ملک کی پانچ اسمبلیوں کے لیے انتخابات کا اعلان ہو چکا ہے۔ یہ پانچ صوبے ہیں۔ اتر پردیش ‘پنجاب ‘اتراکھنڈ ‘منی پور اور گووا!اکیلے اتر پردیش کی ٹوٹل نشستیں (403 )کے مقابلے باقی چارصوبوں کی ٹوٹل نشستیں (287)بھی کم ہیں۔اس نظر سے اتر پردیش کے چنائو کے نتیجے سب سے زیادہ اہمیت والے ہوں گے ۔اتر پردیش میں بی جے پی کی سرکار نہیں ہے لیکن وہاں بھاجپا کی سرکار 2017 ء میں نہیں بنی تو مان لیجئے کہ اس شکست کی ذمہ داری مودی کی سر پھوٹے گی۔ایک تو اس لیے کہ خود مودی نے کہا ہے کہ صوبوں کے چنائو یہ بتائیں گے کہ نوٹ بندی صحیح تھی یا نہیں ۔اور دوسرا‘اس لیے کہ اتر پردیش میں بھی بہار کی طرح مودی ہی مودی ہے ۔مودی کے علاوہ کوئی نہیں ہے ۔وزیراعظم بھی مودی اور وزیراعلیٰ بھی مودی !بھاجپا کے پاس وزیراعلیٰ کے لائق اتر پردیش میں کوئی چہراہی نہیں ہے ۔لکھنؤ میں ہواجلسہ مودی کی زندگی کا سب سے بڑا جلسہ تھا۔نئے نئے سفید کیے گئے کالے دھن کا اس سے اچھا کیا ستعمال ہو سکتا تھا ؟اگر یادو کنبہ اپنی روایات کے مطابق آپس میں لڑ مرا تو اترپردیش میں بی جے پی کامیاب ہو ہی جائے گی !ایسے میں سارا کریڈٹ یادووں کو ملے گا ‘ڈگمگاتے مودی کو جمانے کا !
ان پانچوںصوبوں میں بی جے پی کی سرکار نہ بھی بن پائے لیکن اگر کل ملاکر زیادہ تر نشستیں انہیں مل گئیں تو اس کا فائدہ اسے راجے سبھا اور صدارتی انتخاب میں ضرور ملے گا۔اگر اسیمبلی میں نشستیں کم ہو گئیں تو مودی اپنے 'من کی بات‘صدر کے انتخاب میں چلا پائیں گے اور نہ ہی جی ایس ٹی وغیرہ معاملات میں کوئی خاص پیش رفت ہوگی ۔دوسرے الفاظ میں یہ چنائو یاتو تھکے ہوئے مودی کے پائوں میں جان ڈال دیں گے یا پھر اس سرکار کے گھٹنے توڑ کے رکھ دیں گے ۔ڈھائی برس بنڈیاں بدل بدل کر بنڈل مارنے میں گزار دیے اور اب باقی ڈھائی برس اگر آرام سے کاٹنے ہیں تو بھاجپا کو کسی بھی طرح اتر پردیش اور ایک دو صوبہ جیتنے ہوں گے ۔سبھی طریقے اپنانے ہوں گے ۔اُتر پردیش اور بنگال میں تو کارروائی شروع بھی ہو گئی ہے اور 31 جنوری کو آنے والے بجٹ میں باقی کسر بھی پوری ہو جائے گی ۔الیکشن کمیشن نے کئی سخت
اصول بھی اس بار عائد کرنے کا اعلان بھی کیا ہے ۔اپوزیشن پارٹیوں کو نوٹ بندی بھی زنجیروں کی طرح لگ رہی ہے ۔اس بار کہ یہ صوبائی انتخابات ہیں لیکن ان کا اثر قومی اسمبلی جیسا ہی ہو نے ولا ہے ۔یہ چنائو ہی طے کریں گے کہ 2019ء میں بھاجپا مرکز میں لوٹے گی یا نہیں ؟
