تین ہندی صوبوں میں چنائو جیتنے کی خوشی میں تینوں کانگریسی وزرائے اعلیٰ نے کسانوں کے واجب الادا قرضوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ اس قرضہ معافی سے ان تینوں سرکاروں پر لگ بھگ پچاس ہزار کروڑ روپے کا بوجھ آن پڑا ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ قرض معافی کے اس وعدے نے ہی کانگریسی جیت کی بنیاد رکھی ہے۔ ایم پی‘ راجستھان اور چھتیس گڑھ‘ یہ تینوں آباد زمین والے صوبے ہیں۔ حال ہی میں ہونے والے ریاستی انتخابات میں کسانوں نے کانگریس کو جم کر ووٹ دیے‘ جس نتیجہ یہ نکلا کہ کانگریس ان صوبوں میں بھی جیت گئی‘ جہاں اس سے پہلے خاصے عرصے سے بھارتیہ جنتا پارٹی جیتتی رہی ہے۔ تینوں وزرائے اعلیٰ نے حلف لیتے ہی جو قرض معافی کا اعلان کیا‘ اس سے یہ بات لوگوں کے دلوں میں اتر گئی ہے کہ کانگریسی جو کہتے ہیں‘ وہ کرتے ہیں جبکہ بھاجپا لیڈر صرف جملہ بازی کرتے ہیں‘ زبانی جمع خرچ‘ عملی طور پر کچھ نہیں کرتے۔ یاد رہے کہ بھارت میں کسان ایک عرصے سے قرضوں کی معافی اور کاشت کاری کے حوالے سے سہولیات کی فراہمی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ابھی پچھلے مہینے ہی ہندوستان کے دارالحکومت دہلی میں کسانوں نے احتجاج کرتے ہوئے ''رام مندر نہیں، قرض معافی چاہئے‘‘ کے فلک شگاف نعرے لگائے تھے۔ کسان حکومت سے قرض معافی اور فصلوں کے ڈیڑھ گنا معاوضے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ لیکن یہاں پہلا سوال یہ اٹھتا ہے کہ مذکورہ تینوں صوبوں کی حکومتیں مطلوبہ پچاس ساٹھ ہزار کروڑ روپے لائیں گی کہاں سے؟ اپنے صوبوں کے بجٹوں میں سے یہ وزرائے اعلیٰ کیا کاٹیں گے اور کیا جوڑیں گے؟ بھاجپا کی وفاقی سرکار تو ان کو اس سلسلے میں کوئی سہارا دینے والی نہیں ہے کیونکہ وہ ایسے اقدام کو اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف سمجھتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک سوال یہ بھی ہے کہ زیادہ تر کسان بینکوں تک پہنچ ہی نہیں پاتے۔ وہ تو اپنے گائوں کے رسوخ داروں کے قرض دار بنے رہتے ہیں۔ ان کا قرض معاف کیسے ہو گا؟ حکومت ان تک رسائی کیسے ممکن بنائے گی؟ کمیشن کا کہنا ہے کہ قرض معافی کا فائدہ مشکل سے دس سے پندرہ فیصد کسانوں کو ہی مل پاتا ہے اور زیادہ تر کسان اس سے محروم ہی رہتے ہیں۔ گزشتہ پندرہ بیس برس سے قرض معافی کے اس رام بان کو سبھی پارٹیاں چلا رہی ہیں‘ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس کے نتیجے میں بھارت کے کسانوں کی غریبی دور ہو رہی ہے؟ ان کے مسائل کے حل کی کوئی راہ نکل رہی ہے؟ ان کی غریبی دور ہو نہ ہو‘ قرض معافی کا وعدہ اتنا بڑا لالچ ہے کہ اس کے سبب لیڈروں کی غریبی دور ہو جاتی ہے۔ وہ ووٹوں کی فصل کاٹ لے جاتے ہیں‘ اور برسر اقتدار آ کر اپنے مسائل ضرور حل کر لیتے ہیں۔
من موہن سرکار نے 2008-9ء میں ستر ہزار کروڑ کے قرض معاف کر کے اپنی واپسی پکی کروا لی تھی اور وہ واپس آ بھی گئے تھے۔ ان کی یہ گیم ان کے لئے فائدہ مند ثابت ہوئی تھی۔ اسی لیے اب راہول گاندھی نے کہا ہے کہ اگر مودی نے قرضے معاف نہیں کئے تو 2019ء میں اقتدار ملنے پر ہم معاف کریں گے۔ اس میں شک نہیں کہ قرض معافی کے سبب ہزاروں کسان خود کشیاں کرنے سے رک جائیں گے‘ لیکن ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ کئی کسان اس قرض کا استعمال کھیتی باڑی پر کرنے کی بجائے مکان بنانے‘ کار یا بائیک خریدنے اور دکھاوے یا نمائشی کاموں پر زیادہ کرتے ہیں۔ کسانوں کو فوراً راحت ملے‘ اس نظر سے ایک آدھ بار قرض معافی ٹھیک ہے‘ لیکن ان کی حالت حقیقت میں سدھارنی ہو تو فصل کی زمینی پیدائش کے لیے سخت نرخ باندھے جانے چاہئیں اور فصل بیمہ شدہ ہونی چاہیے۔ ان کے لیے بیج‘ کھاد اور آبپاشی کا بہتر انتظام ہونا چاہیے۔ اگر یہ سب ہو تو آخر کسان کی بھی غیرت ہوتی ہے۔ وہ آپ سے بے جا قرض لے گا ہی کیوں؟ اس طرح ہو جائے تو بھارت کا کسان اپنے مالی معاملات میں خود مختار ہو جائے۔ اس بات کا خیال رکھنے کی ضرورت ہو گی کہ قرض معافی کے عمل کو درست طور پر درست مقاصد کیلئے استعمال کیا جائے‘ اس کا ناجائز فائدہ نہ اٹھایا جائے۔
