وفاقی وزیر ماحولیات ڈاکٹر ہرش وردھن نے' یوم ماحولیات ‘پر یہ کہہ کر ملک کے گوشت خور طبقے کو بڑی راحت پہنچائی ہے کہ ان کی وزارت نرم رویہ اپنانے کو تیار ہے۔اس کا رویہ ضدی نہیں ۔اس وزارت نے گزشتہ ماہ ایک اطلاع کے ذریعے حکم جاری کردیا تھا کہ ملک کے مویشی بازاروں سے گائے اور بھینس کو ذبح کرنے کے لیے خریدنا غیر قانونی ہوگا ۔اس طرح کا حکم جاری کرنے کے پیچھے 1960 ء 'جانوروں پر رحم‘ قانون کی تھوڑی سختی سے عمل کروانے کی منشا ہی تھی لیکن اسے دلت اور مسلمانوں کے خلاف ایکشن بتا کر تگڑا سیاسی رنگ دے دیا گیا ۔ملک میں جگہ جگہ مظاہرے ہونے لگے ‘جلوس نکالے جانے لگے اور نوجوان کانگریس کے لڑکوں نے جنوبی بھارت میں گائے کے گوشت کے جشن بھی منائے ۔مدراس ہائی کورٹ نے اس حکم پر ایک ماہ کی روک لگادی ۔اس سرکاری قاعدے کو ان حادثوں سے بھی جوڑ کر دیکھاجانے لگا ‘جو کچھ بے وقوف 'نگہبان گائے ‘کی مہربانی سے کئی شہروں اور گائوں میں ہوگئے تھے۔اس میں شک نہیں ہے کہ اس نئے حکم کے سبب بھارت میں چل رہی دس کھرب روپیہ گوشت کی تجارت بھی متاثر ہونے لگی ۔ڈر کے مارے ذبح کیے جانے والے مویشیوں کے خریدوفروخت بھی کم ہوگئی۔اگر آپ جانوروں کو کھلے بازار سے نہیں خریدنے دیں گے تو وہ چوری چھپے خریدے جائیں گے ‘ بدعنوانی بڑھے گی ۔اس قانون کے پیچھے جو مقصد ہے وہ سمجھ میں آتا ہے لیکن خود قانون نہیں ‘مغربی بنگال اور کیرل کے علاوہ کچھ کچھ ان سرحدی صوبوں نے بھی مرکز کو آڑے ہاتھوں لیا ‘جہاں گائے کے گوشت پر پابندی نہیں ہے ۔حکم کسی بھی گوشت کھانے کے خلاف نہیں ہے لیکن اصلی مدعہ ہے جانوروں پر رحم۔ اس مدعے پر عمل کروانا صرف قانون کے ذریعے نہیں ہو سکتا ۔جو لوگ جانوروں کو نہیں ستاتے یا ان کا قتل نہیں کرتے یا جو گوشت نہیں کھاتے ‘کیا ایسا وہ کسی قانون کی وجہ سے کرتے ہیں ؟قانون سے بھی بڑی چیز ہے آدمی کی پرورش کے اصول اور روایات !کیا اس پر ہماری سرکاروں کا دھیان ہے ؟نہیں ‘یہ ان کے بس کی بات بھی نہیںہے۔لیڈروں کے بس کی بھی نہیں ۔ان کی گائے تو نوٹ ہے اور ان کی بھینس ان کے ووٹ ہیں ۔یہ کام سادھو‘ سنیاسیوں ‘ملا ‘مولانائوں ‘پادریوں اور سماجی خدمتگاروں کا ہے ‘نہیں تو کون کرے گا ‘اسے ؟
کس کام کی ہے یہ موت کی سزا
گروگرام کی ایک 19 برس کی لڑکی کے ساتھ 29 مئی کی رات جو زیادتی کاواقعہ ہوا ہے ‘وہ نربھیا کانڈ سے کم نہیں ہے۔ ایک آٹورکشا میں سوار دو نوجوانوں اور اس کے ڈرائیور نے اس لڑکی کے ساتھ نہ صرف زیادتی کی بلکہ اس کی آٹھ ماہ کی بچی کو بھی انہوں نے قتل کردیا ۔روتی ہوئی اس بچی کو زیادتی کے بعد ان وحشیوں نے ایک پتھر دے مارا ۔جب اس لڑکی اور اس کے رشتہ داروں نے گروگرام کے تھانہ میں رپورٹ لکھانے کی کوشش کی تو پولیس والوں نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ صرف اس بچی کے قتل کی رپورٹ لکھوائیں ‘زیادتی پر دھیان نہ دیں ۔انہیں تین جون کو صدر کے دورہ ِگروگرام کا انتظام کرنا ہے ۔اس حادثہ کو اب ایک ہفتہ ہو گیا ہے لیکن ابھی تک یہ درندے قاتل پکڑے نہیں گئے ہیں ۔