مودی کو صدر کی وارننگ
مجھے خوشی ہے کہ نوٹ بندی کے بارے میں جو رائے میری ہے ‘وہی اب صدر پرنب مکھرجی کی بھی ہو گئی ہے ۔انہوں نے گورنر س کو خطاب کرتے وقت کہا ہے کہ نوٹ بندی سے اکانومی میں جو مندی آئے گی ‘اس سے غریبوں کی زندگی پریشانی میں آجائے گی ۔انہیں 'ابھی اور یہیں ‘یعنی فوراًراحت پہنچانے میں سرکار کو مستعدی دکھانی ہوگی ۔نوٹ بندی کا فائدہ جب ملے گا ‘تب ملے گا۔لیکن غریب لوگ تب تک انتظار نہیں کر پائیں گے ۔یعنی ان کا صبر ٹوٹ سکتا ہے ۔صدر نے مودی سرکار کو یہ کھلی وارننگ دے دی ہے ۔پرنب دا نے صدر ہونے کا فرض ٹھیک سے نبھایا ہے ‘اس کے لیے میں ان کو دلی مبارک باد دیتا ہوں ۔کوئی صدر اس سے زیادہ کیا بول سکتا ہے ؟اگر عہدہ صدر پر کوئی بی جے پی کا آدمی بیٹھا ہوتا یا وزیراعظم کوئی کانگریسی ہوتا تو صدر شاید اتنا بھی نہیں بول پاتے ۔بینکوں میں قطاریں لگانے اور اور قطاروں میں لگے ہوئے دم توڑنے کے حادثے اب آہستہ آہستہ کم ہو رہے ہیں لیکن اب بیکاری اور بے روزگاری کا دور شروع ہواہے‘اصلی ٹینشن اسی کی ہے۔ کوئی تعجب نہیںکہ یہ تشدد کی شکل اختیار کر لے ۔اس کے علاوہ کالادھن اور بدعنوانی کم ہونے کی بجائے بڑھ گئی ہے ۔رزرو بینک کو کپکپی چھوٹ رہی ہے ۔وہ یہی نہیں بتا پا رہی ہے کہ پچاس دن میں کتنے پرانے نوٹ بینکوںمیں جمع ہو گئے ہیں ؟
چودھ لاکھ کروڑیا پندرہ لاکھ کروڑ؟لوگوں نے ایک اچھے مقصد میں سرکار کی مدد کرنے کی بجائے اسے چاروں خانے چت کردیا ۔نوٹ بندی کو سو فیصد ناکام کردیا۔سارا کالادھن سفید کرلیا اب نئے نقلی نوٹ بھی دھڑلے سے بن رہے ہیں ۔اس کے علاوہ بینکوں کے لاکھوں بابو ‘کروڑوں بے نامی کھاتے والے اور انکم ٹیکس کے افسر بھی نوٹ بندی کے سبب بدعنوان بن گئے ہیں ۔ڈجیٹل لین دین سے بڑی بڑی کمپنیوں کو کمیشن ایجنٹ سے 'کمیشن بادشاہ‘بنا دے گا ۔جنہیں نقد رشوتیں لینی اور دینی ہیں ۔‘وہ پہلے کی طرح دن دناتے رہیں گے ۔ہماری سیاسی پارٹیاں اور لیڈر حضرات بدعنوانی کے بنیادی ذرائع ہیں ۔ان پر کوئی لگام نہیں ہے ۔اب اس سرکار کا زیادہ وقت نوٹ بندی کے گھوڑے کی لید کو سمیٹنے میں خرچ ہورہا ہے ۔اگر صدر صاحب شروع میں ہی وزیراعظم کو وارننگ دیتے تو مودی اتنی ہمت شاید جٹا لیتے وہ پانچ سات دن میں ہی اس فیصلے کو واپس لے لیتے ۔ظاہر ہے کہ بھاجپا کی بیٹھک میں کسی کی ہمت نہیں کہ وہ مودی کو کھری کھری سنا سکے یا بتا سکے ۔شاید صدر کی وارننگ ہی کچھ کام کرے ۔