رام رحیم کے ناموں کو داغدار کرنے والے گرو گرمیت سنگھ کو آخر کار بیس برس قید کی سزا ہو گئی ۔قانون جتنی سزا دے سکتا تھا ‘ اس نے دے دی لیکن اس طرح کے ڈھونگی بابا اپنے آپ کو قانون سے با لا تر سمجھتے ہیں۔ اس لیے اس کو وہ سزا ملنی چاہیے تھی ‘جو ‘اصول کے مطابق ہوتی اور مناسب قرار دی جا سکتی ۔
میں نے سجھایا تھا کہ گرو گرمیت سنگھ کو اپنے قتل کی سزا خود مانگنی چاہیے تھی ۔ لیکن وہ بزدل صرف بیس برس کی سزاپر ہی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ۔اسے دیکھ کر ان کروڑوں بے وقوف مریدوں کو اب بھی کوئی عقل نہیں آئی ؟اگر وہ گنہگار نہیں ہوتا اور سچا فقیر ہوتا تو کیا وہ جج کے سامنے رونے لگتا؟اس کے غصے کے آگے دھرتی لرز جاتی ۔عدالت کانپ جاتی جج اور وکیل بھاگ کھڑے ہوتے لیکن گرو گرمیت سنگھ بڑا بزدل نکلا ۔سزا کا اعلان سنتے ہی اس کے پائوں کانپنے لگے اور وہ کٹہرے میں ہی زمین پر بیٹھ گیا ۔ اگر اسے ذرا بھی شرم ہوتی تو وہ زمین میں گڑ جاتا۔ اس کو سزا سنانے والے جج جگدیپ سنگھ کو میں سلام پیش کرتا ہوں۔جیسا نام ویسی خاصیت ہے ۔وہ شیر ہیں اور دنیا کو جگ مگانے والے چراغ ہیں ۔وہ ان سب بزدل ،ڈرپوک اور لالچی وزراء ‘وزرائے اعلیٰ اور لیڈروں کے سامنے جگمگاتی مشعل ہیں ‘جو اس بدعنوان اور بد کردار بابا کے قدم چومتے رہے ۔
جج جگدیپ سنگھ کو اب پورا تحفظ دیا جانا چاہیے ۔ اس نامعلوم سادھوی کو بھی سارا ملک سلام کرتا ہے‘جس کی ہمت سے اس درندے گرو گرمیت سنگھ کا پول کھلا۔سرسا کے اس بہادر صحافی رام چندر چھتر پتی کو بھی میرا سلام ‘جسے اسے ڈھونگی کا پول کھولنے کی پاداش میں موت کا سامنا کرنا پڑا۔ شہید رام چندر کا بڑ اسٹیچو چنڈی گڑھ میں لگایا جانا چاہیے۔گرو گرمیت سنگھ کے اس'' ڈیرہ جھوٹ سودا‘‘ کے بھگت رنجیت سنگھ کے قتل کا بھی راز جلد ہی کھلے گا اور کوئی تعجب نہیں کہ گرو گرمیت سنگھ کو عمر قید کی سزا ہو جائے یا اسے پھانسی پہ چڑھا دیا جائے۔اس وحشی کو دی گئی یہ سزا پھر بھی بہت کم ہے۔ سرکار کو چاہیے کہ گرو گرمیت سنگھ کے سارے ڈھونگوں اور کالے کرتوتوں کا پردہ فاش کرے تاکہ ہندوستان کے طول و عرض میں دوبارہ آسارام ‘رام پال اور گرو گرمیت سنگھ جیسے لوگ پیدا ہی نہ ہوں ۔
دوکلام دونوں کی ناک بچی
