مظفر نگراور سہارنپور میں پہلے ہندو مسلم فسادات اور اب راجپوت اور دلتوں کے بیچ فساد ہورہے ہیں ۔تین جوانوں کا قتل ہوگیا ہے اور کئی ابھی ہسپتالوں میں پڑے ہوئے ہیں ۔پہلے وزیراعلیٰ اکھلیش کو گنہگار سمجھا جا رہا تھا اور اب یوگی آدتیہ ناتھ کو ٹھہرایا جا رہا ہے ۔اپوزیشن کا فرض صرف یہی بن گیا ہے کہ اقتداریوں کی سدا ٹانگ ہی کھینچی جائے ۔ابھی بھی یوگی کے خلاف سبھی پارٹیاں ٹوٹ پڑی ہیں لیکن مسئلہ کی جڑ تک کوئی پہنچتا ہوا کیوں نہیں دکھائی دیتا ہے ؟اس میں شک نہیں کہ پہلے اکھلیش اور اب یوگی گائوں میں پولیس کا انتظام اور تگڑا کر سکتے تھے لیکن اس طرح کے دنگے توبناجواز اور اچانک بھڑک اٹھتے ہیں ۔کتنے دیہات میں ‘کتنے گھروں کے آگے کتنے پولیس والے بٹھائے جا سکتے ہیں ؟سرکار نے اس علاقے کی سبھی خاص افسروں کو معطل کر دیا ہے ‘وہاں پولیس کی گشت بڑھادی ہے اور زخمیوں کو کافی معاوضہ دینے کا اعلان بھی کر دیا ہے لیکن یہ سب اوپری علاج ہے ۔اس بیماری کی بنیادی جڑسیاستدانوں کے پاس نہیں ہے ۔اگر ہوتی تو مایاوتی اور یوگی کے وزرا میں تو تو میں میں کیوں ہوتی ؟کتنی افسوس ناک بات ہے کہ پرتھوی راج چوہان کاجنم دن منایا جائے اور ایسے وقت میں دلتوں کے نام پردو سوتے ہوئے کمہارنوجوانوں کو مار دیا جائے اور مایاوتی ان سے ہمدردی جتانے کو دوڑے اور ایک راجپوت نوجوان کو مار کر بدلا لیا جائے ۔بے گناہ لوگوں کا ایسا قتل کیا پرتھوی راج یا ڈاکٹر امبیڈکر کو جنت میں خوش کر سکتاہے ؟اب ایک نئی بھیم سینا بھی میدان میں آ گئی ہے ۔وہ سوناروں سے دو دوہاتھ تو کرنا ہی چاہتی ہے ‘وہ مایاوتی کے مایا جال کو بھی چیرنا چاہتی ہے ۔سیاست کے اس جال میں ہندو سماج چھن بھن ہورہا ہے۔قومی یکجہتی تو دور کی بات ہے ۔فرقہ واریت سے لڑنے کے پہلے سچے وطن پرستوں کو پہلے ذات پات کے تفرقہ سے لڑنا ہوگا ۔ہمارے لیڈر اس سے لڑنے کی بجائے اسے اپنا ووٹ بینک بنانا زیادہ ضروری سمجھتے ہیں ۔ آج ملک میں ذات پات اور فرقہ واریت کو قابو کرنے یا ختم کرنے والی کوئی تحریک نہیں ہے ‘کوئی لیڈر نہیں ہے ‘کوئی جماعت نہیں ۔ہمارے لیڈر تو بیچارے ووٹ اور نوٹ کی کٹھ پتلیاں ہیں ۔ان سے آپ کوئی توقع مت کیجئے آپ خود اٹھیے اور قوم پرستی کا بگل پھونک دیجئے ۔
مودی کو خطرہ نہیں
نریندر مودی سرکار ک کے تین برس پورے ہوئے !یعنی اس سرکار کا آج جنم دن ہے ۔کسی کے بھی جنم دن کے موقع پر اس کی کمیوں کو ظاہر کرنے کی بجائے اس کو مبارک باد دی جاتی ہیں۔ تو ہماری بھی مبارک!آپ نے تین برس کاٹ دیے اور ایک بھی غبن سامنے نہیں آیا ‘یہ سب سے بڑی کامیابی ہے ۔گزشتہ کانگریس کی سرکار تو گھوٹالوں کی سرکارہی تھی ۔خود وزیر اعظم بے داغ رہے ہوں لیکن ان کی ناک کے نیچے کون کون سے گھوٹالے نہیں ہوئے ؟انہیں گھوٹالوں کی مہربانی سے مودی وزیراعظم بن گئے ۔مودی نے گجرات میں کیا کیا ڈیویلپمنٹ کی اور کیا کیا کرشمے کیے اور ان کی وجہ سے ہی انہیں 2014 ء میں ووٹ ملے ‘اس کامستند بیورو ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے ۔اسی لیے چنائو کے دوران لگائی گپوں کی بنیاد پر مودی کے تین سالوں کو تولنا مناسب نہیں ہے ۔یوں کون سی پارٹی ہے ‘جو انتخابات کے دوران عوام کو سبز باغ نہیں دکھاتی ہے ؟یہ ٹھیک ہے کہ یہ سرکار ابھی ملک کی تعلیم‘ صحت اور روزگار کے ڈھانچے میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں کر پائی ہے لیکن عام عوام کو راحت دینے کے نظریہ سے اس نے کوئی مثالی کام کیے ہیں ؟جیسے لگ بھگ اٹھائیس کروڑ جن دھن کھاتے کھلوائے ‘سستے گیس کے سلنڈر مہیا کروائے ‘ادویات میں ہونے والی لوٹ پاٹ ختم کی ‘غریبوں کو پکے مکان بنانے کے تجویز بنائی ‘لال بتی کی اکڑ ہٹائی ‘دوگنی رفتار سے سڑکیں بن رہی ہیں ‘نوجوانوں کو تربیت اور کسانوں کو بھی طرح طرح کی سہولیات مہیا کی جا رہی ہیں ۔ڈجیٹل انڈیا ‘میک ان انڈیا اور صفائی جیسے کئی منصوبوں کا اعلان ہوا ہے ۔یہ سب کام وہی ہیں ‘جو گزشتہ سرکاریں کم وبیش کرتی رہی ہیں ۔راجیو گاندھی سے عوام کی دلچسپی دوبرس بعد ہی ختم ہو گئی تھی لیکن مودی ابھی امید کی کرن بنے ہوئے ہیں ۔حالانکہ جن دو کرشمائی کاموں کا کریڈٹ یہ سرکار لینا چاہتی ہے ‘نوٹ بندی اور سرجیکل سٹرائیک ‘ان دونوں کاموں میں یہ سرکار
بالکل پھسڈی ثابت ہو گئی ہے ۔دو ہزار کے نوٹوں نے کالے دھن کی راہ آسان کر دی ہے ۔اب کالا دھن دگنی رفتار سے بن رہا ہے ۔جہاں تک سرجیکل سٹرائیک کاسوال ہے‘اس کا بار بار نگاڑہ بجاکر ہماری بہادر فوج کی عزت کم کی جارہی ہے ۔حقیقی سرجیکل سٹرائیک ہو ہو تو دشمن کو ٹھکانے لگانے کے لیے وہ ایک ہی کافی ہے ۔اس طرح کی چھوٹی موٹی مٹھ بھڑیں تو برسوں برس چلتی آرہی ہیں ۔اس میں شک نہیں کہ ہماری سرکار پرچار کی علامہ ہے ۔ اس وقت اس کے پرچار کی آندھی میں سبھی اخبارات اور ٹی چینل بہے چلے جا رہے ہیں ۔مخالفین کے حوصلے پست ہیں ۔مودی کے پرچار نے ان کا آچار نکال دیا ہے ۔2019ء میں وہ مودی کے لیے مقابلہ نہیں کر سکتے ۔مودی کے دوبرس کوئی مصیبت کھڑی ہوگی تو ان اپوزیشن والوں کے باہر سے ہی کھڑی ہوگی ۔مودی کو بھاجپا اور سنگھ کے اپنے اندرونی 'دوستوں ‘سے بھی خبردار رہنا ہوگا ۔مودی کو 2019 ء تک کوئی خطرہ نہیں ہے ۔