"DVP" (space) message & send to 7575

افغانستان میں لاقانونیت

ابھی کابل کے انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل پر ہوئے طالبانی حملہ کا خون سوکھا بھی نہیں تھا کہ دوسرا حملہ اتنا زوردار ہوگیا کہ پورا افغانستان دہل گیا ۔پہلے حملے میں بائیس لوگ مارے گئے تھے اور اس میں سولوگ مارے گئے ہیں۔ سینکڑوں لوگ زخمی ہوئے ہیں ۔افغانستان میں شاید ہی کوئی دن گزرتا ہو ‘جبکہ دہشت گردی میں لوگ نہ مارے جاتے ہوں ۔اقوام متحدہ کے ایک آنکڑے کے مطابق دس لوگ روزانہ مارے جاتے ہیں ۔گزشتہ برس دس ہزار فوجی مارے گئے اور اتنے ہی طالبان!افغان صدر اشرف غنی نے خود کہا ہے کہ وہاں اکیس دہشت گرد گروہ حرکت میں ہیں ۔لگ بھگ پچاس اضلاع پر ان کا قبضہ ہے اگر امریکہ نے کھل کر مدد نہیں کی تو اگلے کچھ ماہ میں افغانستان میں لاقانونیت پھیل جائے گی ۔گزشتہ پندرہ سولہ برس میں امریکہ وہاں اپنے 2500 ہزار فوجی کھو چکا ہے اور ایک ٹریلین ڈالر بہا چکا ہے ۔ٹرمپ وہاں سے مکمل امریکی فوجیوں کی واپسی چاہتے تھے لیکن ابھی بھی چار ہزار جوان وہاں انہیں رکھنے پڑے ہیں ۔امریکہ اپنے ہی پھیلائے ہوئے جال میں پھنس گیا ہے ۔اسے پتا نہیں کہ بہادر افغانوں نے جیسے 1842 ء میں بریٹین اور اب روسی افواج کے گھٹنے توڑ دیے تھے ‘وہ امریکہ کا بھی دم پھلا دیں گے ۔افغانستان کے باغیوں کو بندوق کے زور پر دبانا ناممکن ہے ‘یہ سبق امریکہ کب سیکھے گا ؟اب تو روسیوں ‘چینیوں اور ایرانیوں نے بھی افغان باغیوں سے بات شروع کر دی ہے ۔افغانستان کی فوج کی ہمت ٹوٹ چکی ہے ۔وہاں کی سرکارصدر غنی اور ڈاکٹر عبداللہ کے بیچ جھول رہی ہے۔ڈاکٹر عبداللہ کو ابھی تک عہدئہ وزیراعظم سے نوازانہیں گیا ہے جبکہ وہ اس کے لائق ہیں۔پارلیمنٹ کا انتخاب ‘جو 2015 ء میں ہونا تھا ‘ابھی تک بیچ میں لٹکا ہوا ہے ۔سرکار کا اقبال قریب قریب ختم ہو چکا ہے ۔بلخ کے گورنر عطا محمد نے اپنی برخاستگی کو رد کردیا ہے اور اپنے صوبے کی سرکار خود چلا رہے ہیں ۔نائب صدر اور مشہور ازبک لیڈرعبدالرشید ترکی میں پناہ لیے ہوئے ہیں اور عطا محمد کی حمایت کر رہے ہیں ۔ہرات کے گورنر اسماعیل خان بھی خودمختار ہوگئے ہیں ۔مقصد کہ اب افغانستان کا خدا حافظ ہے ۔اس کا سب سے بڑا ہمسایہ بھارت وہاں اب تک دوبلین ڈالر خرچ کر چکا ہے اور کچھ فوجی تربیت دے رہا ہے لیکن وہ وہاں امن کاکردار زبردست ڈھنگ سے نبھائے ‘یہ وقت کا تقاضا ہے ۔
یہ شاید تاج محل سے بھی خوبصورت 
آج پونے میں ایک تاریخی پروگرام میں شرکت کرنے کا مجھے موقع ملا ۔پونے شہر میں لگا ہوا ایک راج باغ نام کا علاقہ ہے ۔یہ کبھی راج کپور کا بہت بڑا فارم ہو اکرتا تھا ۔آج کل اس کی ملکیت پونے کے مشہور ڈاکٹر وشواناتھ کراڑ کے پاس ہے۔ ڈاکٹر کراڑ نے اس بڑے علاقہ میں فلمی ہستیوں اور مشہور فنکاروں کا خوبصورت میوزیم تو بنا ہی دیا ہے ۔اب وہ جو سٹوپ یا گنبدوہاں بنوارہے ہیں ‘وہ ساری دنیا میں سب سے اونچا اورسب سے بڑا ہوگا ۔وہ سٹوپ گزشتہ بارہ برس سے بن رہا ہے اور اس میں چھ سو کاریگر رات دن کام کر رہے ہیں ۔یہ ویٹی کن کے سینٹ پیٹرس سٹوپ سے بھی اونچا اور خوبصورت ہے ۔یہ 263 فٹ اونچااور 160 فٹ چوڑا ہے ۔آج کروے گروجی ڈاکٹر وجے بھٹکر اور میں اس سٹوپ اور اس کے چار کھمبوں پر سونے کا (کلش)لوٹے چڑھائے ۔سٹوپ بن چکا ہے ۔اور اب اس پر سفید سنگ مرمر لگ رہا ہے ‘جو دواکتوبر یعنی گاندھی کے یوم پیدائش تک پورا ہوجائے گا۔ ادھورا سٹوپ اب بھی اتنا خوبصورت لگ رہا ہے ۔سنگ مرمر لگنے کے بعد کیا معلوم یہ تاج محل سے بھی زیادہ حسین لگنے لگے ۔