"DVP" (space) message & send to 7575

گنہگار لیڈر: کنبھ کرن کے خراٹے

وفاقی سرکار نے سپریم کورٹ کو اطلاع دی ہے کہ ملک کے 1765 ایم پیز اور ایم ایل ایز ایسے ہیں‘ جن پر 3045 مجرمانہ مقدمے چل رہے ہیں۔ ان میں نگر نگموں اور نگر پالیکائوں کے پارشد اور گائوں کے پنچ شامل نہیں ہیں۔ اگر ان کی تعداد بھی معلوم کی جائے تو یہ آنکڑا دگنا‘ تگنا بھی ہو سکتا ہے۔ ابھی تو ایم ایل ایز اور ایم پیز کی ٹوٹل تعداد 4896 ہے‘ ان پر چل رہے مقدمات کی تعداد کے بارے میں درخواست گزار اشونی اپادھیائے کا کہنا ہے کہ وہ 13500 ہیں۔ یہ آنکڑے بھی پورے نہیں ہیں۔ ابھی گووا اور مہاراشٹر کی سرکاروں نے آنکڑے بھیجے ہی نہیں۔ سب سے زیادہ جرم کے معاملے ممبران اتر پردیش کے ہیں۔ پھر تامل ناڈو اور بہار کے ہیں۔ یہ معاملے وہ ہیں‘ جو باقاعدہ عدالتوں میں چل رہے ہیں لیکن لیڈروں کے خلاف عدالتوں میں جانے کی ہمت کتنے لوگ کر سکتے ہیں؟ لیڈر لوگ بہت سے معاملات کو ڈرا دھمکا کر‘ لے دے کر ختم کروا دیتے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ ہماری سیاست پر جرم کا گہرا سایہ ہے۔
2014ء میں اس طرح کے 1581 معاملے تھے۔ اس وقت عدالت کی ہدایت پر سرکار نے ایسی 12 مخصوص عدالتیں قائم کرنے کی بات کہی تھی‘ جو برس بھر میں سارے معاملے نمٹا دیتیں۔ لیکن وہ عدالتیں ابھی تک بنی ہی نہیں اور اب بنیں گی تو 12 کی جگہ چوبیس یا تیس بنیں گی۔ سرکار نے ان عدالتوں کے لیے 780 کروڑ روپیہ دینا طے کیا تھا لیکن اب اس پیسوں کو دگنے سے بھی زیادہ کرنا ہو گا لیکن یہ کتنی عجیب بات ہے کہ یہ وطن پرستوں کی سرکار اتنے سنجیدہ معاملے پر چار برس سے سوئی پڑی ہے۔ کنبھ کرن والے خراٹے کھینچ رہی ہے۔ اگر ابھی تک سو یا دو سو لیڈروں کو بھی سزا دے دی ہوتی تو اس سرکار کی چمک چمچمانے لگتی۔ اب اس کا مشکل سے ڈیڑھ برس بچا ہوا ہے۔ اس میں پندرہ سے بیس ہزار جج ان مقدمات کو کیسے نمٹا پائیں گے؟ مجرم لیڈروں پر مقدمے چلیں‘ ان پر فوراً فیصلے ہوں‘ یہ تو اچھا ہے لیکن بھارت کی سیاست کو جرم سے آزاد کرنا عدالتوں سے زیادہ پارٹیوں کی ذمہ داری ہے۔ لیکن ان پارٹیوں کی مجبوری یہ ہے کہ وہ ٹکٹ اسی کو دیتی ہیں ‘جس کا جیتنا پکا دکھائی پڑتا ہو‘ چاہے وہ مجرم ہی کیوں نہ ہو۔
یہ دھکا یوگی کو کم مودی کو زیادہ
گورکھپور اور پھولپور میں انہونی ہو گئی۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اتر پردیش میں پہلے لوک سبھا اور ودھان سبھا کے چنائو میں زبردست اکثریت سے جیتنے والی بھاجپا ان دونوں میں اتنی بری طرح سے پٹ جائے گی۔ یہ پٹائی تب ہوئی ہے‘ جبکہ لکھنٔو میں بھاجپا سرکار کو آئے ابھی سال بھر بھی نہیں ہوا ہے۔ اور پٹائی کہاں ہوئی ہے اور ان سیٹوں پر ہوئی ہے‘ جو وزیراعلیٰ آدتیہ ناتھ یوگی اور نائب وزیراعلیٰ کیشو موریہ نے خالی کی تھیں۔ بھاجپا کے لیے اس سے بڑا دھکا آج کے دن کیا ہو سکتا ہے؟ یہ دھکا یوگی کو تو ہے‘ لیکن اس سے بڑا مودی کو ہے۔ کیوں کہ یہ سیٹیں ودھان سبھا کی نہیں‘ ایوان کی ہیں۔ مودی کو دو سیٹیں کم ہو گئیں۔ اب لوگ سوچنے لگے ہیں کہ کیا اب بھی مودی کی ہوا چل رہی ہے؟ چل نہیں رہی ہے‘ نکل رہی ہے۔ گجرات کے چنائووں نے ہی گاڑی پنکچر کر دی تھی لیکن ترپورا‘ ناگا لینڈ اور میگھا لیہ کے نتائج نے گجرات کے زخموں پر تھوڑا مرہم لگا دیا تھا۔ راجستھان اور مدھیہ پردیش کے چھوٹے چنائو نے ہلکا سا دھکا دیا تھا۔ وہ صوبائی دھکا تھا لیکن اتر پردیش کی ان دو سیٹوں نے پورے بھارت میں دھکا لگایا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوا ہے کہ کسی صوبے کی خاص اپوزیشن پارٹیاں ایک ہوئی نہیں کہ بھاجپا ڈوب گئی۔ اکیلا اتر پردیش چاہے تو وہی مودی کو وداع کرنے میں کافی ہے۔ اکھلیش یادو نے جس چالاکی سے کام کیا ہے‘ وہ انہیں 2019ء میں کافی بڑے رول میں کھڑا کر سکتا ہے۔
