پاکستان اور بھارت کے وزرائے خارجہ کی نیویارک میں ہونے والی ملاقات رد ہونا کافی بد قسمتی کی بات ہے‘ لیکن اس سے بھی زیادہ برا یہ ہوا کہ دونوں ملکوں کی طرف سے ایک دوسرے کے لیڈروں کے لیے بے حد غیر ذمہ وارانہ بیان جاری ہوئے۔ اس ملاقات کو رد کرنے کا اعلان کرتے ہوئے بھارتی ترجمان نے کہا کہ اب وزیراعظم عمران خان کا اصلی چہرہ اجاگر ہوگیا اور ان کے ارادے بھی!اتنا سنتے ہی وزیر اعظم عمران خان نے اینٹ کا جواب پتھر سے دیا۔ انہوں نے مودی کا نام لیے بنا کہا کہ چھوٹے دماغ کے لوگ بڑی بڑی کرسیوں پہ بیٹھے ہیں۔ وہ مغرور ہیں۔ شاہ محمود قریشی اور سشما سوراج کی ممکنہ اور مجوزہ ملاقات کو رد بھارت نے کیا۔اسے رد کرنے کے تین سبب بھارت نے گنوائے۔ میں نے ان اسباب پر پہلے بھی بات کی تھی۔ اب ذرا تفصیل سے اس معاملے کا جائزہ لیتے ہیں۔ پہلا سبب‘ایک بھارتی جوان نریندر سنگھ کو پاکستانی فوج نے بے رحمی سے قتل کیا۔پاکستانی فوج اس الزام کو سختی سے مسترد کر چکی ہے۔ پاکستانی فوجی حکام کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ بھارتی اہلکار کی ہلاکت کے واقعے کی تحقیقات میں وہ مدد کو تیار ہیں۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ بھارت کی جانب سے اس واقعے کی چھان بین اور حقائق ڈھونڈنے کی کوشش کئے بنا ہی پاکستانی فوج پر الزام عائد کئے جا رہے ہیں۔ بھارت کے آرمی چیف بھی اس لفظی گولہ باری میں کسی سے پیچھے نہیں رہے‘ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ منہ سے آگ اگلنے میں سب پر سبقت لے گئے۔ اس سے یوں ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت کی جانب سے ایک واقعے کی سنجیدہ تحقیق کے بجائے اس سے سیاسی فائدے اٹھانے کی کوشش کی گئی۔ دوسرا سبب جو وزرائے خارجہ کی ملاقات رد کرنے کا سبب بتایا جاتا ہے ‘ وہ کشمیر کے تین پولیس والوں کا ان کے گھر سے اغوا اور ان کا قتل ہے۔کشمیر کے حالات بارے ہم اچھی طرح جانتے ہیں۔ اگر سکیورٹی اہلکار مارے گئے تو یہ کشمیر میں کسی عمل کا رد عمل ہی ہو سکتا ہے۔ اس میں پاکستان کا ہاتھ ڈھونڈنے سے قبل اپنی ذمہ داریاں تلاش کرنا چاہئیں۔ اس معاملے کی بھی ٹھوس تحقیقات ہونی چاہئے۔ تیسرا واقعہ جو بھارت کی جانب سے وزرا ئے خارجہ ملاقات نہ ہونے کا سبب قرار دیا گیا ہے ‘برہان وانی کی یاد میں ڈاک ٹکٹ کا اجرا ہے۔ مگر یہ یاد رہنا چاہیے کہ برہان وانی کشمیری حریت پسندوں کی نظر میں سورما ہے‘ اور پاکستان والے بھی اسے اسی نظر سے دیکھتے ہیں‘ اس لیے پاکستان میں اگر اس کی یاد میں ٹکٹ جا ری ہوا تو یہ اس برہان وانی کی یاد میں تھا جو ان کا ہیرو ہے‘ جیسا کہ بھارت کو اپنے ہیروز کی یاد کا حق ہے‘ ہم پاکستان والوں کو اس حق سے محروم نہیں کر سکتے۔ بہرکیف یہ تین اسباب گنوائے گئے ہیں‘جن کی وجہ سے وزرائے خارجہ کی ملاقات رد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ہمارے جوان کے سر کاٹے جانے کے حادثہ نے بھارت کے عوام میں کافی غصہ پیدا کردیا تھا۔ وزیراعظم مودی اس غصے سے کنارہ کشی کیسے کر سکتے تھے‘ لیکن انہیں یہ سوچنا چاہیے تھا کہ کیا بھارت پاک تعلقات کو ہم ایسے الگ تھلگ واقعے کے ہاتھوں گروی رکھ سکتے ہیں ‘ جس کے بارے ہمیں حقائق کا بھی پوری طرح علم نہیں ؟بے رحمانہ طریقے سے قتل قابل مذمت ہے ‘ مگر پاکستانی فوج تو اس واقعے سے لاتعلقی کا اظہار کر چکی ہے‘ کیا ہمارے پاس ایسا کوئی ثبوت ہے کہ اس واقعے کے لیے پاکستان کے کسی فوجی کی ذمہ داری ثابت کر سکیں؟اور پھر یہ قتل تو ملاقات کے اعلان سے دودن پہلے یعنی 18 ستمبر کا ہوا تھا۔ تو پھر بیس ستمبر کو بھارت سرکار نے ملاقات کا اعلان کیوں کیا؟ دودن بات کی گئی‘ ملاقات کے اعلان سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ نریندر سنگھ کے قتل پر بھارت سرکار نے کوئی دھیان نہیں دیا تھا ‘ مگر جب یہ طے پایا کہ وزرائے خارجہ ملاقات نہ ہو تو اچانک اس قتل کا بہانہ بنا دیا ۔اگر آزاد ذہن سے ملاقات رد کئے جانے کے فیصلے کے ارد گرد کے واقعات کی کھوج کی جائے تو بھارت سرکار کا وزن بے حد کم پڑ جائے گا۔ ہو سکتا ہے سرکار سے بہت سے چبھتے ہوئے سوالوں کے جواب ہی نہ بن پڑیں۔ سو اس ریت کو جتنا کریدیں گے اپنا مؤقف کمزور ہوگا اور سب کو پتہ چل جائے گا کہ ہماری سرکار نے ایک کھوکھلا سبب اور بھی کھوج نکالا‘ یہ کہ وزیر اعظم عمران خان کی سرکار نے 'دہشتگردوں‘ کی یاد میں ڈاک ٹکٹ جاری کئے‘ حالانکہ یہ کام عمران خان کے حلف لینے سے پندرہ دن پہلے ہوا‘تو اگر یہ کام ہماری سرکار کی نظر میں غلط ہے توعمران خان صاحب کو اس کا ذمہ دار کیسے قرار دے سکتے ہیں؟ ہماری سرکار کو اگر کوئی بہانہ ہی بنانا تھا تو اسے پہلے تاریخ ضرور چیک کر لینی چاہیے تھی ۔جن افسروں نے یہ ردی سبب بتایا اور اتنی اہم ملاقات رد کروا دی ‘ان کو کچھ نصیحت ضرور دی جانی چاہیے ۔یہاں ایک بنیادی سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ اس سرکار کو کون چلا رہا ہے ؟لیڈر یا افسر؟ اور افسروں کی نیت پر بھی شک اٹھتا ہے‘ وہ آخر کس سے مخلص ہیں؟ کسی سے ہیں بھی یا نہیں؟
جو تیسرا سبب بتایا گیا ہے ‘ملاقات کے رد ہونے کا ‘وہ بھی شک کے گھیرے میں ہے ۔کشمیر کے حالات خونریزی کے واقعات کو رد نہیں کر سکتے۔ جو بھارتی سکیورٹی فورسز کے ساتھ ہوا ‘ اگر وہ وحشی پن ہے تو جو کشمیریوں پر ہم ہوتا دیکھتے ہیں‘ اسے کیسے جائز کہہ سکتے ہیں۔ کشمیر کے حریت پسندوں کو پاکستان کی سیاسی اور سفارتی حمایت حاصل ہے‘ پاکستان نے اس چیز کو کبھی چھپایا نہیں۔ بے بنیاد واقعات کو بنیاد بنا کر ملاقات رد کرنا کون سی عقلمندی ہے ۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ واقعہ جان بوجھ کر اس وقت کروایا گیا ہوتاکہ پاک بھارت مذاکرات سے پہلے ہی دودھ میں مکھی پڑ جائے ۔مکھی تو پڑ گئی۔
اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی ٹھیک نہیں ہے ۔ہماری سرکار کب کیا کر بیٹھے گی ‘کچھ پتا نہیں ۔ہمارے وزیراعظم کا اچانک کابل سے لاہور چلے جانا اور نواز شریف کے یہاں شادی کی تقریب میں شرکت کرنا‘ یہ تو بڑا ناٹک والا اقدام تھا‘لیکن اس کے پیچھے سنجیدہ سوچ وچار کی کمی ویسے ہی تھی جیسی اس وزرائے خارجہ ملاقات کو اچانک رد کئے جانے کے پس منظر میں کارفرما نظر آتی ہے۔ پاک بھارت مذاکرات اس سے پہلے بھی صرف اس لیے رد کر دئیے گئے تھے کہ پاکستانی ہائی کمشنر حریت لیڈروں سے مل لیے تھے ۔حریت کے لیڈر پہلے بھی پاکستانی قونصل خانہ سے تعلق میں رہتے تھے اور ان سے وزیراعظم نرسیما رائو اور اٹل جی کی بات بھی چلتی رہتی تھی۔ وزیر اعظم عمران خان نے ملاقات کے رد ہونے پر مودی کے لیے جو بات کہی ‘وہ ویسی ہی ہے جیسا کہ مودی کے بارے میں راہول گاندھی کی ہوتی ہے یا راہول کے بارے میں بھاجپائیوں کی ہوتی ہے۔ گھریلو سیاست میں کسی پر کوئی لگام نہیں رہتی‘ لیکن بین الاقوامی سیاست میں ایک ایک لفظ سنبھل کر بولنا ہوتا ہے۔ میاں نواز شریف نے ہمارے سابق وزیراعظم من موہن سنگھ کی برابری دیہاتی عورت سے کر دی تھی‘ ایسا ہی کچھ وزیر اعظم عمران خان نے بھی کیا ہے۔ بڑی بڑی کرسیوں پر بیٹھنے والے لوگ حقیقت میں کتنے بڑے ہوتے ہیں؟ وزیر اعظم عمران خان کے بول نے تیکھے زخم دئیے ہیں۔ دوسری جانب شاہ محمود قریشی کشمیر کی بین بجاتے رہے اور سشما دہشتگردی کی رام کہانی دہراتی رہیں ۔پتا نہیں ہمارے اگلے چنائو تک پاک بھارت مذاکرات پٹڑی پر آئیں گے یا نہیں۔ چنائو کے وقت اگر پاکستان مخالف ماحول بھارت میں بنا رہے تو یہ مودی کے لیے مددگار ہی ہوگا۔ جناب عمران خان صاحب کے آنے پر جو نئی کرنیں پھوٹی تھیں ‘وہ ابھی سے بجھ سی گئی ہیں۔