اگر انہیں پکڑبھی لیا گیا توکیا ہوگا؟پانچ چھ برس مقدمہ چلے گا۔دونوں طرف کے وکیل پیسے کھائیں گے ۔ہمارے جج صاحبان انگریزی قانون کی بال کی کھال اتارتے رہیں گے اور اگر جرم ثابت ہوگیا تو کسی پر کچھ جرمانہ ہوگا ‘کسی کو کچھ برس کی سزا ہوگی اور کوئی رہا کر دیا جائے گا ۔اگر کسی کو سزائے موت ملی بھی تو وہ بھی ناکارہ ہوگی ‘کیوں کہ مری ہوئی بچی کو زندہ نہیں ہونا ہے اور جس کی عصمت لٹ گئی ہے وہ کبھی نہیں اس واقعہ کو بھلا پائے گی ۔سزائے موت سے کسی کو کوئی سبق نہیںملنا ہے ۔کیوں کہ تب تک لوگ اس واقعہ کو ہی بھول جائیں گے ۔اور سزائے موت کسی جیل کی کوٹھری میں دے دی جائے گی ۔جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا ؟عصمت لوٹنے والے کی سزا اتنی سخت ہونی چاہیے کہ کسی کے دل میںاس برائی کا تصور تک نہ آئے۔ اور کیس ایک ماہ میں مکمل ہونا چاہیے اورسزائے موت بندکوٹھری میں نہیں ‘جیل کی چار دیواری میں نہیں ‘بلکہ کناٹ پیلیس اور چاندنی چوک جیسے کھلے مقامات پر ہونی چاہیے ۔ان کا لائیو ٹیلی کاسٹ ہونا چاہیے ۔دیکھیں پھر ملک میں زیادتی کرنے والے لوگوں کی تعداد ایک دم کم ہوتی ہے یا نہیں ۔
ایران کی پارلیمنٹ پر حملہ
ایرانی کی پارلیمنٹ ہو احملہ ‘بھارت کی پارلیمنٹ پر ہوئے حملہ کی یاد دلاتا ہے ۔دہشتگردوں نے موجودہ ایران کے سب سے بڑے لیڈرآیت اللہ خمینی کی مزار کو بھی نہیں چھوڑا۔بارہ لوگ مارے گئے اور درجنوں زخمی ہوگئے ۔اس دہشتگردانہ کاروائی کی ذمہ داری داعش نے لی ہے ۔یہ شیعہ ملک ایران پر سنی دہشتگردوں کا حملہ ہے ۔ ایران میں سنیوں پر وہاں کی سرکار اور عام عوام بھی کڑی نظررکھتے ہیں ۔خاص طور سے جب کہ وہ عرب ہوں ۔فارسی کے اٹ پٹے اچارن سے ہی وہ فوراًپہچان لئے جاتے ہیں ۔اس لیے وہاں دہشتگردی کے واقعات کم ہی ہوتے ہیںلیکن اس وقت عرب ممالک نے ایران کے خلاف مورچہ کھول رکھا ہے ۔ایران کے حمایتی ملک ‘قطر پر خاص عرب ملکوں نے ابھی ابھی طرح طرح کی پابندیاں لگائی ہیں ۔ امریکی صدر ٹرمپ بھی ایران کے خلاف ہیں ۔ایسے میں داعش کو یہ موقع مل گیا ہے کہ وہ ایران پر حملہ کرے۔یوں بھی ایران کی سرکار شام کے حکمران بشار الاسد کی حمایت کرتی ہے اور داعش کے لوگ اس کے خلاف جنگ چھیڑے ہوئے ہیں ۔قطر پر دہشتگردی کے الزام لگانے والے خود کئی مسلم ملک دہشتگردوں کی مدد کرتے ہیں ۔وہ ایران پر ہوئے حملے کی مذمت سچے دل سے نہیں کر رہے ہیں ۔جبکہ ایران کھل کر بول رہا ہے کہ یہ حملہ سعودی عرب نے کروایا ہے ۔ادھر جب ٹرمپ نے سعودی عرب میں سبھی مسلم ممالک کو خطاب کیا تھا تو اس میں ایران کو نہیں بلایا گیا تھا ۔
ادھر روس کے ساتھ بھی ایرا ن کے تعلقات کافی گہرے ہوتے جا رہے ہیں ۔اس نظریہ سے ایران کے خلاف دہشتگردوں کو اگر بڑے ملکوں کا آشیرواد مل رہا ہو تو کوئی تعجب نہیں ہے ۔ایران کے کچھ لیڈروں نے کہا ہے کہ ایران چپ نہیں بیٹھے گا ۔اس کا مطلب کیا ہوا؟اب ایران بھی دہشتگردی کا جواب دہشتگردی سے دے گا۔یہ مغربی ایشیا کے لیے بہت ہی نقصان دہ ہوگا ؟اس طرح کے واقعات سے اسلام کی شان کو بھی دھکا لگتا ہے ۔یہ کیسے اسلامی ملک ہیں کہ باہم میں ہی لڑتے رہتے ہیں ۔بھارت چاہے تو اس میں رول اداکرسکتا ہے ۔
مودی پر صحافیوں کا احسان !
این ڈی ٹی وی کے مالک کے گھر اور دفتر پر سی بی آئی نے چھاپے مارے ۔اس کے خلاف دلی کے بزرگ اور مشہور صحافیوں نے کل ایک دھاوا بولا ۔یہ سارے صحافی ریٹائرڈ ہیں ۔کوئی بھی رواںڈیوٹی اینکر یا ہندی اور انگریزی اخبار کا ایڈیٹر اس جلسے میں کیوں دکھائی نہیں دیا ؟کیونکہ سب ڈرے ہوئے ہیں ۔ان کے مالک سرکاری اشتہارات کے محتاج ہیں ۔صحافیوں کو یہ بھی ڈر ہے کہ انہوں نے ٹھاکر صاحب کو اچھی لگنے والی باتیں نہ کہیں تو کہیں ان کی ٹھکائی نہ ہو جائے ۔گئو رکشک جماعت کے لوگ کہیں ان کی بھی خدمت نہ کرنے لگیں ؟
ملک کے ان سینئر صحافیوں نے نریندر مودی پرغیر معمولی احسان کر
دیا ہے ۔انہوں نے سرکار کو نیند سے جگا دیا ہے ۔سی بی آئی یعنی کیا ؟ پنجرے کو طوطا !سرکار کے اشارے بنی سی بی آئی کی کیا حیثیت ہے کہ وہ ملک کے کسی چینل پر ہاتھ ڈال سکے ؟اس معاملے میں سرکارکی دخل اندازی کا شک اس لیے مضبوط ہوتا ہے کہ اس چینل کے اینکر گاہے گاہے سرکار کی کھاٹ کھڑی کرنے سے نہیں چوکتے ۔یہ بھی ٹھیک ہے کہ یہ چینل سابق وزیراعظم راجیو گاندھی کی ڈفلی بجانے کے لیے کھڑا کیا گیا تھا ۔اس کے لیے راجیو کے سب سے خاص افسر شری گوپی اروڑا دوبار میرے گھر بھی آئے تھے ۔میرے منع کرنے پر انہوں نے پھر دوسرا انتظام کیا لیکن یہاں بنیادی سوال یہ نہیں ہے کہ یہ چینل کس کی حمایت میں رہا ہے بلکہ یہ ہے کہ اگر یہ مودی کی مخالفت بھی کر رہا ہے اور غلط بیانی کر رہا ہے تو بھی اسے کرنے دینا چاہیے ‘کیونکہ لگ بھگ سبھی چینل اور اخبارتو 'پالتو طوطے‘ بنے ہوئے ہیں ۔پورے چینل اور اخبار مودی کی جے جے کار کر رہے ہیں ۔اور ایک توتی الگ راگ چھیڑ رہی ہے تو اس سے ڈرنا کیا ؟آپ ڈر رہے ہیں ‘اس کا مطلب کیا ہے ؟کیا یہ نہیں کہ آپ کے پائوں ڈگمگانے لگے ہیں ۔‘سانسیں اکھڑنے لگی ہیں اور 2019 ء کا بھوت ابھی سے آپ کی چھاتی پر سوار ہوگیا ہے ؟آپ کو اپنی بنڈل بازیوں کی اصلیت کا پتا چلنے لگا ہے ۔اگر ملک میں ایک مخالف چینل ہے تو اسے رہنے دیں ۔ یہ جمہوریت کا ثبوت ہے آپ اس پر سیدھا حملہ نہیں کر سکتے اور آپ اس کے اینکروں کوپٹا نہیں سکتے ۔تب مانا یہ جائے گا کہ اس کے مالک کے نجی لین دین کی جانچ اور اس پر چھاپہ مارنا تو ایک جھوٹا بہانہ ہے ۔کسی بینک سے لیے گئے قرض پر بیاج کم کروانے کے لیے اگر اس ٹی وی مالک نے کوئی ہیرا پھیری کی ہے تو بینک عدالت میں جائے ۔سرکار اپنے پالتو طوطوں کو اس پر کیوں دوڑائے ؟بینک تو چپ ہے اور پالتو طوطے بڑبڑا رہے ہیں !کیا اس سے سرکار کی عزت بڑھ رہی ہے ؟مودی سرکار کو اس بزرگ صحافی کا احسان مند ہونا چاہیے کہ اس نے جونہی اپنی قبر کھودنے کے لیے پہلا پھاوڑا چلایا توان صحافیوں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا ۔