امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مصیبتیں بڑھتی ہی جا رہی ہیں۔ ان کی چار سالہ مدت کا جونہی دوسرا برس شروع ہوا‘ دودھ میں مکھی گر گئی۔ گزشتہ ایک برس میں ان کے کئی وزرا‘ افسروں اور مشیروں نے استعفے دے دیے۔ لگ بھگ ایک درجن عورتوں نے ان پر جسمانی تعلقات کے الزام لگائے۔ اب امریکی سینیٹ نے ان کا حقہ پانی بند کر دیا ہے‘ یعنی جب تک وہ (سینیٹ) بجٹ پاس نہیں کرے گی‘ لگ بھگ آٹھ لاکھ پچاس ہزار سرکاری ملازمین کی تنخواہ کھٹائی میں پڑ جائے گی۔ امریکی سینیٹ اور صدور کے درمیان ٹکر پہلے بھی ہوتی رہی ہے اور سرکار کا خرچ کچھ دن کے لیے بند بھی ہوتا رہا ہے‘ لیکن ٹرمپ ایسے پہلے صدر ہیں‘ جن کی دونوں ایوانوں میں اکثریت ہے‘ پھر بھی ان کے پرس پر زپ کھینچ دی گئی ہے۔ اس کے نتیجے میں امریکہ کے لاکھوں سرکاری ملازم اب گھر بیٹھے رہیں گے۔ انہیں تنخواہ نہیں ملے گی۔ جو اپنے دفاتر میں جا کر کام کریں گے‘ وہ بنا پگھار (تنخواہ) کے ہی کام کریں گے۔ اگر سرکار اور پارلیمنٹ میں معاہدہ ہو گیا تو انہیں بعد میں تنخواہ مل بھی سکتی ہے‘ لیکن اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اگر یہ کیفیت لمبی کھنچ گئی تو ٹرمپ کی سیاست کو بھاری دھچکا لگے گا‘ کیونکہ پورے سال میں ٹرمپ کے پاس دکھانے کے لیے بس ایک ہی چیز ہے۔ وہ ہے‘ اکانومی میں سدھار‘ جو اُن کے ٹیکس کے طریقۂ کار میں پھیر بدل کے سبب ممکن ہوا ہے۔ یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ مشکل کی یہ نوبت آئی کیوں؟ اپوزیشن ڈیموکریٹک پارٹی کا کہنا ہے کہ غیر ممالک سے آ کر بچپن سے مقیم تقریباً سات لاکھ امریکیوں کو ٹرمپ کوئی تحفظ دیں گے یا نہیں؟ اگر انہیں بھگایا گیا یا ان کے روزگار چھین لیے گئے تو ان کا کیا ہو گا؟ ان کا کیا بنے گا؟ ان کے بجٹ میں پیسے کیوں نہیں رکھے جا رہے ہیں؟ یہ مسئلہ مذاکرات سے سلجھایا جا سکتا تھا‘ لیکن شیخ جی جہاں بیٹھ گئے‘ وہاں بیٹھ گئے۔ ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ کی ری پبلکن پارٹی کے لوگ بھی ان کا ساتھ نہیں دے رہے ہیں اور اس طرح وہ اس وقت گہری مشکل میں ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ٹرمپ ہر بات میں اڑ جاتے ہیں اور جلد بازی میں بیان بازی کر دیتے ہیں۔ بات پہلے کرتے ہیں‘ سوچتے بعد میں ہیں۔ وہ ایسا شاید اس لیے کرتے ہیں کہ بنیادی طور پر وہ بزنس مین ہیں۔ وہ اپنے نوکروں سے کام لینا ضرور جانتے ہیں لیکن انہیں اپنے برابری والے کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے میں مشکل ہوتی ہے۔ اب شاید اپنے مخالفین سے وہ پھر گفتگو شروع کریں‘ اور معاملہ بات چیت سے حل ہو جائے۔ اس بیچ امریکی عوام کو تکلیف تو ہو گی لیکن سرکار کی نہایت ہی ضروری خدمات پھر بھی بند نہیں ہوں گی۔
