے بھی کم ہونے کا اندیشہ ہو رہا ہے ‘ہماری سرکار اپنی آنکھیں رگڑ رہی ہے اور اپنے بال نوچ رہی ہے ۔اسے سمجھ نہیں پڑ رہا ہے کہ اب وہ کون سی بنڈی بدلے اور کون سا بنڈل مارے ؟ڈوبتی کشتی کو تنکے کا سہارا !اب وہ نقد بندی کے تنکے کو پکڑ کر لٹک رہی ہے ۔نوٹ بندی کا کوئی دوردورتک کوئی ذکر تک نہیں تھا ‘8 نومبر کو اس بڑے اعلان کے وقت!ہمارے وزیر پرچار کو کیا پتا تھا کہ نوٹ بندی اس بری طرح سے فیل ہو جائے گی ۔اب وہ کالادھن بھول گئے ۔کسی نے انہیں نقد بندی کی پڑیا پکڑ دی ۔اب وہ نقدی بندی کا چورن سب کو بانٹ رہے ہیں ۔یہ بدہضمی کا چورن وہ ان کو بھی کھلا رہے ہیں ‘جو بھوکے پیٹ سوتے ہیں ۔انہیں یہ پتا ہی نہیں کہ نہایت تعلیم یافتہ اور خوشحال ملکوں میں بھی نقد بندی نہیں ہے وہاں بھی نقدی کی تجارت خوب ہوتی ہے اور کیش لیس لین دین کے باوجود بھارت سے کئی گنا بدعنوانی وہاں موجود ہے ۔ذرا بتائیں کہ ابھی ویسٹ لینڈ ہیلی کاپٹروں میں 300 کروڑ کی رشوت یا بوفورس میں 62 کروڑ کی رشوت کیا نقد میں لی گئی تھی؟یہ نوٹ بندی اور نقد بندی ہمارے بینکوں اور شعبہ انکم ٹیکس کو بدعنوانی کے سب سے بڑے گڑھ بنا دے گی ۔پچیس کروڑ جن دھن کھاتہ دار یعنی ان کے سو کروڑ رشتے دار (ایک گھر میں چار ممبر)‘سبھی پر بدعنوان ہونے کی تہمت ہے یعنی بدعنوانی ہی قومی اخلاق بن گیا ہے ۔ کالے دھن اور بدعنوانی کا علاج نہ نوٹ بندی سے ہوگا ‘نہ نقد بندی سے ۔یہ دونوں داؤ الٹے پڑ گئے ہیں ۔نوٹ بندی نے کالا دھن بڑھا دیا ہے اور نقد بندی کے چلتے عام آدمی کی زندگی مفلوج ہو رہی ہے ۔آپ نے پہاڑ کھود ڈالا لیکن اس میں سے آپ چوہیا بھی نہیں نکال سکے ۔
راہول زلزلہ کیوں نہیں لار ہے ؟
کانگریس کے شہزادے راہول گاندھی آج کل غضب کی بمباری کر رہے ہیں ۔کبھی وہ کہتے ہیں کہ مجھے پارلیمنٹ میں بولنے دیں تو زلزلہ آجائے گا اور کبھی وہ کہتے ہیں کہ مجھے نریندر مودی کے ' ذاتی بدعنوانی‘کی 'ترتیب وار ‘جانکاری ہے ۔دِقت یہی ہے کہ انہیں پارلیمنٹ میں یہ بھانڈا پھوڑ نہیں کرنے دیا جا رہا ہے ۔یہاں اصلی سوال یہ ہے کہ وہ اپنے اس بم کو سدن میں ہی کیوں پھوڑنا چاہتے ہیں ؟سدن میں ہزار لپھڑے ہیں ۔وہ ایک پٹاخہ پھوڑیں گے تو جواب میں درجنوں پٹاخے ایک ساتھ پھوٹ پڑیں گے؟ان کے کان پھٹنے لگیں گے ۔وہ بوفورس سے لے کر اگسٹا ویسٹ لینڈ تک اتنی توپیں اور ہیلی کاپٹر ایک ساتھ اڑنے لگیں گے کہ ان کا بھاگنا بھی مشکل ہو جائے گا پھر بھی وہ سدن میں بولنا چاہیں تو انہیں کون روک سکتا ہے ؟وہ نوٹ بندی یا ناکہ بندی یا نس بندی کو بھول جائیں ۔ اب وہ مودی بندی شروع کریں ۔شروع کر کے دیکھیں ۔لیکن ایسا کرنے کا دم خم اس میں نہیں ہے ۔
