یہ تو کوئی مان ہی نہیں سکتا کہ دلی کے وزیر اعلیٰ اروند کجری وال نے پیسے کھا کر دو گپتائوں کو راجے سبھا کے ٹکٹ دے دیے ہوں گے‘ لیکن یہ ٹکٹ انہیں کیوں دیے گئے‘ یہ بتانے کے عام آدمی پارٹی قابل نہیں ہے۔ مذکورہ دونوں افراد میں سے ایک چارٹرڈ اکائونٹنٹ ہے اور دوسرا تعلیم اور صحت کی تجارت سے وابستہ ہے۔ جو سی اے ہے‘ وہ ابھی کچھ دن پہلے تک کانگریس میں تھا اور کجری وال کا سخت مخالف بھی۔ اس نے ایسا کیا کرشمہ کر دیا کہ اروند نے متاثر ہو کر اسے راجے سبھا میں بھیجنے کا فیصلہ کر لیا؟ ان دونوں کے انتخاب نے کجری وال اور عآپ کی ساکھ کو چوپٹ کر دیا ہے۔ ایسا نہیں کہ نالائق دولت مندوں کو دیگر پارٹیوں نے پہلے راجے سبھا میں کبھی نہیں بھیجا‘ لیکن ان پارٹیوں اور لیڈروں کی شان اور ساکھ کیا اروند کجری وال جیسی تھی؟ بدعنوانی کے خلاف کارروائیاں اور اقدامات اروند اور عآپ کی پہچان ہیں اور اس کی اس پہچان پر اب سوال اٹھنے لگے ہیں۔ ان نامزدگیوں سے عآپ (عام آدمی پارٹی) میں کتنی ناراضی ہے‘ یہ کارکنوں نے واضح کر دیا ہے۔ تیسرا امیدوار‘ سنجے سنگھ اپنا پرچہ بھرنے شیر کی طرح گیا‘ اور دو گپتا لوگ بالکل غائب ہی ہو گئے۔ اگر عآپ نے خود کو جلد نہیں سنبھالا تو دلی میں اس کا لوٹنا مشکل بھی ہو سکتا ہے۔ اس نے ادھر اتنے اچھے کام کیے ہیں کہ 2019ء کے الیکشن میں اس کا کردار قومی سطح پر بھی ابھر کر آ سکتا ہے‘ بشرطیکہ وہ فوراً اپنی بھول سدھار کرے یعنی کی گئی اپنی اس غلطی کا ازالہ کرے۔ کیسے کرے؟ یہ بڑا آسان ہے۔ ان دونوں گپتائوں کو اب پہلے جیتنے دے اور پھر دونوں ہی مستعفی ہو جائیں۔ اس کے بعد عآپ میں کئی اچھے لیڈر ہیں‘ انہیں نامزد کیا جائے‘ منتخب کرایا جائے اور اس طرح اپنی عزت اور ساکھ بچائی جائے‘ جو عآپ اور کجری وال‘ دونوں کے لئے بے حد ضروری ہے۔ راجے سبھا کی نامزدگی میں سبھی پارٹیوں کے لیڈر اتنی دھاندلی کرتے ہیں کہ میری رائے میں یہ حق یا اختیار لیڈروں سے چھین کر پارلیمنٹری پارٹیوں کو دے دیا جانا چاہیے۔ صدر کے ذریعے کی جانے والی دس نامزدگیوں کا حق بھی راجے سبھا کے سبھی ممبران کے پاس چلا جانا چاہیے تاکہ راجے سبھا میں سچ مچ لائق لوگ جا سکیں اور کوئی بھی بدعنوانی کے ذریعے اس اہم ایوان میں داخل نہ ہو سکے۔
مودی کچھ تو کریں!
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو اچانک ہندی اور دوسری بھارتی زبانوں کی یاد آ گئی ہے‘ یہ جان کر میرا دل خوشی سے گدگدانے لگا ہے۔ ہمارے عظیم سائنٹسٹ پروفیسر ستیندر ناتھ بوس کی 125ویں یوم ولادت کی تقریب میں بولتے ہوئے مودی نے سائنس اور زبان کے تعلقات پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ میری یاد کے مطابق ایسے خیالات کا آج تک کسی وزیر اعظم نے اظہار نہیں کیا۔ بھارتی وزیر اعظم کے منہ سے یہ الفاظ نکلے ہیں‘ اس لیے اب یہ الفاظ انہی کے مانے جائیں گے‘ چاہے یہ میرے یا آپ کے یا کسی تقریر لکھنے والے افسر کے ہی کیوں نہ ہوں؟
بھارتی وزیر اعظم مودی نے کہا کہ سائنس کی پڑھائی اور تحقیق اگر مقامی زبانوں میں ہو تو سائنس عوام سے جڑ جائے گی۔ نوجوانوں میں یہ مضمون ہردلعزیز ہو جائے گا۔ اس کا فائدہ عام عوام کو زیادہ ملے گا۔ سائنسی لوگ اپنے بنیادی نالج کا استعمال عام آدمی کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے کریں‘ تو ان کی ضرورت بڑھے گی۔
ایسے اچھے خیالات ظاہر کرنے پر میں مودی کی تعریف پہلے ہی کر چکا ہوں لیکن میں پوچھتا ہوں کہ کیا مودی کو ہم بھارتیوں نے اسی لیے وزیر اعظم بنایا ہے کہ وہ صرف باتیں بنائے اور اچھے اچھے خیالات کا اظہار کرے؟ ایسے اور اس سے بھی اچھے وچار تو کوئی بھی ظاہر کر سکتا ہے‘ لیکن کسی وزیر اعظم یا سرکار کے سربراہ سے کیا صرف یہی امید کی جاتی ہے؟ وہ تقریر ضرور جھاڑے یا ہدایت ضرور کرے‘ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم اس سے کچھ کردکھانے کی امید بھی کرتے ہیں۔ مودی یہ بتائے کہ گزشتہ ساڑھے تین برس میں اس نے ملک میں ایک بھی ایسا کالج قائم کیا جو میڈیکل‘ انجینئرنگ ‘سائنس اور قانون وغیرہ کی اعلیٰ تعلیم مقامی زبانوں کے ذریعے سے دیتا ہو؟ آر ایس ایس کو اس مدعہ پر سنجیدگی سے غور کرنا ہو گا کہ اس کا سیوک وزیر اعظم کی کرسی میں بیٹھ کر بھی اتنا مجبور کیوں ہے؟ وہ اس کیفیت میں صفر کیوں ہے؟ انگریزی کی غلامی کرنے والے دیگر وزرائے اعظم سے وہ الگ اور بہتر ثابت کیوں نہیں ہو رہا ہے؟
ایران میں ہلچل اور بھارت
آج کل ایران میں زبردست مظاہرے ہو رہے ہیں۔ ہزاروں لوگ سڑکوں آ گئے ہیں۔ وہ توڑ پھوڑ بھی کر رہے ہیں۔ وہ لوگ نہ تو اعلیٰ طبقے کے ہیں اور نہ ہی درمیانی طبقے کے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر لوگ مزدور طبقے کے ہیں ‘دیہاتی ہیں اور چھوٹے چھوٹے شہروں میں ان کا زور زیادہ ہے۔ ابھی تک دو درجن لوگ جاں بحق‘ اور سینکڑوں گرفتار ہو چکے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ یہ مظاہرے شہنشاہ کے خلاف 1976-77ء میں ہونے والے خطرناک مظاہروں کی طرح ہیں۔ ان کا تقابل 2009ء میں احمدی نژاد سرکار کے خلاف ہونے والے مظاہروں سے بھی نہیں کیا جا سکتا۔ یہ مظاہرے اس لیے ہو رہے ہیں کہ ایران کی اکانومی سنبھل نہیں پا رہی ہے۔ ایران کی ایٹمی پالیسی کے سبب لگی بین الاقوامی پابندیوں نے مالی حالت خاصی خراب کر دی تھی‘ لیکن اب جبکہ زیادہ تر ممالک نے امریکہ کے ساتھ معاہدہ طے پا جانے کے بعد یہ پابندیاں ہٹا لی ہیں تو اب بھی آشا (امید)کی کوئی کرن جگمگاتی نظر نہیں آتی۔ روزمرہ کے استعمال کی چیزوں کے دام پچھلے کچھ عرصے میں دُگنے ہو گئے ہیں۔ ایران کے لوگوں میں ساٹھ فیصدی نوجوان ہیں۔ وہ بیروزگاری کے
شکار ہو رہے ہیں۔ بدعنوانی میں کوئی کمی نہیں ہے۔ اس تحریک کا کوئی ایک طے شدہ لیڈر نہیں ہے‘ جیسے کہ 1975ء میں آیت اللہ خمینی تھے۔ یہ ناممکن نہیں کہ سرکاری طاقت کے سامنے یہ ٹک ہی نہ پائے‘ لیکن اس تحریک میں پہلی بار حاکموں کے خلاف نعرے لگے ہیں۔ لوگ یہ بھی پوچھ رہے ہیں کہ جب ایران کی معاشی حالت اتنی خراب ہے تو وہ ارد گرد کے علاقں کے معاملات میں گہری دل چسپی کیوں لے رہا ہے؟ چالیس برس میں یہ پہلی بار ہوا کہ بادشاہت کی واپسی کے نعرے بھی لگے ہیں۔ ان مظاہروں سے ٹرمپ اور اسرائیل کے نیتن یاہو خوش دکھائی پڑ رہے ہیں‘ لیکن ایرانی سرکار ان کا نام لیے بنا انہیں آگ میں گھی ڈالنے والا کہہ رہی ہے۔ اس موقع پر بھارت کی اس معاملے سے کنارہ کشی ہی فائدے مند ہے۔ ہم ٹرمپ اور نیتن یاہو کی آواز میں آواز ملا کر نہ اپنا بھلا کریں گے اور نہ ہی ایران کا۔ اگر ایران خوشحال رہتا ہے تو اس سے آخر کار بھارت کو ہی مدد ملے گی۔ بھارت چابہار بندرگاہ کا استعمال تو کرے گا ہی‘ ایران سے تیل کی خریداری پر بھی پھر سے بات کی جا سکتی ہے۔
ان نامزدگیوں سے عآپ پارٹی میں کتنی ناراضی ہے‘ یہ کارکنوں نے واضح کر دیا ہے۔ تیسرا امیدوار‘ سنجے سنگھ اپنا پرچہ بھرنے شیر کی طرح گیا‘ اور دو گپتا لوگ بالکل غائب ہی ہو گئے۔ اگر عآپ پارٹی نے خود کو جلد نہیں سنبھالا تو دلی میں اس کا لوٹنا مشکل بھی ہو سکتا ہے۔ اس نے ادھر اتنے اچھے کام کیے ہیں کہ 2019ء کے الیکشن میں اس کا کردار قومی سطح پر بھی ابھر کر آ سکتا ہے‘ بشرطیکہ وہ فوراً اپنی بھول سدھار کرے یعنی کی گئی اپنی اس غلطی کا ازالہ کرے۔ کیسے کرے؟ یہ بڑا آسان ہے۔ ان دونوں گپتائوں کو اب پہلے جیتنے دے اور پھر دونوں ہی مستعفی ہو جائیں۔ اس کے بعد عآپ پارٹی میں کئی اچھے لیڈر ہیں‘ انہیں نامزد کیا جائے‘ منتخب کرایا جائے اور اس طرح اپنی عزت اور ساکھ بچائی جائے