دوکلام پر چھڑی بھارت چین بحث اب فی الحال ختم ہوگئی ہے ‘یہ دونوں ایشیائی ملکوں کی سفارتی جیت ہے ۔اس میں یہ سمجھنا کہ دونوں میں سے ایک ہارا اور ایک جیتا ‘غلط ہوگا ۔ یہ سوال بھی اب بے کار ہوگیا ہے کہ کس ملک نے اپنی فوج کو پیچھے ہٹایا ؟دونوں ہی ملکوں کے لیڈروں کی مجبوری ہے کہ وہ اپنے اپنے عوام کو یہ بتائیں کہ انہوں نے اپنی ناک نہیں کٹائی ۔چین کے لیے یہ زیادہ بڑی مجبوری ہے ‘ کیونکہ گزشتہ ڈھائی ماہ میں دوکلام کے معاملے پر چینی ترجمانوں ‘اخباروں اور تجزیہ نگاروں نے جتنی زبان چلائی ہے ‘ اس کے مقابلے بھارت کی جانب سے بہت صبر رکھا گیا ہے ۔ ہمارے وزیرِ پرچار نریندر مودی نے تو غضب کا صبر دکھایا ۔ایک لفظ تک نہیں بولا جبکہ احمدآباد میں مودی کے سنگ جھولا جھولنے والے چینی صدر نے گھما پھرا کر بھارت پر وار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ہماری وزیر خارجہ سشما سوراج نے ایوان میں اور اس کے باہر سارے معاملے کو بہت ہی اصولی طریقے سے پیش کیا ۔جیسا انہوں نے چاہا تھا کہ دونوں ملکوں کی فوجیں دوکلام سے ایک ساتھ پیچھے ہٹیں ،وہ پیچھے ہٹ گئیں ۔اب چین کہہ رہا ہے کہ بھارت کی فوج نے پہلے جگہ خالی کی تو اس نے بھی اپنی فوج اس مقام سے ہٹا لی۔دوکلام پر وہ اب بھی پہرے داری کر رہا ہے اس نے اس پر اپنا مالکانہ حق چھوڑا نہیں ہے ۔ بہتر ہوگا کہ بھارت اب تنازعے میںا پنے کو نہ پھنسائے ‘جوں ہی یہ بحث شروع ہوئی تھی ‘ہم نے کہا تھا کہ یہ تنازع بات چیت سے حل کیا جا سکتا ہے۔ اور کسی بھی قسم کا تصادم ،خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا ،دونوں ملکوں کے لیے نقصان کا ہی باعث بنے گا ۔اگر بھارت سرکار نے اس معاملے میں لچک کا مظاہرہ کیا ہے تو اسے میں بھارت کی کمزوری نہیں ‘سفارتی چالاکی سے تعبیر کروں گا ۔اگر یہ تنازع طول پکڑ جاتا تو بھارت چین کے مذاکرات ہی بند ہو جاتے جبکہ اس وقت دونوں ملکوں کے بیچ تجارت کے علاوہ پرانا سرحدی تنازع ‘بھارت کا ایٹمی سپلائیرز کلب میں داخلہ اور قبضے میں لیے ہوئے کشمیر میں (اوبور راستہ ) کا بننا وغیرہ ایسے معاملات ہیں ‘جن پر فی الفور مثبت بات چیت شروع ہونی چاہیے ۔اس بار بھارت اور چین ایک دوسرے کے ساتھ اچھے پڑوسیوں کی طرح پیش آئے ہیں ۔اگر یہی تعلقات دونوں کے درمیان بنے رہے تو اکیسویں صدی ایشیا کی صدی بن کر رہے گی ۔
گرو گرمیت سنگھ کے بے رحم مرید