اگر نوٹ بندی کے اس موسم میں مودی کا تنبو اکھاڑ سکیں تو ان کے سارے مسخرے پن کو ملک بھول جائے گا اور لیڈر بننا شروع کر دیں گے لیکن مشکل یہ ہے کہ وہ جس 'جانکاری‘پر اچھل رہے ہیں ‘ وہ پرانی کڑھی کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔کئی صحافیوں کے ذریعے کھولے گئے 'راز‘کو راہول دوبارہ پھینٹنے کا دم بھر رہے ہیں ۔گجرات کے وزیراعلیٰ کے طور پر مودی ذریعے سہار ا اور برلا گروپ سے کروڑوں روپیہ کی رشوت لینے کی جانکاری راہول جی پیش کریں گے۔شعبہ انکم ٹیکس ذریعے ضبط کی گئی ڈائریوں میں کئی وزرائے اعلیٰ کے نام ‘انہیں دی گئی رشوت اور دینے والوں کے نام بھی لکھے پائے گئے ہیں ۔اس کے پہلے کہ راہول جی مودی کا غبارہ پنکچر کریں ‘سپریم کورٹ نے راہول کو پنکچر کر دیا ہے ۔عدالت نے اسی معاملے کے درخواست گزاروں کو دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ وہ کسی کی ڈائری میں کچھ بھی لکھے کو ثبوت کیسے مان سکتے ہیں ؟اس طرح کے سخت الزام ایسے لوگوں پر لگانا ‘ جو بڑے آئینی عہدوں پر بیٹھے ہیں ‘ اپنے آپ میں غلط ہے۔
عدالت کے اس رویہ کا اندازہ راہول کو ہے ۔راہول کو ان کے صلاحکاروں نے آگاہ کر دیا ہوگا کہ یہ الزام اگر آپ نے پارلیمنٹ کے باہر مودی پر لگا دیا تو آپ پھنس جائیں گے ۔ آپ پرہتک عزت کا مقدمہ درج ہو جائے گا۔آپ یہی الزام پارلیمنٹ میں لگا دیں گے تو آپ کا کچھ بھی نہیں بگڑے گا ،راہول اسی لیے دُم دبائے ہوئے ہیں۔ورنہ اپنی وہ پریس کانفرنس میں وہ زلزلہ لا سکتے تھے ۔دیگر پارٹیوں کے لیڈر بھی راہول کے دبوپن پر ہنستے رہے۔اس میں شک نہیں کہ کوئی بھی لیڈر دودھ کو دھلا نہیں ہو سکتا لیکن جو لیڈر خود بدعنوانی کے پہاڑ پر بیٹھا ہو ‘کیا اس میں اتنی جرأت ہو سکتی ہے کہ وہ دوسروں پر پتھر اچھالے ؟
راہول اور مودی ایک ہی کشتی میں
آج کل نریندر مودی اور راہول گاندھی کے بیچ ریس لگی ہوئی ہے وہ دونوں ایک سے بڑھ کر ایک بیان دے رہے ہیں ۔لگتا ہے ‘اقتداری اور اپوزیشن کے لیڈروں میں کوئی خاص فرق نہیں رہ گیا ہے ۔دونوں ایک ہی سطح پر پہنچ گئے ہیں ۔دونوں کی شکایتیں ایک جیسی ہو گئی ہے ۔آئینے میں دونوں چہرے ایک جیسے دکھائی دے رہے ہیں ۔راہول کہتے ہیں کہ مجھے ایوان میں بولنے کا موقع ہی نہیں دیا جاتا اور اگر دیا جائے تو زلزلہ آجائے گا ۔ واہ ‘واہ ‘کیا بات ہے!گزشتہ دس بارہ دن میں کیا انہیں ایک بار بھی موقع نہیں ملا ؟نہیں ‘نہیں ‘موقع تو کئی مرتبہ ملا لیکن زلزلہ لانا تو دور ‘وہ کانگریس کے منہ پر بیٹھی مکھیاں بھی نہیں اڑا سکے ۔پھر بھی یہ ممکن ہے کہ نوٹ بندی پر وہ شاید زبردست تقریر کر ڈالیں !دے ڈالیں مطلب ‘پڑھ ڈالیں ۔لیکن کس کا لکھا ‘وہ پڑھیں گے ‘ یہ پتا نہیں اور جو لکھا ہوا انہیں دیا جائے گا ‘ اسے وہ ٹھیک سے پڑھ پائیں گے یا نہیں ؟پڑھنے کے پہلے وہ اسے سمجھ بھی پائیں گے یا نہیں ؟نوٹ بندی پر بولتے بولتے وہ کہیں ناکہ بندی پر نہ بولنے لگ جائیں ۔ان کی تقریر سے زلزلہ ضرور ہو جائے گا ‘لیکن وہ ہوگا قہقہوں کا زلزلہ ۔
راہول کو پارلیمنٹ میں بولنے سے کس نے روکا ہے ؟اگر من موہن سنگھ بول سکتے ہیں تو راہول کو کون روک سکتا ہے ؟راہول تو ان کے لیڈر ہیں ۔راہول نے تو ایک بار چوڑے میں ان کو بھی ڈانٹ دیا تھا ۔ اپوزیشن لیڈر کو عام عوام کے دکھ درد کی چبھن ہوتو وہ پارلیمنٹ میں دہاڑ بھی سکتا ہے لیکن اسے تو ہاتھی کی ٹانگ کھینچنی ہے اور اس میں چیونٹی کی ٹانگ کھینچنے کا بھی دم نہیں ہے ۔
ادھر ہمارے نریندر مودی نے راہول کو مات کردیا ہے ۔وہ وزیراعظم ہیں اور لوک سبھا میں واضح اکثریت کے لیڈر ہیں ۔بی جے پی کے سربراہ ہیں ۔لوک سبھا کی سپیکر انہیں کی پارٹی میں رہی ہیں ۔وہ عادتاً بہت نرم اور بااخلاق ہیں ۔کیا وہ مودی کو بولنے سے منع کریں گی ؟قطعی نہیں ۔لیکن مودی خود بولنے سے کنارہ کر رہے ہیں ۔گھبرا رہے ہیں ۔ڈر رہے ہیں ۔انہیں ڈرہے کہ زلزلہ آجائے گا ۔شاید اسی زلزلے کی بات راہول نے کہی ہو۔راہول کے بولنے پر کوئی چڑیا اڑے بھی یا نہ اڑے لیکن مودی کے بولنے پر لوک سبھا تو ہل ہی جائے گی ‘کیونکہ مودی نے منہ کھولا نہیں کہ ان کے کانوں میں مخالفین تیزاب انڈیلنے کی کوشش کریں گے ۔ سارا سدن اکھاڑے میں بدل جائے گا ۔عام جلسوں میں ابھی تو ایسی نوبت شروع نہیں ہوئی ہے ۔ٹرکوں اور بسوں میں بھر کر لائے گئے لوگ چپ چاپ مودی جی کے ڈائیلاگ سنتے رہتے ہیں ۔تالیاں بھی بجا دیتے ہیں ۔لیکن 30 دسمبر کے بعد کیا ہوگا؟کیا مودی جی ڈجیٹل ہو جائیں گے ؟وہ سکائپ اور یو ٹیوب پر اپنے جلسے نمٹا دیں گے ؟لیکن افسوس کہ ایک سوپچیس کروڑ لوگوں کے لیڈر کی بات دس سے پندرہ کروڑ لوگوں تک ہی پہنچ پائے گی ۔خوشی کی بات یہ ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں بولتے تو مشکل سے پانچ سو لوگ ہی ان کو سنتے ‘ڈیجیٹل میں کچھ ایک کروڑ تو انہیں سنیں گے ہی!