کسی بھی ملک کو خوشحال اور طاقتور بنانے کے لیے سب سے ضروری دو چیزیں ہوتی ہیں۔ تعلیم اور علاج معالجہ کی وافر اور بہتر سہولیات۔ ہمارے یعنی بھارتی لیڈروں نے گزشتہ ستر برس میں ان دونوں معاملات میں جتنی لاپروائی دکھائی ہے‘ وہ معاف کرنے لائق نہیں ہے۔ یہ لیڈر مکمل طور پر ناقابل معافی ہیں۔ بھاجپا کی سرکار کے پچھلے چار برس بھی گزشتہ سبھی سرکاروں کی طرح خالی نکل گئے۔ انتخابات کے دوران عوام سے کئے گئے وعدے پورے نہ کئے جا سکے۔ اپنے وزیرِ پرچار نے سارا قیمتی وقت نعرے بازی میں گزار دیا‘ جو زبانی جمع خرچ سے آگے نہ بڑھ سکی۔ بھارت میں تعلیم کی جیسی خراب حالت ہے‘ اس پر میں پہلے کئی بار لکھ چکا ہوں‘ لیکن گائوں میں علاج کی سہولیات کی جو کیفیت ہے‘ اس پر آئے نئے آنکڑے دل دہلا دینے والے ہیں۔ بھارت کی کل آبادی کا لگ بھگ ستر فیصد گائوں میں رہتا ہے۔ ان کے علاج کے لیے ملک کی اسی فیصد ڈاکٹر ہیں لیکن گائوں کے کروڑوں لوگ بنا علاج کے بے موت مارے جاتے ہیں۔ کئی صوبائی سرکاروں نے ان ڈاکٹروں پر جرمانہ ٹھوک رکھا ہے‘ جو ڈگری ملنے کے بعد کچھ وقت کے لیے بھی گائوں میں جانے سے منع کرتے ہیں۔ یہ ڈاکٹر دس دس لاکھ روپے جرمانہ بھر دیتے ہیں لیکن گائوں میں نہیں جاتے۔ وہ شہروں میں رہ کر ذاتی پریکٹس کرتے ہیں اور کھلی ٹھگی کے ذریعے بیمار لوگوں سے لاکھوں روپے وصول کر لیتے ہیں۔ ایسے ڈاکٹروں کی ڈگریاں چھین لینے اور ان کی پریکٹس پر پابندی کا قانون بھارت کی صوبائی سرکاریں کیوں نہیں نافذ کرتیں؟ ان سرکاروں کا ایک اور گناہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے زیادہ تر میڈیکل کالج بڑے شہروں میں کھول رکھے ہیں۔ اگر وہ دور دراز کے دیہاتی علاقوں میں کھولے جائیں تو ڈاکٹروں کو اپنی تربیت کے دوران ہی دیہاتی زندگی کا تجربہ ہو جائے۔ گائوں میں نہ تو آپریشن تھیٹر ہوتے ہیں‘ نہ جدید مشینیں ہوتی ہیں اور نہ ہی ڈاکٹروں کو گھر ملتے ہیں‘ جن میں وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ سہولت سے رہ سکیں۔ بھارت میں ڈاکٹری کی سب سے بڑی کمی یا خامی یہ ہے کہ وہ آیور وید‘ یونانی اور ہومیو پیتھک علاج کا کوئی فائدہ نہیں اٹھانا چاہتی۔ اس دماغی غلامی سے چھٹکارا ہمارے ایلو پیتھک ڈاکٹروں کا کب ہو گا 'پتا نہیں‘۔ ذرا ہمارے لیڈر لوگ مائو زے تنگ کے ننگے پائوں ڈاکٹروں کے عظیم مشن کے بارے میں پڑھیں‘ جو انہوں نے 1965ء میں شرو ع کیا تھا‘ تو شاید ان کی آنکھیں کھلیں کہ گائوں کے لوگوں کی علاج کے ذریعے خدمت کیسے کی جاتی ہے اور پھر شاید وہ بھی گائوں میں پریکٹس کرنے پر راضی و رضامند ہو جائیں اور اس طرح بھارت کے دیہی عوام کو بھی علاج معالجہ کی بہتر سہولیات دستیاب ہو سکیں۔
مودی ہٹائو ملک بچائو
بھارتیہ جنتا پارٹی نے جو دعویٰ کیا ہے وہ آج کے وقت صحیح معلوم پڑتا ہے۔ اپوزیشن کے پاس نہ تو کوئی لیڈر ہے اور نہ ہی کوئی پالیسی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ بھاجپا نے میرے اس دل پسند محاورے کو ہاتھوں ہاتھ اٹھا لیا ہے۔ اپوزیشن کا آج جو حال ہے‘ وہ اگلے چھ ماہ تک بنا رہا تو مودی کو واپس لوٹنے اور پھر سے برسر اقتدار آنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ اگر بھاجپا کو گزشتہ انتخابات کی نسبت سو سیٹیں کم ملیںتو بھی جوڑ توڑ کر کے وہ سرکار بنا ہی لے گی۔ یہ بات دوسری ہے کہ مودی کو وزیر اعظم نہ بنائے اور ان کی جگہ وہ کسی دوسرے لیڈر کو آگے کر دیں اور وزیر اعظم بنوا دیں‘ کیونکہ مودی بہرحال عوام کی امیدوں پر پورا نہیں اترے ہیں اور انہوں نے عوام سے کئے گئے وعدے پورے نہیں کئے ہیں۔ شاید مودی خود ہی وزارت عظمیٰ سے جان چھڑا لیں اور اس طرح بھاجپا کی مشکل خود بخود آسان ہو جائے۔ اپوزیشن تو اس وقت اتنی گئی گزری ہے کہ وہ ہارے ہوئے مودی کو بھی للکار نہیں سکتی۔ اگر بھارت میں حقیقت میں کوئی برابر کی بنیاد پر اپوزیشن ہوتی تو ملک کو مودی سے دو برس پہلے ہی نجات مل جاتی۔ نوٹ بندی جیسی تاریخی بے وقوفی کے ذمہ دار لیڈر کو جو گھٹنے نہیں ٹِکوا سکی‘ وہ اپوزیشن بھی کیا اپوزیشن ہے؟ اپوزیشن لیڈروں کے مقابلے مودی ذاتی حیثیت سے بے داغ ہیں اور یہ وزیر اعظم اندرا گاندھی سے بھی زیادہ ڈٹ کر کام کرتا ہے‘ لیکن ظاہر ہے کہ کچھ مسائل بھی ہیں‘ جن کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اسے یہ لیڈر لوگ نہیں ہٹا سکتے‘ تو اپوزیشن کے کمزور ہونے کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو گا؟ ذرا یاد کریں 1967ء میں کانگریس کو الگ الگ صوبوں میں کس نے ہرایا تھا؟ کیا مرار جی نے؟ کیا چرن سنگھ نے؟ کیا اٹل جی نے؟ کیا موہن بھاگوت نے؟ نہیں! انا ہزارے اور بابا رام دیو نے! انہوں نے کانگریس کے خلاف فصل اُگائی‘ جسے مودی نے سینت مینت میں کاٹ لیا۔ 'مودی ہٹائو اور ملک بچائو‘ کا نعرہ دینا آسان ہے لیکن اس کی بازگشت ملک بھر میں پھیلا دینے کی طاقت کیا آج کی اپوزیشن میں ہے؟
اس قانون کو پارلیمنٹ خود رد کرے!
جیسا کہ میں نے تین دن پہلے لکھا تھا کہ شیڈول کاسٹ سے متعلق قانون بھاجپا کے گلے کی ہڈی بن گیا ہے‘ حالانکہ اس قانون کو دوبارہ پاس کرنے میں کانگریس کی مکمل حمایت رہی ہے‘ لیکن کانگریس اور اپوزیشن پارٹی اس کی ساری ذمہ داری اب بھاجپا کے سر مڑھ رہے ہیں تاکہ ملک کے سارے غیر شیڈول کاسٹ ووٹر بھاجپا کے خلاف ہو جائیں اور 2019ء میں مودی کی کشتی ڈوب جائے۔ بھاجپا اور جن سنگھ بنیادی صورت سے بنیا‘ برہمن پارٹی کے طور پر جانی جاتی رہی ہے۔ اگر اس کا یہی ووٹ بینک کھسک گیا تو کیا اس کی حالت مزید خستہ نہیں ہو جائے گی؟ بھاجپا لاکھ ڈھونگ کرے کہ ان شیڈول ذاتوں کی حمایتی ہے لیکن اسے پتا ہے کہ ان کے تھوک ووٹ اسے نہیں ملنے ہیں۔ اس نئے قانون کے خلاف ساری غیر شیڈول والی ذاتیں ایک جٹ ہو رہی ہیں اور وہ سڑکو ں پر اتر آئی ہیں۔ اسی لیے بھاجپا اب سوچ میں پڑی ہوئی ہے کہ اس گمبھیر صورتحال سے کیسے نکلا جائے۔ میرے خیال میں اس کے درست سلامت نکلنے کا راستہ ابھی ابھی کھل گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے سامنے ایک نئی درخواست آ گئی ہے‘ جس میں مانگ کی گئی ہے کہ پارلیمنٹ اس نئے قانون کے غیر آئینی ہونے کا اعلان کر دے‘ کیونکہ یہ انسانی حقوق کو کھاتا ہے اور لوگوں کا استحصال کرتا ہے۔ عدالت نے ابھی یہ بات نہیں مانی ہے کہ اس قانون پر عمل درآمد پر فی الفور روک لگا دی جائے‘ لیکن اس نے سرکار کو ڈیڑھ ماہ میں اس کا جواب دینے کے لیے کہا ہے۔ اس قانون کے خلاف سرکار کو چاہیے کہ وہ عدالت میں جانے سے پہلے سبھی پارٹیوں کی بیٹھک بلائے تاکہ جو کام بھی ہوں مکمل اتفاق رائے سے ہوں۔ یہ قانون اتنا غلط ہے کہ بھارت کی سب سے بڑی دلت لیڈر مایا وتی نے بھی اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ کے طور پر اس میں ترمیم کر دی تھی۔ یہ ٹھیک ہے کہ پارلیمنٹ نے اس زیادتی والے قانون کو بھاری اکثریت سے پاس کیا تھا لیکن اگر وہ چاہتی ہے کہ ملک میں عزت اور احترام کا ماحول بنا رہے تو اسے چاہیے کہ اس قانون کو وہ خود رد کرے۔ اسی میں شیڈول کاسٹ والوں کی بھی بھلائی ہے۔ اگر عدالت اسے غیر آئینی قرار دے دے گی تو سرکار اور پارلیمنٹ دونوں کی عزت پیندے میں بیٹھ جائے گی۔
کئی صوبائی سرکاروں نے ان ڈاکٹروں پر جرمانہ ٹھوک رکھا ہے‘ جو ڈگری ملنے کے بعد کچھ وقت کے لیے بھی گائوں میں جانے سے منع کرتے ہیں۔ یہ ڈاکٹر دس دس لاکھ روپے جرمانہ بھر دیتے ہیں لیکن گائوں میں نہیں جاتے۔ وہ شہروں میں رہ کر ذاتی پریکٹس کرتے ہیں اور کھلی ٹھگی کے ذریعے بیمار لوگوں سے لاکھوں روپے وصول کر لیتے ہیں۔