ڈیرہ سچا سودہ کے چیف رام رحیم گرو گرمیت سنگھ کو عدالت نے زیادتی کے معاملے میں گنہگار ٹھہرایا ہے ‘اسے ابھی سزابھی نہیں دی ہے لیکن اس کی خبر کو سنتے ہی ہریانہ اور پنجاب میں کئی لوگوں نے اپنی جانیں دے دیں ‘ہزاروں لوگ جگہ جگہ دھرنا دیے ہوئے ہیں ‘ یہ لوگ فوج اور پولیس سے بھی نہیں ڈر رہے ہیں‘ کاریں جلا رہے ہیں ‘سٹیشنوں میں آگ لگا رہے ہیں ‘ صحافیوں کو دھکے دے رہے ہیں ۔آخر اس کی وجہ کیا ہے ؟ایسا عوامی غصہ تو لیڈروں کے لیے بھی نہیں دیکھنے میں آتا ہے؟ اس کا سب سے بڑا سبب تو ہندوستان بھر میں پھیلا اندھا یقین ہے ۔کسی بھی ایرے غیرے نتھوغیرے کو ہم فقیر ‘سنت ‘سادھو اور بابا کہنے لگتے ہیں اور اس کی پیروی شرو ع کر دیتے ہیں ۔اس میں پھر سب خوبیاں ہی خوبیاں دکھائی دیتی ہیں ۔لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس طرح کے لوگ عوامی فائدے کے اتنے زیادہ مشن چلائے رہتے ہیں کہ عوام کا خیال صرف ان پر ہی ٹکا رہتا ہے ۔ان 'ڈھونگی بابائوں ‘کہ گناہوں کی طرف دھیان جاتا ہی نہیں ہے ۔جیسے کہ کہا جاتا ہے کہ گرو گرمیت سنگھ نے مفت علاج کرنے والے ہسپتال ‘مفت سکول ‘مفت کھانا وغیرہ جیسے کئی مشن چلا رکھے ہیں ۔ٹھیک ہے ‘ایسے لوگ بھی دن میں ثواب کا کام کرتے ہیں اور ان کی رات پاپ کی دلدل میں بیتتی ہے ۔اگر ان کے پاپوں (گناہوں)کی ان کو سزاملتی ہے تو ان میں اتنی ہمت ہونی چاہیے کہ اس سزاکو وہ خوشی سے جھیل سکیں ۔ گرو گرمیت سنگھ نے یہی کیا ہے ۔بیماری کے باوجود عدالت میں موجود ہونا اور اس کا احترام کرنا اچھی بات ہے لیکن اس کے پیروکار تو عقیدے میں اندھے ہیں ۔وہ مرنے مارنے پر اترے ہوئے ہیں ۔وہ بے رحم اور بے لگام ہیں ۔یہاں سوال سرکاروں کے نکمے پن کا بھی ابھرتا ہے ۔وفاقی حکومت ‘ہریانہ اور پنجاب کی حکومتوں نے بھیڑ کو بھگانے کا انتظام پہلے سے کیوں نہیں کیا ؟کیوں کہ ہمارے لیڈر ووٹوں کے بھکاری ہیں ۔انہیں ان 'گرووں ‘کے اشارے پر بے حساب ووٹ مل جاتے ہیں ۔وہ انہیں ناراض نہیں کر سکتے ؟ان کا سلوک حاکم کا نہیں ‘بھکاری کا ہوتا ہے ۔اب اگر گرو گرمیت سنگھ کے بھگت بے لگام تشدد کریں گے تو نہ جانے کتنی زندگیوں کے چراغ گل ہوں گے اور ان زندگیوں کے اتلاف کا ذمہ دار کون ہوگا ؟
جج جگدیپ سنگھ کو اب پورا تحفظ دیا جانا چاہیے ۔ اس نامعلوم سادھوی کو بھی سارا ملک سلام کرتا ہے‘جس کی ہمت سے اس درندے گرو گرمیت سنگھ کا پول کھلا۔سرسا کے اس بہادر صحافی رام چندر چھتر پتی کو بھی میرا سلام ‘جسے اسے ڈھونگی کا پول کھولنے کی پاداش میں موت کا سامنا کرنا پڑا۔ شہید رام چندر کا بڑ اسٹیچو چنڈی گڑھ میں لگایا جانا چاہیے۔گرو گرمیت سنگھ کے اس'' ڈیرہ جھوٹ سودا‘‘ کے بھگت رنجیت سنگھ کے قتل کا بھی راز جلد ہی کھلے گا اور کوئی تعجب نہیں کہ گرو گرمیت سنگھ کو عمر قید کی سزا ہو جائے یا اسے پھانسی پہ چڑھا دیا جائے۔