ٹرمپ کے خیمہ میں اُٹھا پٹخ
امریکہ کے وزیر دفاع جم میٹس کو مستعفی ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں جس طرح ان کے قریبی لوگوں کی جانب سے استعفے دیے جا رہے ہیں‘ ایسا شاید کسی بھی امریکی صدر کے دور میں نہیں ہوا۔ گزشتہ دو برسوں میں ٹرمپ کے دس بڑے مددگاروں نے ان سے اپنی جان چھڑائی ہے۔ ان میں وزیر خارجہ‘ وزیر دفاع‘ سلامتی کے مشیر‘ اٹارنی جنرل‘ وائٹ ہائوس کے سٹاف ڈائریکٹر وغیرہ سمیت کئی اہم عہدے دار شامل ہیں۔ کچھ نے خود استعفے دیے اور کچھ کو ٹرمپ نے نکال باہر کیا ہے۔ وجہ اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ ان لوگوں کا ٹرمپ کی پالیسیوں کے تحت ان کے ساتھ چلنا ناممکن ہو گیا تھا۔ لیکن ایسا صرف امریکہ میں ہی نہیں ہوتا‘ بھارت میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے اور اپنے اسی نریندر مودی کے دور میں‘ لیکن ٹرمپ نے اس معاملے میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی مات کر دیا ہے۔ ہمارے یہاں ریزرو بینک اور اکانومی معاملات کے متعدد افسران نے استعفے دیے ہیں‘ لیکن ہمارے لیڈروں کی موٹی کھال کو داد دینی پڑے گی۔ وہ کتنے ہی طنز اور بے عزتی برداشت کر لیں گے لیکن استعفیٰ دینے کے بارے میں سوچیں گے بھی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے باس سے نا مطمئن کبھی ہوتے ہی نہیں‘ چاہے وہ کتنی ہی بے عقلی کی باتیں کرے اور چاہے کتنے ہی نقصان دہ فیصلے کرتا رہے۔ لیکن امریکہ میں صورتحال بھارت سے خاصی مختلف ہے۔ امریکہ میں وزیر دفاع میٹس نے اپنے حقیقی باس یعنی ٹرمپ کی شام سے امریکی افواج کی واپسی والی پالیسی کی جم کر مخالفت کی اور انہیں صاف صاف الفاظ میں کہا کہ شام سے امریکی افواج کی واپسی غیر مناسب ہے‘ اس کے امریکہ پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ لیکن ٹرمپ ڈٹے رہے۔ ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ جس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اس معاملے میں ٹرمپ اپنی پالیسی کو ہی درست سمجھتے ہیں۔ اسی کے تحت انہوں نے شام سے اپنے دو ہزار اور افغانستان سے نصف یعنی سات ہزار فوجی جوان واپس بلانے کا اعلان کر دیا۔ ٹرمپ کی دلیل یہ ہے کہ امریکہ کسی دوسرے ملک کے لیے اپنا پیسہ اور خون کیوں بہائے؟ وہ یہ بھی نہیں چاہتے کہ امریکہ نیٹو ملکوں کی مدد کرتا رہے۔ وہ دوسری جنگ عظیم کے بعد بنائی گئی امریکہ کی عالمی پالیسی کو الٹ دینا چاہتے ہیں۔ اس میں اپنی سوچ اور مرضی کے مطابق تبدیلیاں کرنا چاہتے ہیں۔ اگر مغرب‘ ایشیا اور افغانستان کے علاقوں سے امریکی فوجیں ہٹا لی جائیں گی تو ظاہر ہے کہ شام‘ روس اور ایران کو فائدہ ہو گا‘ لیکن ٹرمپ کی دلیل ہے کہ ان ممالک کو داعش سے سیدھے لڑنے دیں۔ اس سے لڑ کر ہم ان ملکوں کی مدد کیوں کریں اور افغانستان میں طالبان یا داعش کوئی بھی حکومت کرے‘ ہماری بلا سے! ہمارا کیا بگڑتا ہے؟ جو بھی اقتدار میں آئے گا‘ ہم اسے پٹا لیں گے‘ یعنی اپنی مرضی کے مطابق ڈھال لیں گے۔ جو بھی ہو ٹرمپ کے اس فیصلے سے بھارت کی مشکلات بڑھے بنا نہیں رہیں گی۔ میٹس تو بھارت کے دوست ہی تھے۔ انہوں نے ہی امریکی پابندیوں کو بھارت پر نہ تھوپنے کی چھوٹ دلوائی تھی۔ بھارت سرکار کے دونوں وزرا سشما سوراج اور نرملا سیتا رمن کو اب پہلے سے زیادہ خبردار اور چوکنا رہنا پڑے گا کیونکہ اب بھارت کی حمایت کرنے والا میٹس ٹرمپ انتظامیہ میں موجود نہیں رہا۔