ڈیووس میں ہم کیا دکھائیں گے؟
ڈیووس میں ہونے والے عالمی اکانومی منچ پر ہم کیا منہ دکھائیں گے؟ بیس برس میں ہمارا کوئی بھی وزیر اعظم وہاں کیوں نہیں گیا؟ جن دنوں بھارت کی اکانومی کو دنیا کی سب سے تیز رفتار والی اکانومی مانا جا رہا تھا‘ ان دنوں بھی ہمارے وزیر اعظم‘ جو کہ اچھے خاصے اکانومسٹ تھے‘ وہاں نہیں تھے‘ لیکن اب ہمارے یعنی بھارتی عالم وزیر اعظم وہاں خوشی خوشی پہنچ گئے ہیں۔ میں ان کی ہمت کی داد دیتا ہوں۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی میں پٹخنی کھانے کے باوجود وہ وہاں چلے گئے ہیں۔ بھارت کی اکانومی ریٹنگ 7 فیصد کے آنکڑے سے نیچے لا کر انہوں 6 فیصدی تک کر دی ہے‘ پھر بھی انہیں وہاں بھاشن جھاڑنے میں کوئی جھجک نہیں ہو گی۔ اس میں شک نہیں کہ مذکورہ دونوں فیصلے کرنے میں ان کا اپنا کوئی مطلب نہیں تھا۔ یہ فیصلے انہوں نے صاف دل سے کیے تھے لیکن بدقسمتی یہ رہی کہ بنا لالچ والے فیصلے‘ بے وقوفانہ بھی نکلے۔ اب آج آکسفوم نام کی دنیا میں مشہور ادارے نے جو غریبی امیری کے آنکڑے پیش کیے ہیں‘ انہوں نے وزیر پرچار کے لیے نئی مصیبت کھڑی کر دی ہے۔ اگر ڈیووس میں کسی نے کھڑے ہو کر سوال پوچھ لیا‘ تو ہماری بگھیا ہی بیٹھ جائے گی۔ آنکڑے یہ ہیں کہ گزشتہ سال بھارت میں جتنی بھی دولت پیدا ہوئی یا پیدا کی گئی‘ اس کا 73 فیصدی حصہ ملک کے ایک فیصدی لوگ حاصل کر گئے‘ یعنی ہمارے صرف سوا کروڑ لوگ ایک لاکھ کروڑ روپے کے مالک بن گئے‘ اور ملک کے 67 کروڑ ہی نہیں‘ میرے اندازے کے حساب سے لگ بھگ سو کروڑ لوگ بھارت میں ایسے ہیں‘ جنہیں روٹی‘ کپڑا‘ مکان‘ تعلیم‘ صحت اور انٹرٹینمنٹ کی سہولیات بھی نہیں ملتیں۔ کروڑوں لوگ بھوکے مرتے ہیں۔ ادویات کی کمی کے سبب لاکھوں لوگ دم توڑ دیتے ہیں۔ تعلیم اور صحت کے شعبے میں انڈیا اور بھارت کی خندق گہری ہوتی چلی جا رہی ہے۔ کسی بڑی کمپنی کا افسر سال بھر میں جتنے روپے کماتا ہے‘ اتنے روپے کمانے کے لیے گائوں کے ایک مزدور کو ایک ہزار سال لگیں گے۔ اس خندق کو پاٹنے کی طرف ہمارے دانشور پی ایم کا کوئی دھیان ہی نہیں ہے۔ جہاں تک ملک کی مکمل ترقی کا سوال ہے‘ بھارت چین‘ پاکستان‘ بنگلہ دیش‘ سری لنکا اور نیپال سے بھی بہت پیچھے ہے۔ نیپال کا نمبر 22واں ہے تو بھارت کا 62 واں۔ دیکھیں‘ ڈیووس جا کر پی ایم کیا کرشمہ کرتے ہیں۔
مارکس وادی پارٹی: اصول پر اقتدار بھاری
مارکس واد اور جمہوریت میں 36 کا آنکڑہ ہے۔ دونوں ایک دوسرے کی سخت مخالف ہیں‘ لیکن بھارت کی کمیونسٹ پارٹی 'مارکس وادی‘ نے اس اصول کو بدل دیا ہے۔ کسی بھی کمیونسٹ پارٹی کا جنرل سیکرٹری اس ملک کے صدر اور وزیر اعظم سے بھی زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ وہ کسی تانا شاہ سے کم نہیں ہوتا لیکن اس بار بھارت کی مارکس وادی پارٹی کے سیکرٹری سیتا رام ییچوری اپنی ہی پارٹی میں مات کھا گئے۔ ان کی پیشکش گر گئی اور ان کی مخالفت میں رکھی گئی پیشکش پاس ہو گئی۔ منظور کر لی گئی۔ انہیں اپنی پولٹ بیورو میں صرف 31 ووٹ ملے اور ان کے خلاف 55 ووٹ ڈالے گئے۔ ان کے مقابلے میں تھے سابق سیکرٹری‘ پرکاش کارت۔ ییچوری کی پیشکش تھی کہ بھاجپا کو آنے والے چنائو میں ہرانے کے لیے کانگریس کے ساتھ اتحاد کرنا چاہئے‘ جبکہ کارت نے بھاجپا کو ہرانے کی بات تو کہی‘ لیکن کانگریس کے ساتھ اتحاد کی مخالفت کی۔ کیرل اور ترپورا میں مارکس وادیوں کا اگر کسی سے مقابلہ ہے تو کانگریس سے ہے۔ ان دونوں صوبوں کی پارٹیاں کارت کے ساتھ ہیں جبکہ مغربی بنگال میں کانگریس اور مارکس وادیوں میں سیدھی ٹکر نہیں ہے۔ پارٹی کی اکثریت سوچتی ہے کہ کانگریس سے اتحاد اور مستقبل کی خاطر ہم اپنی صوبائی سرکاروں کو خطرے میں کیوں ڈالیں؟ یہاں اصولوں پر اقتدار بھاری پڑ رہا ہے۔ یوں بھی پارلیمنٹ میں اس وقت صرف 9 مارکس وادی ممبر ہیں‘ اور مارکس وادی پارٹی کا کل ووٹ کم ہو کر تین فیصد کے آس پاس رہ گیا ہے۔ وہ اِدھر جائے یا اُدھر‘ کوئی خاص فرق پڑنے والا نہیں ہے۔ اصولوں اور خیالات کی سیاست کے دن اب لد چکے ہیں۔ بہت کچھ تبدیل ہو چکا ہے اور بہت کچھ تبدیل ہونے والا ہے۔ ایسے میں مارکس وادی پارٹی تذبذب کی حالت میں ہے۔ اگر وہ کانگریس کے ساتھ اتحاد کرنے کا طے کر ہی لے تو اسے اکھلیش یادو سے سبق سیکھ لینا چاہیے۔ شاید اس سے بہتری کی کوئی راہ نکل آئے۔
سوال یہ ہے کہ مشکل کی یہ نوبت آئی کیوں؟ اپوزیشن ڈیموکریٹک پارٹی کا کہنا ہے کہ غیر ممالک سے آ کر بچپن سے مقیم تقریباً سات لاکھ امریکیوں کو ٹرمپ کوئی تحفظ دیں گے یا نہیں؟ اگر انہیں بھگایا گیا یا ان کے روزگار چھین لیے گئے تو ان کا کیا ہو گا؟ ان کا کیا بنے گا؟ ان کے بجٹ میں پیسے کیوں نہیں رکھے جا رہے ہیں؟ یہ مسئلہ مذاکرات سے سلجھایا جا سکتا تھا‘ لیکن شیخ جی جہاں بیٹھ گئے‘ وہاں بیٹھ گئے۔ ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ کی ری پبلکن پارٹی کے لوگ بھی ان کا ساتھ نہیں دے رہے ہیں اور اس طرح وہ اس وقت گہری مشکل میں ہیں۔