"DVP" (space) message & send to 7575

مودی کے لیے 2018آسان نہیں ہوگا

2017 ء کا سال پورا ہو گیا ہے۔
اس برس تین واقعات کا سب سے زیادہ پرچار کیا گیا ۔نوٹ بندی ‘ جی ایس ٹی اور سرجیکل سٹرائیک لیکن ان تینوں معاملات میں اگر سرکار نے خبرداری سے کام کیا ہوتا‘آگا پیچھا سوچا ہوتا اور لوگوں کے دکھ دردوں کا خیال کیا ہوتا تو نریندر مودی کی سرکار کی چاہت 2014 ء کے مقابلے میں کافی بڑھ جاتی۔ ویسا نہیں ہوتا ‘جیسا کہ گجرات میں ہو اہے ۔وہاں تو جان بچی سو لاکھوں پائے والا حساب ہوا۔مودی سرکار کو بنے ساڑھے تین سال ہو گئے ہیں ۔اس دوران میں ملک کا لگ بھگ سارا دھن سفید ہوگیا ۔جی ایس ٹی میں درجنوں ترمیموں کے باوجود عام صارف کو کہیں بھی سیدھا اور ٹھوس فائدہ نہیں مل پا رہا ہے ۔لاکھوں لوگ بیروزگار ہوئے ہیں ‘سیکڑوں لوگ لائن میں وفات پا گئے اور مہنگائی بھی بے حساب بڑھی ہے ‘ان کے باوجودآج ملک میں بغاوت کا ماحول بالکل نہیں ہے ۔کیوں نہیں ہے ؟کیوں کہ لوگوں کو پختہ یقین ہے کہ مودی جی نے جو قدم اٹھائے ہیں ‘وہ عوام کی بہتری کے لیے اٹھائے ہیں۔ اس میں ان کا کوئی مطلب نہیں ہے یا ان کی کوئی غرض شامل نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نوٹ بندی میں ہزاروں کروڑوں کا نقصان ہوا ہے ۔اس کے مقابلے میں بوفورس سکینڈل میں صرف ساٹھ کروڑ کھائے گئے تھے ۔عدالتوں ذریعے بری کیے جانے کے باوجود بوفورس نے کانگریس کا کچومر نکال دیا لیکن لوگ مودی کو برداشت کر رہے ہیں ۔کیوں ؟کیوں کہ انہیں پتا ہے کہ مودی کا دامن صاف اور پاک ہے ۔2017 ء میں بھاجپا اتر پردیش اور اتراکھنڈ میں جیتی ۔پنجاب ‘گووا اور منی پور میں ہار گئی لیکن گووا اور منی پور میں اس نے جوڑ توڑ کر کے سرکار بنا لی ۔اس کی سب سے بڑی کامیابی نتیش کمار کو اپنے خیمے میں شامل کرنا رہا ۔اس وقت نتیش اکیلے ایسے لیڈر ابھر کر سامنے آرہے تھے‘جو 2019 ء میں مودی کو کافی تگڑی للکار دے سکتے تھے لیکن وہ بھاجپا کے ساتھ اتحاد نہیں کرتے تو وزیراعلیٰ نہیں رہ پاتے ۔ اب بھی نتیش کے لیے راستہ کھلا ہے ۔وہ اپنے لچیلے پن کے لیے مشہور ہیں۔ درست وقت پر درست فیصلے لینے کے لیے وہ جانے جاتے ہیں ۔ پتا نہیں ڈیڑھ دوسال کے بعد کا وقت کیسا ہو گا؟
گجرات کا چنائو 2017ء کا سب سے بڑاواقعہ رہاہے ۔گجرات میں جادو کی چھڑی صرف ایک تھی اور اس کا نام تھا ''ہوں گجرات ر وڈکرو چھے ‘‘(میں گجرات کا بیٹا ہوں)۔ تاہم سوال یہ ہے کہ کیا جادو کی یہ چھڑی دوسرے صوبوں میں بھی کام کرے گی ؟یہ سب سے بڑا سوال ہے ۔گجرات کے انتخاب میں کانگریس ہاری ‘یہ اس کے لیے اچھا ہو ا۔ورنہ راہول کا دماغ بھی پھول کر کپا ہو جاتا ۔تینوں گجراتی نوجوان لیڈر ہاردک ‘الپیش اور جگنیش مل کر چوکھمبا اکھاڑاسجا لیتے ۔اب راہول گاندھی اگر مہذب طریقہ سے تعارف دیں تو وہ سبھی مخالف لیڈروں کا مورچہ کھڑا کر سکتے ہیں لیکن یہ قربانی کے بغیر ممکن نہیں ہوسکے گا ۔انہیں کوئی بھی وزیر اعظم کا امیدوار ماننے کے لیے تیار نہیں ہوگا اگر وہ خودا پنی والدہ نقش قدم پر چلیں اور ابھی سے اعلان کر دیں کہ وہ وزیراعظم کے امیدوار نہیں ہیں تو سارے مخالفین ان کے آس پاس جٹ سکتے ہیں۔ مودی نے صرف 31 فیصد ووٹوں سے سرکار بنائی تھی ۔2019 کا یہ مورچہ پچاس ‘ساٹھ فیصدی ووٹوں سے سرکار بنا سکتا ہے ۔لیکن ایسا ہونے کی امید بہت کم ہے ۔