تاج محل توشاہ جہاں نے اپنی بیگم کے لیے بنایا تھا ۔لیکن ڈاکٹر کراڑ یہ سٹوپ نمامحل اپنی ماتا (بھارت ماتا)کے لیے بنوارہے ہیں ۔اس میں بھارت کے سبھی مذاہب کے بڑے بڑے سٹیچو ہوں گے ‘سبھی مذاہب کے متعلق ادبی کتابیں اور دینی پاک کتابیں بھی موجود رہیں گی ۔دنیا کے بڑے سائنسدان اور مفکروں کی بڑی بڑی تصاویر تیار ہوچکی ہیں ۔میں نے اپنی تقریر میں کہا کہ ڈاکٹر وشواناتھ نے آج پونے میں ایک پورے عالم کی امانت کھڑی کر دی ہے ۔سبھی مذاہب کی قابل قبول باتوں کا مجموعہ ایک جگہ پر ہو جائے تو وہ اپنے آپ زیارت کی جگہ بن جاتی ہے ۔یہ بن جائے یہی میری دعا ہے ۔
ڈارون اور ستیہ پال سنگھ
مرکزی مملکتی وزیر ستیہ پال سنگھ کے ایک بیان کو لے کر کافی ہنگامہ مچا ہواہے ۔اپنے آپ کو سائنسدان سمجھنے والے لوگ کافی بوکھلائے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر ستیہ پال سنگھ نے اپنی ایک تقریر میں چارلس ڈارون کے ترقی پرست نظریہ کو رد کر دیا اور کہہ دیا کہ ایسے بغیر مثال کے قاعدوں کو بھارتی نصاب سے نکال باہر کرنا چاہیے ۔انہوں نے کہا کہ ڈارون درست ہوتا تو گزشتہ دولاکھ برس سے آج تک کسی نے بندر سے آدمی بنتے کیوں نہیں دیکھا؟ڈاکٹر سنگھ کی اس بات سے میں اتفاق نہیں رکھتا ہوں کہ ڈارون کے نظریہ کو بھارت میں پڑھایا ہی نہیں جانا چاہیے ۔میں کہتا ہوں کہ اسے ضرور پڑھایا جانا چاہیے اور پڑھاتے پڑھاتے اس کا چورا کر دینا چاہیے ۔اس میں شک نہیں کہ ڈارون نے اپنی مشہور کتاب 'اوریجن آف سپیسیز ‘1859 ء لکھنے میں زبردست محنت کی تھی اور بیس برس لگائے تھے ۔جب وہ پہلی بار جنوب امریکہ کے گیلا پوگوس جزیرہ پر پہنچے تو وہاں طرح طرح کے جانوروں ‘پرندوں اور کیڑے مکوڑوں میں انہیں عجیب وغریب یکسانیت دکھائی پڑی ۔انہی سے متاثر ہوکر انہوں نے کئی تجربے کیے اور وہ اس مقصد پر پہنچے کہ امیبا سے ترقی ہوتے ہوتے ساری کائنات بن گئی ۔گدھے جیسا دکھنے والے زرافے کی گردن اونٹ سے بھی زیادہ لمبی اس لیے ہو گئی کہ دوچار فٹ والے پودوں کی پتیاں ختم ہو گئی اور اسے اونچے درختوںکے پتے کھانے کے لیے اپنی گردن اٹھا نی پڑتی تھی۔ اسی طرح مچھلیوں کے پنکھ نکل آئے اور بندر ترقی کرتے کرتے انسان بن گیا۔ ڈارون کے پہلے لامارک نے اس سے بھی بڑے اندازی گھوڑے دوڑائے تھے ۔بھارتی سائنسدان اور تعلیم یافتہ لوگوں نے آج بھی انگریزوں کی نفسیاتی غلامی سے آزادی نہیں پائی ہے ۔اسی لیے ڈاکٹر ستیہ پال کی دوٹوک رائے انہیں پتھر توڑنے جیسی لگ رہی ہے ۔آج بھی خدا کی پیدائش اور کائنات اپنے آپ میں ایک راز بنا ہوا ہے ۔کیا آج تک کسی نے خدا کو دیکھا ہے یا کائنات کو پیدا ہوتے ہوئے دیکھا ہے ؟دنیا کی سب سے پرانی کتاب رگ وید ہے۔مہرشی دیانند نے انہیں ظاہر کرتے ہوئے مانا ہے کہ مالک نے دنیا کی شروعات میں نہ بچے پیدا کیے اور نہ بوڑھے بلکہ جوان لڑکے اور لڑکیاں پیداکیے ‘اور جو اولاد پیدا کر سکتے تھے۔دلیل کے حساب سے دیکھا جائے تو ڈارون کی ہوابازی کے مقابلے میں دیانند کا یہ نظریہ ٹھیک معلوم پڑتا ہے اور اس میں نہ توجھوٹ ہے اور نہ ہی گوری چمڑی کی دھونس ہے ۔یہی بات ڈاکٹر ستیہ پال سنگھ نے کہی ہے ۔

افغانستان کے باغیوں کو بندوق کے زور پر دبانا ناممکن ہے ‘یہ سبق امریکہ کب سیکھے گا ؟اب تو روسیوں ‘چینیوں اور ایرانیوں نے بھی افغان باغیوں سے بات شروع کر دی ہے ۔ افغانستان کی فوج کی ہمت ٹوٹ چکی ہے ۔ وہاں کی سرکارصدر غنی اور ڈاکٹر عبداللہ کے بیچ جھول رہی ہے۔ڈاکٹر عبداللہ کو ابھی تک عہدئہ وزیراعظم سے نوازانہیں گیا ہے جبکہ وہ اس کے لائق ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں