وزیر اعظم نریندر مودی کے بھارت واپس لوٹتے ہی وزرائے کابینہ نے دو آرڈیننس جاری کیے: پہلا‘ کسی کے ساتھ زبردستی اور زیادتی کرنے والے کو سخت سزا دینے کے لیے اور دوسرا‘ بینکوں کا پیسہ ہڑپ کر کے غیر ممالک میں بھاگ جانے والوں کے لیے۔ میرے خیال میں ان دونوں آرڈیننسوں کا لایا جانا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بھارت کی یہ سرکار کنبھ کرن کی نیند سوئی ہوئی نہیں ہے۔ جاگ رہی ہے اور ملک کے داخلی حالات پر نظر بھی رکھے ہوئے ہے۔ ان آرڈیننسوں کے بارے میں مختصر الفاظ میں یہی کہا جا سکتا ہے: دیر آید درست آید! اگر ایوان کے چلنے سے یہ آرڈیننس قانون کی شکل اختیار کر جاتے تو ان کا اثر بھی ہمیں بہت جلد دیکھنے کو ملتا‘ لیکن یہاں بھارت میں سرکار اور حزب اختلاف‘ دونوں کو ہی ملک کی فکر کم اور اپنے اپنے نمبر بنانے کی فکر زیادہ ہے۔ اگر زبردستی اور زیادتی کے خلاف سخت قانون بن جاتا تو سواتی مالی وال کو راج گھاٹ پر بھوک ہڑتال کیوں کرنی پڑتی؟ کل جب 'مضبوط بھارت‘ کی اور سے ہم لوگ وہاں گئے تو ہم نے سواتی کو سمجھایا کہ آرڈیننس آ رہا ہے‘ تمہاری مانگ مانی جا رہی ہے‘ اب تم بھوک ہڑتال توڑ دو۔ میں نے وزیر خارجہ سشما سوراج اور وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کو بھی فون کیے‘ لیکن دونوں باہر تھے۔ اس لیے ان سے براہ راست رابطہ نہ ہو سکا۔ کتنا اچھا ہوتا کہ بھاجپا سمیت سبھی پارٹیاں اور سماجی اداروں کے لوگ اس بھوک ہڑتال کی حمایت کرتے تاکہ بات منوائی جا سکتی۔ کتنی افسوس ناک بات ہے کہ اس سب کے بھلائی والے کام کو بھی پارٹی بازی کا معاملہ بنا دیا گیا۔ اس پر بھی بھارتی سیاست میں پوائنٹ سکورنگ کی جا رہی ہے۔
جہاں تک آرڈیننس کا سوال ہے‘ زبردستی یعنی زیادتی کرنے والے کی کم از کم سزا دس برس اور زیادہ سے زیادہ موت کرنے پر میں بھارتی حکومت کو مبارک پیش کرتا ہوں۔ لیکن مجھے یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ الگ الگ عمر کی لڑکیوں کے ساتھ زبردستی کرنے پر الگ الگ سزا کا قانون کیوں بنایا گیا؟ عمر کم زیادہ تو سزا بھی کم زیادہ؟ اگر بارہ برس سے کم عمر کی بچی کے ساتھ زیادتی ہو تو سزائے موت اور سولہ سال سے زیادہ کی لڑکی کے ساتھ ہو تو عمر قید! پھر ستر برس کی خاتون سے زیادتی ہو تو کیا صرف شام تک کی سزا ہو گی؟ زبردستی زبردستی ہے۔ زیادتی زیادتی ہے۔ چاہے یہ کسی کے ساتھ بھی ہو۔ کسی بھی عمر کی خاتون کے ساتھ ہو۔ میرے خیال میں ہر عمر کی عورت کے ساتھ زیادتی کی سزا سخت سے سخت ہونی چاہیے۔ تبھی عورتوں کو تحفظ مل سکے گا۔ ان کے حقوق کی پاس دارری ہو سکے گی۔ اس کے علاوہ میں نے یہ مانگ بھی کی ہے کہ وہ سزا سرعام پرچار کے ساتھ دی جانی چاہیے تاکہ لوگ عبرت پکڑیں اور ایسے کاموں سے باز آ جائیں۔ اس آرڈیننس میں ایک بہتر بات یہ ہے کہ زبردستی والے معاملے یا مقدمے کی جانچ دو ماہ اور سزا چار ماہ میں دینے کا قانون بنایا گیا ہے۔ اپیل نمٹانے کا وقت چھ ماہ رکھا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان مقدموں کی عدالتیں ترجیحی بنیادوں پر سماعت کریں گی۔ پتا نہیں بھارتی عدالتیں یہ شرائط پوری کیسے کریں گی؟ ان پر تو پہلے ہی مقدموں کا بہت زیادہ بوجھ ہے۔ 2016ء میں بھارت میں زبردستی کی 36000 شکایات درج ہوئی تھیں۔ اتنی شکایات کو نمٹانے میں ہی بیس برس لگ جائیں گے۔ نئی شکایتوں یا مقدموں کے لئے وقت کہاں سے ملے گا؟ اسی لیے میں کئی برسوں سے مانگ کرتا رہا ہوں کہ زبردستی کی سزا اتنی جلدی اور سزا اتنی سخت ہونی چاہیے کہ اس سزا کے ڈر کے مارے زیادتی کے واقعات کم سے کم ہو جائیں۔ کسی لڑکے یا لڑکی پر جبر کرنے والے کی ہڈیاں تک یہ سوچ کر کانپ اٹھیں کہ اگر وہ پکڑا گیا تو عمر قید کاٹنا پڑے گی۔ موت کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ بھارتی صدر رام ناتھ کووند اس آرڈیننس پر آنکھ بند کر دستخط نہ کریں۔ اس پر اپنے مشورے دیں۔ اسے واپس کریں اور بہتر بنوا کر منگوائیں تاکہ قوانین کو زیادہ سے زیادہ سخت بنایا جا سکے اور خواتین کو زیادہ سے زیادہ تحفظ مل سکے۔
وزیر اعظم کم‘ وزیرِ پرچار زیادہ
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے دورۂ لندن کے دوران پھر یہ ثابت کیا کہ وہ بھارت کے وزیر اعظم کم وزیرِ پرچار زیادہ ہیں۔ بڑھکیں زیادہ مارتے ہیں‘ کام کی بات کم ہوتی ہے۔ وہاں (لندن میں) سینکڑوں بھارتی نژاد لوگوں کی موجودگی میں انہوں نے زبردست نوٹنکی رچائی۔ لگ بھگ دو گھنٹے تک چلے سوالات و جوابات کے سلسلے میں انہوں نے کئی چوکے‘ چھکے لگائے۔ کئی سوالات کے ایسے جوابات دئیے کہ ہال بار بار تالیوں سے گونجتا رہا۔ کئی سوالوں پر ان کی حاضر جوابی کمال کی تھی۔ کچھ کیچ ڈراپ بھی ہوئے۔ ویسے اس طرح کی نوٹنکیاں جب کھیلی جاتی ہیں تو ان کی ریہرسل پہلے سے ہی کر لی جاتی ہے۔ سوال پوچھنے والے کو جواب کا پتا پہلے سے ہوتا ہے اور جواب دینے والے کو سوال پہلے سے پتا ہوتے ہیں۔ غالباً یہ بھی طے کر لیا جاتا ہے کہ کون کس وقت کیا سوال کرے گا۔ پھر بھی مودی کچھ مدعوں پر پھسل گئے۔ شاید اس کا سبب ان کی پرچار یا شہرت پانے کی لالچ رہی ہو۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ 2016 ء میں پاکستان کے خلاف (سرجیکل سٹرائیک) کیسے کی؟ جو بات انہوں نے بھارتی لوگوں اور بھارتی ایوان کو بھی ابھی تک نہیں بتائی تھی‘ وہ انہوں نے لندن میں ظاہر کر دی۔ انہوں نے کہا کہ2016ء میں پاکستان میں گھس کر انہوں نے جو 'سرجیکل سٹرائیک کروائی‘ اس کی اطلاع انہوں نے پاکستانی حکام کو صبح گیارہ بجے دینے کی کوشش کی‘ لیکن انہوں نے ڈر کے مارے فون نہیں اٹھایا۔ بارہ بجے ان کو اور اپنے میڈیا کو انہوں نے ایک ساتھ خبر کی۔ بیرونی ممالک میں رہنے والے بھارتیوں کو پوری سچائی کا پتا ہی نہیں‘ اس لئے انہوں نے مودی کے اس لغو جواب پر بھی تالیاں ٹھوک دیں۔ انہیں کیا پتا کہ یہ سرجیکل سٹرائیک‘ حقیقت میں 'فرضیکل سٹرائیک‘ تھی! کسی سرجیکل سٹرائیک کی اطلاع دشمن کو دینی پڑے‘ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ فرضیکل سٹرائیک ہے۔ یہ بات اب پوری طرح ثابت ہو چکی ہے کہ 2016ء میں بھارت نے پاکستان کے کسی علاقے میں کوئی سرجیکل سٹرائیک نہیں کی تھی۔ ایسی تمام خبریں اور رپورٹیں جھوٹی ہیں۔ 1967ء میں اسرائیل نے جب مصر کے خلاف سرجیکل سٹرائیک کی تھی تو کیا اسے مصر کے حکام کو بتانا پڑا تھا کہ ہم نے آپ کے علاقے میں سرجیکل سٹرائیک کر دی ہے؟ مصر ہی نہیں ساری دنیا اسے فوری طور پر جان گئی تھی۔ اگر یہ سچ مچ کی سرجیکل سٹرائیک ہوتی تو اس کا ردعمل ظاہر نہ ہوتا؟ مودی جیسا ادھ چکری جھوٹی باتیں کرکے اپنی ہی عزت کو بٹہ لگا لیتا ہے۔ مودی نے اپنا نام لے کر کئی سوالات کے جواب دیے۔ ایک بار انہوں نے یہ کہا کہ 'مودی تاریخ میں زندہ نہیں ہونا چاہتا‘ یہ کہہ کر وہ سچائی کے ایک قدم نزدیک پہنچ گئے۔ میرا سوال یہ ہے کہ گزشتہ چار برس میں انہوں نے ایسا کون سا کام کیا ہے‘ جس کی وجہ سے تاریخ میں ان کا نام زندہ رہ سکتا ہے؟ کیا نوٹ بندی‘ کیا فرضیکل سٹرائیک‘ کیا جی ایس ٹی؟ ان معاملات کی وجہ سے ان کا نام زندہ رہنے کی توقع کی جا سکتی ہے؟ ہاں‘ انہیں بھارت کے سب سے اچھے وزیرِ پرچار کی طرح کچھ دنوں تک ضرور یاد رکھا جائے گا۔