مالدیپ میں آج کل زبردست اتھل پتھل مچی ہوئی ہے۔ اس کے صدر عبداللہ یامین کی کرسی ہل رہی ہے۔ جس عدالت کو وہ اپنے ہاتھ کی کٹھ پتلی سمجھ رہے تھے‘ اسی نے ان کے اپنے عہدے سے کھسکنے کا انتظام کر دیا ہے۔ مالدیپ کی سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ جن 12 ایم پیز کو حکمران پارٹی سے استعفیٰ دینے کے باعث یامین سرکار نے عہدے سے برخاست کر دیا تھا‘ انہیں پھر سے بحال کر دیا گیا ہے۔ ان کے بحال ہو جانے سے یامین کی سرکار اقلیت میں چلی جائے گی اور اس کے لیے کوئی بھی قانون بنانا یا کسی قانون میں ترمیم کرنا مشکل ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ صدر یامین کے خلاف مقدمہ بھی کامیاب ہو سکتا ہے۔ عدالت نے لیڈروں کی گرفتاری کے فیصلے کو بھی رد کر دیا ہے۔ ان لیڈروں میں مالدیپ کے سابق صدر محمد نشید اور ایک نائب صدر بھی ہیں۔ نشید پر دہشتگرد ہونے کا جھوٹا الزام بھی لگایا گیاتھا۔ عدالت کے ان دونوں فیصلوں کو آئے چار پانچ دن ہو چکے ہیں لیکن یامین نے انہیں ابھی تک عائد نہیں کیا ہے‘ یعنی ان پر عمل درآمد نہیں کیا۔ وہ اگلے برس ہونے والے چنائو ابھی کروانے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ اس فیصلے سے یامین اتنے زیادہ گھبرائے ہوئے ہیں کہ انہوں نے دو دن میں مالدیپ کے دو پولیس سربراہوں کو بدل دیا ہے‘ جس کامطلب یہ ہے کہ وہ کسی پر بھی بھروسہ کرنے کو تیار نہیں۔ اس طرح مالدیپ کی داخلی صورتحال بڑی عجیب ہو چکی ہے۔
یامین سے اقوام متحدہ‘ امریکہ‘ بھارت اور سری لنکا سمیت کئی ممالک نے آئین کا احترام کرنے کی اپیل کی ہے۔ یامین کی دال پتلی ہونے کا سب سے زیادہ دھچکا چین کو لگے گا‘ کیونکہ یامین نے مالدیپ کو لگ بھگ چین کی گود میں بٹھا دیا ہے۔ اس نے چین کے ساتھ فری ٹریڈ سمجھوتہ کیا۔ اس نے بھارت پریمی لوگوں کو بھی پریشان کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی ہے۔ انہوں نے بھارتی سفارت کار سے ملنے جلنے پر روک لگا رکھی تھی۔ ویسے مالدیپ کے وزیر خارجہ ابھی کچھ دن پہلے بھارت اسی لیے آئے تھے کہ بھارت کی ناراضگی کو دور کر سکیں‘ لیکن عدالت کے فیصلے نے مالدیپ کی شطرنج کے پانسوں کو پلٹ دیا ہے۔ میرے خیال میں اب یامین کے خلاف عوامی غصہ بھڑکے بنا نہیں رہے گا۔ گہرائی تک جائزہ لیا جائے تو مالدیپ میں ہوئے اس واقعہ کو عدالتی تخت پلٹ کہا جائے گا۔ یہ بھارتی خارجہ پالیسی کی نظر سے اچانک ہی ایک خوش خبری آ گئی ہے۔ مالدیپ میں جمہوریت کے تحفظ کے لیے بھارت کو کھل کر سامنے آنا چاہیے۔
بغیر پارٹی جمہوریت اور انا ہزارے
انا ہزارے چاہتے ہیں کہ بھارتی جمہوریت بغیر کسی پارٹی کے بن جائے۔ پانچ چھ برس پہلے ایک شادی پروگرام میں وہ میرے پاس آ کر بیٹھ گئے تھے۔ مجھ سے پوچھنے لگے کہ اس مدعے پر آپ کا کیا خیال ہے؟ میں نے پوچھا کہ پارٹیاں سیاست کریں‘ اس میں آپ کو کیا کیا اعتراضات ہیں؟ ان اعتراضات کی جو دلیل انہوں نے اس وقت پیش کی‘ وہی ابھی انہوں نے اخبارات میں بول دیا ہے۔ ان کی واحد اور خاص دلیل یہ ہے کہ آئین میں کہیں بھی پارٹی انتظام کا ذکر تک نہیں ہے۔ بھارتی آئین کا آرٹیکل 84 کہتا ہے کہ کوئی بھی بھارتی شہری جو 25 سال کا ہے‘ وہ ودھان سبھا اور لوک سبھا کا چنائو لڑ سکتا ہے۔ تو بتائیے‘ یہاں پارٹی کہاں سے آ گئی؟ انا سے میں یہ امید نہیں کرتا ہوں کہ وہ کوئی تحریر لکھ کر یا بھاشن دے کر اپنی بات ثابت کریں گے۔ لیکن میں نے جب انہیں بتایا کہ بریٹین یعنی برطانیہ میں تو لکھت میں یعنی تحریری طور پر کوئی آئین ہی نہیں ہے تو وہ حیران رہ گئے۔ میں نے ان سے کہا کہ اس بنیاد پر کیا برٹش ایم پیز‘ وزرا اور کابینہ کے غیر قانونی ہونے کا اعلان کر دیا جائے؟ انا ان سب باریکیوں میں نہیں جا سکتے لیکن ان کی بنیادی ٹینشن صحیح ہے کہ پارٹی بازی کے سبب جمہوریت کبھی کبھی ایک دم چوپٹ ہوئی سی لگتی ہے۔ پارٹی چلانے کے لیے خطرناک بدعنوانی کرنی پڑتی ہے۔ پارٹیاں اکثر پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیاں بن جاتی ہیں‘ جیسے کہ آج کل بھارت کی مین پارٹیاں بن گئی ہیں۔ لوک شاہی تانا شاہی میں بدلنے لگتی ہیں۔ ویسے بھی یہ تو بڑی عام سی بات ہے کہ حکمران پارٹی کو اپنی اکثریت قائم رکھنے کے لئے دوسری پارٹیوں کو اپنے ساتھ ملائے رکھنا پڑتا ہے۔ اس مقصد کے لیے انہیں بے جا مراعات دینا پڑتی اور ان کی باتیں ماننا پڑتی ہیں۔ یہ پارٹیاں گروہوں کی طرح کام کرتی ہیں۔ سارے فیصلے سب کی رضا مندی کی بنیاد پر ہونے چاہئیں۔ کئی آئینی مسائل بھی کھڑے ہو جائیں گے۔ ایسی کیفیت میں ضروری یہ ہے کہ پارٹی جمہوریت کو زیادہ مضبوط بنانے کی کوشش کی جائے‘ نہ کہ اسے مکمل طور پر ختم کر دینے کے مشورے دئیے جائیں۔
ڈاکٹریٹ کی توہین بند کریں!
بھارت میں شائع ہونے والے ایک انگریزی اخبار نے گزشتہ روز ملک میں چل رہی پی ایچ ڈی (ڈاکٹریٹ) کی ڈگریوں کی تقسیم میں ہیرا پھیری پر ایک تحقیقی خبر شائع کی۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت میں لگ بھگ سبھی یونیورسٹیاں ایسے لوگوں کو بھی ڈگریاں دے دیتی ہیں‘ جن کے میٹرک پاس ہونے کا بھی پتا نہیں ہوتا۔ بتایا گیا ہے کہ گزشتہ بیس برس میں ایک سو ساٹھ یونیورسٹیوں نے 2000 سے زیادہ لوگوں کو ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں بانٹی ہیں۔ ایسی ڈگری پانے والوں میں ملک کے صدور‘ نائب صدور‘ وزرائے اعظم‘ وزرائے اعلیٰ اور کئی وزیر تو ہیں ہی‘ سرکاری افسر‘ کئی جاہل دولت مند اور کئی سماجی کارکن بھی ہیں۔ اس معاملے میں میرا کہنا یہ ہے کہ یہ سب لوگ کسی نہ کسی سبب احترام کے لائق تو ہو سکتے ہیں‘ لیکن انہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری کیوں دی جائے؟ یہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری کا غلط استعمال ہے۔ ایسا استعمال بند ہونا چاہئے۔ یہ اس ڈگری کی توہین ہے۔ کسی بھی مضمون میں ڈاکٹریٹ کرنے کے لیے پانچ چھ برس تحقیق کرنی پڑتی ہے۔ سر کھپانا اور سخت محنت کرنا پڑتی ہے۔ میں نے خود جب انٹرنیشنل سیاست میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے لیے ریسرچ کی تھی تو لگاتار پانچ برس صبح آٹھ بجے سے رات آٹھ بجے تک لائبریریوں میں بیٹھ کر کام کیاتھا۔ انگریزی کے علاوہ تین غیر ملکی زبانیں سیکھیں۔ سینکڑوں خارجہ لیڈروں اور عالموں سے مذاکرات کیے۔ کئی افراد کے انٹرویوز کئے۔ چار ملکوں میں رہ کر گہری تحقیق کی۔ بین الاقوامی سیاست کے مشہور ماہرین نے اسے قبول کیا‘ تب جا کر جے این یو نے مجھے ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی۔ آپ جس مضمون پر ڈاکٹریٹ کرتے ہیں‘ اس مضمون کے قابل فرد ہی نہیں علامہ مانے جاتے ہیں‘ جبکہ نام کی ڈگری پانے والے کچھ لوگ تو عالموںکے بیچ بیٹھنے کے بھی لائق نہیں ہوتے۔ کچھ ایسے لوگوں کو بھی ڈاکٹریٹ کی ڈگری دے دی جاتی ہے‘ جن سے ان یونیورسٹیوں کو روپے کا فائدہ ہوا ہو یا ہونے کا امکان ہو۔ ان پر ہوئی طرح طرح کی مہربانیوں کو لوٹانے کا یہ خاص وسیلہ بن گیا ہے۔ اس کی آڑ میں وہ یونیورسٹیاں اپنی کمیوں‘ دھاندلیوں اور بدعنوانی پر پردہ ڈال دیتی ہیں۔ کچھ لوگ پیسوں کے زور پر یہ ڈگریاں اور باقی فرضی ڈگریاں بھی ہتھیا لیتے ہیں۔ وہ اپنے نام سے پہلے 'ڈاکٹر‘ لگانا کبھی نہیں بھولتے۔ ان کے سارے نوکر چاکر انہیں 'ڈاکٹر صاحب‘ ڈاکٹر صاحب‘ کہہ کر ہی بلاتے ہیں۔ میں تو بھارتی سپریم کورٹ سے کہتا ہوں کہ ایسی فرضی ڈگریوں پر سخت بین لگا دے تاکہ ہماری یونیورسٹیاں بدنام ہونے سے بچ سکیں۔ اس طرح کی ڈگریاں اور پدم شری‘ پدم بھوشن جیسے نشان پانے والے اپنے ذاتی دوستوں کو میں ایک خط لکھ دیتا ہوں‘ کیونکہ ان کاغذات کے لیے انہیں پتا نہیں کس کس کے آگے ناک رگڑنی پڑتی ہے۔