اتر پردیش کی شکست کے ساتھ سونیا گاندھی کی جانب سے دعوت کی خبروں نے بھی لہریں اٹھائی ہیں۔ ملک کی لگ بھگ بیس اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈر اس ڈنر میں شامل ہوئے۔ اپوزیشن کا اتنا بڑا جماوڑا چار برس میں پہلی بار ہوا ہے۔ ایوان کے دونوں سدنوں کو انہوں نے پہلے ہی ٹھپ کر رکھا ہے۔ سونیا گاندھی کی دعوت میں کچھ صوبوں کے ایسے لیڈر بھی مدعو تھے‘ جن کی پارٹیاں ایک دوسرے کی کٹر مخالف ہیں۔ اگر یہ سب ایک ہو گئیں تو مودی پارٹی کا کیا ہو گا؟ نوٹنکیوں کی کشتی میں بیٹھ کر چنائوکی ندیا کیسے پار ہو گی؟
پاک بھارت تنائو
بھارت اور پاکستان کے درمیان آج کل جو بچکانہ کارروائیاں ہو رہی ہیں‘ وہ افسوس ناک تو ہیں ہی‘ مزاحیہ بھی ہیں۔ پاکستان نے اپنے سفارت کار کو اسلام آباد بلایا ہے تاکہ بھارت میں سفارت کار کے ساتھ بھارت میں پیش آئے سلوک پر غور کیا جا سکے۔ پاکستانی وزارتِ خارجہ کا الزام ہے کہ نئی دلی میں اس کے ملازمین اور ان کے بچوں کو بھارتی پولیس بہت پریشان کرتی ہے۔ یہی الزام بھارتی قونصلیٹ نے اسلام آباد میں پاکستانی پولیس پر لگایا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ دونوں درست ہوں۔ جن ملکوں کے باہمی تعلقات خراب ہوتے ہیں‘ ان سے اسی طرح کی خبریں اکثر آتی رہتی ہیں۔ یہ تو کچھ بھی نہیں ہے۔ سفارت کاروں کے ساتھ مار پیٹ اور کبھی کبھی ان کا قتل بھی کروا دیا جاتا ہے۔ یہ اس لیے ہوتا ہے کہ سبھی ملک اپنے اپنے سفارتخانوں سے جاسوسی کا کام بھی لیتے ہیں۔ اس لیے ان بیرونی سفارتخانوں میں آنے جانے والوں پر مقامی سرکار بڑی کڑی نگرانی رکھتی ہے۔ اس عمل میں زیادتی ہونا فطری ہے۔ ایسی زیادتیاں کئی بار جان بوجھ کر کی جاتی ہیں اور کبھی کبھی انجانے میں بھی ہو جاتی ہیں۔ 
ان زیادتیوں کی ظاہری شکل میں تجربہ مجھے کئی بار ہوا ہے۔ روس اور چین میں کئی بار ایسے خفیہ تجربے مجھے محسوس ہوئے ہیں لیکن ایسے حادثوں کو آپس کی بات چیت کے ذریعے سلجھایا جا سکتا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس طرح کے معاملات کو ٹی وی چینلوں اور اخبارات میں اچھالنے کی تُک کیا ہے؟ اس سے تو دونوں ملکوں کی بدنامی ہی ہوتی ہے۔ بھارت اور پاکستان کے سفارت کار اپنے بچوں کو ایک دوسرے کے ملک میں پڑھانا بند کر دیں‘ اس سے دونوں ملکوں کا کیا فائدہ ہوگا؟ بچے تو بچے ہیں۔ اگر وہ ساتھ ساتھ پڑھیں گے تو ان میں دوستی ہو جائے گی۔ ایک دوسرے کو وہ سمجھنے لگیں گے۔ یہ ہی بڑے ہو کر فوج کے سربراہ بنیں گے‘ وزیر خارجہ بنیں گے‘ وزیراعظم بنیں گے‘ سفارت کار بنیں گے ۔ سمجھ نہیں آتا کہ دونوں ملکوں کے وزیر خارجہ فون پر بات کر کے اس تنائو کو دور کیوں نہیںکر لیتے؟

اتر پردیش کی شکست کے ساتھ سونیا گاندھی کی جانب سے دعوت کی خبروں نے بھی لہریں اٹھائی ہیں۔ ملک کی لگ بھگ بیس اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈر اس ڈنر میں شامل ہوئے۔ اپوزیشن کا اتنا بڑا جماوڑا چار برس میں پہلی بار ہوا ہے۔ ایوان کے دونوں سدنوں کو انہوں نے پہلے ہی ٹھپ کر رکھا ہے۔ سونیا گاندھی کی دعوت میں کچھ صوبوں کے ایسے لیڈر بھی مدعو تھے‘ جن کی پارٹیاں ایک دوسرے کی کٹر مخالف ہیں۔ اگر یہ سب ایک ہو گئیں تو مودی پارٹی کا کیا ہو گا؟ نوٹنکیوں کی کشتی میں بیٹھ کر چنائوکی ندیا کیسے پار ہو گی؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں