کئی دہائیوں بعد پاکستان میں ایک ایسی سرکار آئی ہے‘ جو نہ تو پیپلز پارٹی کی ہے اور نہ ہی مسلم لیگ کی۔ نہ یہ بھٹو فیملی کی ہے اور نہ ہی نواز شریف خاندان کی۔ یہ سرکار کسی جنرل ایوب‘ جنرل ضیاالحق یا جنرل مشرف کی بھی نہیں ہے۔ یہ سرکار تحریک انصاف پارٹی کے لیڈر عمران خان کی ہے۔ کرکٹ کے اس مشہور و معروف کھلاڑی عمران خان کی ہے‘ جو کئی بار بھارت آ چکے ہیں اور جن کے بھارت میں درجنوں دوست ہیں۔ عمران نے چنائو جیتتے ہی جو بیان دیا‘ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ پاکستان کے کسی دوسرے لیڈر نے ایسا جامع اور دوٹوک بیان دیا ہو۔ انہوں نے بڑے دلیرانہ انداز میں کہا تھا: بھارت اگر ایک قدم بڑھائے گا تو تعلقات سدھارنے کے لیے ہم دو قدم بڑھائیں گے۔
اس کے باوجود ذرا سوچیں کہ ہم لوگ یعنی بھارت والے کیا کر رہے ہیں؟ ہمارا میڈیا اور ہماری دو خاص سیاسی پارٹیاں ایک غیر مدعہ کو مدعہ بنائے ہوئے ہیں‘ یعنی نان ایشو کو ایشو بنائے ہوئے ہیں۔ انہوں نے تل کا تاڑ بنا دیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہہ لیں‘ بات کا بتنگڑ کر دیا ہے۔ نوجوت سدھو کیا ہے؟ ایک کھلاڑی ہے۔ آج کل صوبوں کے سینکڑوں وزیروں میں سے ایک وزیر ہے۔ وہ بارہ برس تک بھاجپا کے ایم پی رہے ہیں۔ عمران کے ذاتی دوست ہونے کے ناتے ان کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کرنے کے لیے پاکستان گئے‘ جیسے نریندر مودی نے اپنی حلف برداری کی تقریب میں اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم میاں نواز شریف کو بلایا تھا۔ نواز شریف اور مودی کا باہمی تعارف تک نہیں تھا۔ جہاں تک پاکستان فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور سدھو کی گلے لگنے والی ملاقات کا سوال ہے‘ میں اسے سدھو کی زیادتی مانتا ہوں لیکن سدھو نے اپنے پرانے لیڈر کی نقل ماری ہے۔ بھاجپا اور کانگریس کے لیے مودی اور عمران تو حاشیہ میں چلے گئے اور انہوں نے سدھو کو اپنے سر پر بٹھا لیا ہے۔
دونوں گاڑیاں پٹڑی سے اتر رہی ہیں‘ لیکن دونوں ملکوں کی سرکاریں پٹڑی پر ہی چلنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ دیکھئے‘ ہمارے وزیر اعظم مودی نے عمران خان کو فون کر کے مبارک باد دی۔ اپنے آپ دی۔ حلف اٹھائے جانے کے بعد انہوں نے چٹھی لکھی۔ چٹھی میں بھی کوئی تیکھی بات نہیں لکھی۔ دونوں ملکوں کے تعلقات بہتر کرنے کے لیے انہیں عمران خان صاحب سے کیا کیا امیدیں ہیں‘ یہ لکھا۔ ہماری وزیر خارجہ سشما سوراج نے پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو ایک خط لکھا۔ ادھر قریشی صاحب نے جو بیان دیا‘ اس میں بھارت پاک تعلقات کو سدھارنے پر زور دیا گیا۔ انہوں نے کشمیر اور ایٹمی قوت ہونے کا حوالہ ضرور دیا‘ لیکن ان کا زور اسی بات پر تھا کہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں نئے باب کا آغاز ہونا چاہیے۔ ہو سکتا ہے‘ سشما اور قریشی صاحب کی اسی ستمبر میں ملاقات ہو جائے۔ دونوں اقوام متحدہ کی سالانہ تقریبات میں حصہ لینے کے لئے ماہ رواں کے دوران چند روز نیو یارک رہیں گے۔ سدھو کے گلے لگنے کو ہمارے ٹی وی چینلوں نے اتنا اچھالا کہ دل کو چھو لینے والی جس حقیقت پر بھارتیوں کا دھیان جانا چاہیے تھا‘ ادھر گیا ہی نہیں۔ وہ حقیقت تھی‘ اٹل جی کی آخری رسومات کے وقت پاکستان کے وزیر اطلاعات علی ظفر کی یہاں موجودگی! پاکستانی سرکار کا وزیر اس موقع پر عمران کی رائے بنا یہاں آ سکتا تھا؟ پاکستان کے کچھ اخبارات اور چینلوں نے بھی اٹل جی کو بہت پیار کے ساتھ خراج تحسین پیش کیا۔ یہ بات دوسری ہے کہ پاکستان کے اپوزیشن لیڈر مودی سرکار کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں‘ اور کہہ رہے ہیں کہ وہ عمران سرکار کا خیر مقدم کر کے اسے بڑھاوا دے رہے ہیں۔ ادھر عمران نے ٹویٹ کر کے پھر کہا ہے کہ بھارت کے ساتھ ہر مسئلے کو بات چیت کے ذریعے سلجھایا جانا چاہیے۔ مسئلہ کشمیر کو بھی! جب مشرف جیسے حکمران کے ساتھ اٹل جی اور من موہن سنگھ جی نے مسئلہ کشمیر پر کئی قدم آگے بڑھا لیے تھے‘ تو اسی عمل کو اور آگے کیوں نہیں بڑھایا جا سکتا؟ لیکن یہاں ناک کا سوال آڑے آ رہا ہے۔ یہ معاملہ کہ بات چیت کی شروعات کون کرے؟ قریشی صاحب نے اپنے بیان میں کہہ دیا کہ مودی نے بات چیت کی پیشکش کی ہے۔ پاکستان کی وزارت خارجہ نے فوراً تصحیح کی کہ نہیں‘ قریشی صاحب کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ مودی نے دونوں ملکوں کے بیچ مثبت شروعات کی بات کی ہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ بغیر بات کے‘ کوئی مثبت شروعات کیسے ہو سکتی ہے؟ اگر کوئی پیشکش ہوئی ہے یا اس بارے میں کوئی اشارہ دیا گیا ہے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ مودی نے تو اپنا کام کر دیا‘ اب عمران خان آگے بڑھیں اور کمان سنبھالیں۔
عمران خان تھوڑا آگے بڑھے بھی ہیں۔ انہوں نے بھارت پاک تجارت بڑھانے کی بات کہی ہے۔ بھارت نے 1996ء سے پاکستان کو ''موسٹ فیورٹ نیشن‘‘ کا درجہ دے رکھا ہے لیکن پاکستان یہ درجہ بھارت کو دینے میں جھجکتا رہا ہے۔ عمران خان ہمت کریں‘ چاہے اس درجے کا نام تھوڑا بدل دیں‘ لیکن بھارت کی چیزوں کے لیے اپنے دروازے کھلوا دیں تو دونوں ملکوں کو زبردست فائدہ ہو گا۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ پاکستان کے ساتھ بھارت کی تجارت مشکل سے صرف پندرہ ہزار کروڑ روپے کی ہے‘ جو اس کے غیر ممالک سے تجارت کے ایک فیصد سے بھی کم ہے۔
عمران خان نے دہشتگردی کے خلاف بھی کافی بولا ہے‘ لیکن یہ وہ دہشتگردی ہے‘ جو پاکستان کے اندر چل رہی ہے۔ انہوں نے اُس دہشتگردی پر انگلی بھی نہیں اٹھائی ہے‘ جو پورے خطے میں پھیلی ہے۔ اس کے خلاف بھی اقدامات ہونے چاہئیں اور یہ پتہ چلایا جانا چاہئے کہ اس دہشت گردی کا ذمہ دار کون ہے۔ پاکستان کے اس چنائو نے جو پیغام دیا ہے‘ پتہ نہیں اسے عمران خان نے ابھی تک سمجھا ہے یا نہیں؟ اگر وہ اس دہشت گردی کو ختم کرانے کیلئے بھی اقدامات کریں تو حالات خاصے بدل سکتے ہیں۔ اس طرح وہ پورے جنوبی ایشیا کے کپتان بن جائیں گے۔
عمران خان سیاست میں ہیں اور اس سے باہر بھی۔ بھارت پاک تعلقات کو آسان بنانے میں دونوں ملکوں کے غیر سیاسی عناصر کا کردار نہایت ہی اہم ہو سکتا ہے۔ اس لیے ہمارے قابل سفارت کار اجے بساریا کے ذریعے عمران کو وہ بیٹ تحفہ میں دینا‘ جس پر ہمارے کھلاڑیوں کے دستخط ہیں‘ ایک اچھی پیش رفت ہے۔
آرام پسند بھارت؟
ہمارے کتابوں میں کہا گیا ہے کہ سب سے پہلے جسم کی حفاظت کرو لیکن بھارتی لوگ اپنے جسم کے بارے میں کتنے لاپروا ہیں‘ اس کا پتا ڈبلیو ایچ او کی تازہ رپورٹ سے چلتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت کے چونتیس فیصدی لوگ جسمانی محنت کا کوئی کام نہیں کرتے‘ یعنی نہ تو وہ کسرت کرتے ہیں نہ محنت مزدوری کرتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ملک میں لگ بھگ چالیس کروڑ لوگ کافی آرام پسند ہیں۔ یہ لوگ کون ہیں؟ یہ خوشحال ہیں‘ شہری ہیں‘ سپر کاسٹ کے ہیں۔ انہی لوگوں کے دوا دارو پر ملک سب سے زیادہ خرچ کرتا ہے۔ غریب کو دیہاتی کو‘ چھوٹی ذات والے کو ٹھیک سے دوا تو کیا‘ کھانا بھی نصیب نہیں ہوتا۔ ملک میں جسمانی محنت سب سے زیادہ یہی لوگ کرتے ہیں۔ ایشیا اور افریقہ کے ممالک میں جسمانی محنت کی قیمت دماغی محنت کی قیمت سے اتنی کم ہے کہ اس کی سماجی زندگی میں کوئی اہمیت ہی نہیں ہے۔ جسمانی محنت کرنے والوں کی تعداد دن بہ دن کم ہوتی جا رہی ہے۔ بھارت میں مردوں کے مقابلے خواتین اور بھی کم محنت کرتی ہیں۔ اسی لیے بیماریاں بھی زیادہ انہیں ہی گھیرے رکھتی ہیں۔ کم محنت کرنے والے لوگوں کو امراضِ قلب‘ ذیابیطس‘ بلڈ پریشر‘ کینسر‘ کمزور یادداشت اور ڈپریشن وغیرہ جیسی کئی بیماریاں اکثر ہو جاتی ہیں۔ بھارت کے 77 ہزار لوگوں سے پوچھ تاچھ کے بعد اس نتیجے پر پہنچا گیا ہے۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق بھارت میں ہر برس سولہ لاکھ لوگ علاج کی سہولتوں کی کمی کے باعث مر جاتے ہیں۔ اس رپورٹ کا کہنا ہے کہ صحت مند رہنے کے لیے ہفتہ میں کم از کم 75 منٹ سے 150 منٹ تک کی ورزش کرنا ضروری ہے۔ اگر کوئی آدمی اپنے جسم کی دیکھ بھال کے لیے دس بیس منٹ بھی روز نہیں نکال سکتا تو وہ ڈاکٹروں کے ہتھے چڑھے بنا کیسے رہ سکتا ہے؟ جیویم شردہ شتم یعنی سو برس جینے کا عزم ایسے لوگوں کے لیے ایک خواب ہی بن کر رہ جاتا ہے۔ اگر بھارت کو ایک خوشحال اور طاقتور ملک بنانا ہے تو اس کے ہر شہری کو قاعدے کے مطابق ورزش کا عزم کرنا ہو گا۔ آرام پسندی بھارت کو عظیم قوت نہیں بنا سکتی۔