2017 ء کے سال میں ہماری خارجہ پالیسی کے شعبہ میں سب سے مشہور بات یہ ہوئی کہ بھارت اور امریکہ ایک دوسرے کے نزدیک آتے دکھے ۔ایسا لگا کہ بھارت ٹرمپ کی پھسل پٹی پر چڑھ گیا ہے ۔لیکن یہ مطمئن ہونے کی بات کا مضمون ہے کہ بھارت نے روس اور چین کو بھی پٹائے رکھا ہے ۔دوکلام میں ہماری افوج بھڑی نہیں‘ یہ اسی کا نتیجہ ہے ۔ بھارت کی دکھتی نس پر ٹرمپ نے ہاتھ رکھ دیا ہے وہ ہے ‘پاکستان!ٹرمپ خوداور ان کے وزیر خارجہ اور وزیر دفاع پاکستان کو اتنا دھمکا رہے ہیں ‘ جتنا آج تک کسی امریکی سرکار نے نہیں دھمکایا ۔بھارت بہت خوش ہے لیکن ہمارے وزارت خارجہ کے افسر اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ یہ دھمکانہ بھارت کے سبب نہیں ہے ۔یہ افغانستان کے سبب ہے‘جہاں امریکہ کی افواج طالبان کے ساتھ جھوج رہی ہے اور جہاں امریکہ کروڑوں اربوں ڈالر پانی کی طرح بہا چکا ہے۔
2017ء کاسوال ہمارے پڑوسی ممالک کے لیے مطمئن کرنے والا نہیں رہا۔ پاک بھارت تعلقات پر برف جمی ہوئی ہے ‘حالانکہ انسانی سطح پر ہماری وزیرخارجہ سشما سوراج کبھی کبھی اچھی خبر دے دیتی ہیں ۔نیپال ‘سری لنکا برما ‘مالدیپ اور بنگلہ دیش میں بھی چینی سفارتی رشتوں کو بے پناہ کامیابی مل رہی ہے ۔روہنگیا مسئلہ کو حل کرنے میں چین بازی مار لے گیا ۔ افغانستان میں بھارت کے لیے ابھی بھی کافی جگہ ہے ۔دوہزار سترہ کا سال ایران کے چاہ بہار بندرگاہ کے کھلنے کے لیے یاد کیا جائے گا ۔اب وسطی ایشیا افغانستان ‘اور روس تک پہنچنے کے لیے بھارت کو نہ تو سویز نہر پر مدار رکھنا ہوگا اور نہ ہی پاکستان پر ! روس سے فارس کے خلیج روڈ بنانے کی بھی خبر ہے ۔بھارت ایران تعلقات گہرے ہوتے جا رہے ہیں ۔بھارت نے یروشلم پر امریکہ کے خلاف اقوام متحدہ میں ووٹ دے کر مسلم ممالک کا دل جیت لیا ہے ۔ اس حوالے سے مسلم ممالک کو ملا کر دیگر 128ممالک نے امریکہ کے خلاف ووٹ ڈالا جس کے بعد امریکہ سر پیٹتا رہ گیا۔ اس نے تمام ممالک کو چنائوتی بھی دی کہ وہ اس کے خلاف ووٹ ڈالیں گے تو وہ ان کو دی جانے والی امریکہ امداد کاٹ لے گا۔ اس نے یہ اعلان کھلے عام کیا جس کا کسی پر کوئی اثر نہ ہوا سوائے ان چند چھوٹے چھوٹے ممالک پر جن کا نام کئی لوگوں نے شاید پہلی مرتبہ سنا ہو گا۔ ان چھوٹے بے چارے ملکوں کا کیا ہے ۔ ان کے ووٹ سے امریکہ کو کوئی وزن نہ ملا کیونکہ خود امریکہ اور اسرائیل کے علاوہ کسی بڑے ملک نے اس یروشلم میں امریکہ سفارت خانہ بنانے کی حمایت نہیں کی۔ اقوام متحدہ میں امریکی سیکرٹری ریک ٹلرسن نے بڑی زور کی تقریر کی اور کہا کہ انہیں امریکہ کے خلاف ووٹ دینے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ امریکہ کو اس قرار داد کی ضرورت نہیں وہ جو چاہتا ہے وہ کرتا ہے۔ اس نے کہا ہم ان ممالک کو دیکھ لیں گے جنہوں نے امریکہ کی خواہش کے الٹ چال چلی ہے۔ انہیں ہم اتنی امداد دیتے تھے لیکن انہوں نے ہمارا نہ سوچا۔
2018 ء کابرس شروع ہو چکا ہے ۔اس برس کئی صوبوں میں چنائو ہونے والے ہیں۔ مدھیہ پردیش‘چھتیس گڑھ اور راجستھان کے چنائوں پر مودی کے کیے کرائے کا کتنا اثر پڑے گا ‘یہ کہنا بہت مشکل ہے۔ صوبائی سرکاروں کے کام کو ہی ووٹر پہلے دیکھیں گے۔راجستھان کے علاوہ کہیں مضبوط اپوزیشن لیڈر دکھتا ہی نہیں ہے۔اگر اتنے صوبوں میں بھی کسی وجہ سے بھاجپا ہار گئی تو دوہزار انیس میں دلی دور ہو جائے گی ۔ بھاجپا کے پاس کچھ مدعے ضرور ہیں ۔جیسے رام مندر ‘گائے کی حفاظت ‘لو جہاد مذہبی دہشتگردی اور پاکستان !اگر مرکزکو اپنی کرسی کھسکتی نظر آئی اور یہ پتے بھی ناکارہ ثابت ہوئے تو کوئی تعجب نہیں کہ چین یا پاکستان کے ساتھ کوئی سیدھی مڈھ بھیڑ ہوجائے۔یہ بھی ممکن ہے کہ بھاجپا لیڈر من کی بات کے ساتھ ساتھ کام کی بات کچھ ایسی کر دیں کہ اور کچھ نہیں تو وہ اتحاد کی سرکار ہی بنا ڈالیں ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں