امریکی صدر کے بارے میں دواڑھائی برس پہلے میرا جو خیال تھا اب وہ درست ثابت ہو رہا ہے ۔صدر بنتے ہی ڈونلڈٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ صرف '' گریٹ امریکہ‘‘ کا خیال رکھیں گے ۔انہوں نے سابق صدور کی طرح ساری دنیا کو سدھارنے کا ٹھیکہ نہیں لے رکھا ۔انہوں نے امریکہ کے سب سے زیادہ پسندیدہ نیٹو اتحاد سے بھی نکل جانے کی دھمکی دی تھی لیکن ہمیں تب ہی لگ رہا تھا کہ ڈونلڈٹرمپ نو سیکھئے ہیں۔ان کے دل میں جو بھی آتا ہے ،اگل دیتے ہیں یا پھر ان کے آس پاس چاپلوس ان کے کان میں جوبھی پھونک مار دیتے ہیں ‘اسے وہ اپنے بیان کی شکل دے دیتے ہیں ۔انہوں نے سیریا میں جو میزائیل فائر کیے ہیں وہ ان کی اسی حماقت کا ثبوت ہے ۔ا س میںشک نہیں کہ شام کے شیخو نام کی جگہ پر زہریلی گیس چھوڑ کر بشار الاسد کی فوج نے نہایت ہی سنگین جرم کیا ۔اس بہیمیت کی جو تصاویرچھپی ہیں ‘انہیں دیکھ کر پتھر دل آدمی کا کلیجہ بھی دہل جاتا ہے ۔ ٹرمپ جو 2013 ء میں ایسے کسی واقع پر اوباما کو شام پر حملہ نہ کرنے کی صلاح دے رہے تھے ‘ان کا اچانک رخ بدل جانا کہاں تک ٹھیک ہے ؟یہ کورے جذبات نہیں تو کیا ہیں ؟کیا ٹرمپ سرکار نے اسد سرکار کو گرانے کا فیصلہ کر لیا ہے ؟اس کے کوئی اشارے نہیں ہیں ۔کیا امریکہ شام میں بھی وہی حالات پیدا کرے گا‘جو اس نے عراق اور لیبیا میں کیے تھے ؟کیا وہ اوباما کے آخری دنوںمیں روس کے ساتھ بنی متحدہ پالیسی کو ختم کر رہا ہے؟کیااب روس اور امریکہ آئی ایس ایس آئی کے دہشتگردوں کے ہاتھ مضبوط نہیں کریں گے؟شام کی خانہ جنگی میں پہلے ہی پانچ لاکھ لوگ مارے جا چکے ہیں اور تقریباً سواکروڑ لوگ اجڑ چکے ہیں۔ روس اور ایران نے ڈونلڈ ٹرمپ کے اس حملے کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی بتایا ہے اور اسد سے ہمدردی جتانے کا اعلان کیا ہے ۔ اگر ڈونلڈٹرمپ کی شام میں کی گئی یہ فوجی کارروائی اچانک آئی ایک چھینک کی طرح تھی تو ٹھیک ہے ۔وہ آئی اور گئی،لیکن اس نے اگر امریکی پالیسی کی شکل اختیار کر لی تو ٹرمپ کو لینے کے دینے پڑ جائیں گے ۔امریکی عوام کے پاس ٹرمپ کو چار برس تک جھیلتے رہنے کے علاوہ کیا متبادل ہے ؟
گوبر کے کرشماتی کمال
جبل پور تو میں آیا تھا ‘مہاویرکی ولادت کے سلسلے میں لیکن یہاں دو ضروری اہم کام بھی ہوگئے ۔ایک تو شنکراآچاریہ سوامی سوروپانند جی سے ملاقات اور دوسرا گایوں کے باڑے کا جائزہ۔سوروپانند جی نے کئی بار وعدہ لیا تھا کہ جبل پور کے پاس ایک جنگل میں جو انکی خانقاہ ہے ‘اسمیں مجھے لازمی آنا ہے لیکن وہ آج کل جبل پور سے 40 - 45 کلومیٹر دور سانکل گھاٹ نام کی جگہ ابھیہ بھارتی مہلا آشرم میں ٹھہرے ہوئے ہیں ‘کیونکہ پرسوں یہاں نرمدا ندی کے کنارے ایم پی کے وزیراعلیٰ شوراج سنگھ چوہان نے 'نمامی نرمدے ‘نام سے جشن رکھا ہوا تھا ۔ سوروپانند جی سے قریب قریب پچاس برس سے فیملی تعلقات چلے آرہے ہیں ۔ان سنیاسیوں کے ساتھ میں آریہ سماجی ہوتے ہوئے بھی گفتگو کالطف لیا کرتا تھا ۔میری زوجہ ڈاکٹر ویدوتی کوکرشن بودھ آشرم اور نرنجن دیوی پڑھایا کرتے تھے لیکن سوروپانندمیرے مدھیہ پردیش کے ہی تھے اور ان کے سیاسی رجحان بھی تھے ۔اس لیے ان سے قریبی تعلق زیادہ رہے ۔آج بھی قومی سیاست پر ان سے صلاح و مشورہ ہوا ۔وہ اب 90 برس سے بھی زیادہ کے ہوگئے ہیں ۔
دگمبر جین مہاتما آچاریہ ودیا ساگر جی کے عزم سے چل رہا ۔ گایوں کا باڑہ دیکھ کر میں تو دنگ رہ گیا ۔ایسے لگ بھگ سوباڑے ملک بھر میں کام کر رہے ہیں ۔کئی گائیں 40 - 45 لیٹر تک روزانہ دودھ دیتی ہیں ۔وہ تین سے چار سوکی روزانہ خوراک کھاتی ہیں لیکن ڈھائی سے تین ہزار روپیہ کا روز دودھ دیتی ہیں ۔زیادہ تر گائے ایسی ہیں ‘جو یاتو دودھ نہیں دیتیں یا بہت کم دیتی ہیں ۔ان کی پرورش بھی دودھ دینے والی گایوں جیسی ہوتی ہے ۔ان گایوں کا گوبر اور پیشاب کا یہاں میں نے کرشماتی استعما ل دیکھا ۔اس استعمال کے سبب یہ گائے بھی اکانومی کے حوالے سے فائدے مند بن گئی ہیں ۔ گورو جین اور ڈاکٹر سچن جین اس گوشالا (گایوں کی جگہ) کو تجربہ گاہ بنا دیا ہے ۔ڈاکٹر سچن اینیمل ڈاکٹر ہیں ۔انہوں نے گوبر سے کیا کیا نہیں بنایا ہے ۔گیس اور کھاد ‘اوپلے تو سبھی بناتے ہیں ‘انہوں نے گوبر سے لکڑی کے ایسے لٹھے بنائے ہیں، جن کو جلانے پر آکسیجن نکلتی ہے ۔دھواں اور نائٹروجن نہیں ۔یہ لٹھے نرم اور ہلکے ہوتے ہیں لیکن مضبوط بھی ہوتے ہیں ۔یہ آلودگی نہیں پھیلاتے ۔گائے کے پیشاب سے گونائل نام کا فنائل ‘ملہم ‘اگر بتی ‘بام ‘ہارپک جیسا مچھر بھگائو پائوڈر اورلوبان وغیرہ جیسی کئی چیزیں بھی بنا رہے ہیں ۔انہوں نے گوبر اور گائے کے پیشاب کے لیے ریسرچ کے لیے طرح طرح کے عطر بنائے ہیں ۔گایوں کی خوراک کے لیے نئی ٹیکنک سے روز ہرا چارہ بھی اگاتے ہیں ۔انہوں نے گوبر کے گملے اور کٹورے بھی بنائے ہیں ۔
چناوی میٹنگ میں تو اب سے ساٹھ برس میں نے رات رات بھر تقاریر کی ہیںلیکن مہاویر کی پیدائش کا یہ پروگرام آدھی رات میں ہوا۔نیا تجربہ!اس پروگرام کے سامعین کو میں نے مہاویر سوامی کی خدمات پر روشنی تو ڈالی لیکن میں نے ان سے درخواست کی کہ وہ کم ازکم چار تحریکیں چلائیں ۔گوشت خوری سے نجات ‘نشہ بندی ‘مادری زبان کا استعمال اور پڑوسی ملکوں سے بہتر تعلقات ۔ان چاروں باتوں سے مہاویر کی تعلیمات کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے۔ اس تحریک کو شروع کرنے کے لیے جین لوگ کم ازکم دس کروڑ روپے کا ایک ادارہ بنائیں اور اسے مہاتما ودیا ساگر جی کی ہدایات میں چلائیں ۔میں نے ہاتھ اٹھواکر لوگوں سے عہدلیا کہ وہ اپنے دستخط اب انگریزی میں نہیں ‘ہندی میں کریں گے ۔