"DVP" (space) message & send to 7575

ریزرویشن :اندھے سے کانابھلا

بھارت کی مرکزی سرکار کے اس اعلان کی کوئی بھی مخالفت نہیں کرسکتا کہ ملک میں اکانومی کے لحاظ سے جو محروم لوگ ہیں ‘انہیں بھی اب تعلیم اور سرکاری نوکریوں میں دس فیصد ریزرویشن ملے گا۔ نئی دلی میں بی جے پی کے قومی کنونشن کے اختتامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے نریندر مودی نے اس بات پر زور دیا کہ نئے انتظام میں معاشرے کے دیگر طبقوں کے لیے موجودہ کوٹے کو کم نہیں کیا جائے گا۔ اس نئے ریزرویشن نے سبھی ذات والوں کی حد کو کراس کر دیا ہے۔ اس نے ایک حد اور بھی کراس کی ہے۔ یہ صرف ہندوئوں کے لیے نہیں ہے ‘یہ بھارت کے ہر اس باشندے کے لیے ہے‘جس کی آمدنی آٹھ لاکھ سالانہ سے کم ہے یا جس کے پاس پانچ ایکڑ سے کم زمین ہے ۔ یعنی وہ کوئی مسلم ‘کوئی عیسائی ‘کوئی یہودی‘ بہائی بھی ہو سکتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ ریزرویشن ذات ‘ فرقہ یا مذہب کی حدسے بھی اوپر اٹھ گیا ہے۔اپوزیشن پارٹیوں کو اس سے بڑی تکلیف ہو رہی ہے ۔ اپوزیشن والے کہہ رہے ہیں کہ مودی نے یہ چناوی دائو مارا ہے۔ اگلے تین‘ چار ماہ میں یہ اعلان قانون کیسے بن پائے گا؟پہلے تو پارلیمنٹ کے دونوں سدن اسے 2/3 کی اکثریت سے پاس کریں ‘پھر آدھی سے زیادہ ودھان سبھائیں پاس کریں ‘تبھی یہ قانون بن سکتا ہے۔ یعنی یہ صرف چناوی جملہ ہے‘ اگر یہ قانون بن بھی جائے تو اس آئینی ترمیم کو بھارتی سپریم کورٹ غیر قانونی اعلان کر دے گی‘ کیونکہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں 1992ء کے فیصلے کے مطابق پچاس فیصد سے زیادہ ریزرویشن نہیں دیا جا سکتا۔ان کی رائے میں آئین صرف سماجی حوالوں اور تعلیم کے معاملات میں ریزرویشن دیتا ہے۔ اکانومی کی نظر سے محروموں کو نہیں‘ لیکن یہ ریزرویشن پہلے سے دیے جا رہے پچاس فیصد ریزرویشن میں سیندھ نہیں لگائے گا۔اب ریزرویشن پچاس فیصد کی جگہ ساٹھ فیصد ہوگا ۔یہ بات دوسری ہے کہ نوکریاں کم ہو رہی ہیں اور ریزرویشن بڑھ رہا ہے ۔
اپوزیشن کی یہ دلیل بالکل درست ہے کہ یہ مودی کا چناوی حربہ ہے۔ وہ چناوی حربہ ہے تو ‘ہے ‘اس میں برائی کیا ہے ؟کیا آپ بھی چناوی حربے نہیں مار رہے ہیں ؟ مندروں کے چکر لگا رہے ہیں ‘جنیئو دھارن کر رہے ہیں ‘نصف ننگے ہوکر پوجا کی تھالی پھرا رہے ہیں ‘کسانوں کے قرضے معاف کر رہے ہیں ؟ اگر کسی بھی حربے سے لوگوں کا بھلا ہو رہا ہے تو اس حربے کا خیر مقدم ہے۔ اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔ نرسمہا رائو سرکار نے بھی اس دس فیصد ریزرویشن کا اعلان کیا تھا۔ کانگریس کے مینی فیسٹو میں بھی یہی تھا۔ مایا وتی ‘وسندھر راجے اور کیرل کی سرکاروں نے اونچی ذات والے غریب لوگوں کو بھی ریزرویشن دینے کی مانگ کی تھی۔
لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ غریب کون ہے ؟ مودی کے مطابق وہ ہے ‘جو آٹھ لاکھ روپے سالانہ کماتا ہے یا وہ جو 65000مہینہ کماتا ہے۔اس سے بڑا مذاق کیا ہو سکتا ہے ۔ایسے لوگوں کے بچوں کو تعلیم اور نوکریوں میں آپ ریزرویشن دیں گے تو ملک کے کروڑوں غریب برہمن‘ راجپوت‘ ویش ‘مراٹھا ‘جاٹ ‘گجر ‘کاپو وغیرہ لوگ کیا کریں گے ؟ میںتو نوکریوں میں کسی بھی طرح کے ریزرویشن کا مخالف ہوں۔ نوکریاں خالص قابلیت و صلاحیت کی بنیاد پر دی جانی چاہئیں۔ ریزرویشن سبھی سرکاری اور غیر سرکاری تعلیمی اداروں میں دی جانی چاہیے اور ہر ایک غریب بچے کو دی جانی چاہیے۔ کسی بھی ذات اور فرقے کے (ملائی دارپرت ) والے طبقے کے آدمی کو کوئی بھی ریزرویشن نہیں دیا جانا چاہیے۔ پھر بھی ذات کی بنیاد پر اندھا ریزرویشن دینے کی بجائے یہ (مالی حالت پر)کانا ریزرویشن بہتر ہے ۔ مودی حکومت نے اقتصادی طور پر کمزور لوگوں کے لیے تعلیم اور سرکاری نوکریوں میں ریزرویشن کا اعلان اس وقت کیا ہے ‘ جب لوک سبھا انتخابات محض تین ماہ کی دوری پر ہیں۔ انتخابات آنے تک شاید اس قسم کے چونکا دینے والے کچھ اور اعلانات بھی سامنے آئیں۔ یاد رہے کہ 2015 ء کی انتخابی ریلی کے دوران نریندر مودی خود اضافی ریزرویشن کو گمراہ کن قرار دے چکے ہیں‘ مگر لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کوئی رسک نہیں لینا چاہتی‘ اس لیے یہ اعلان کیا۔ آئین میں پسماندہ اور کمزور طبقات کے لیے ریزرویشن کا انتظام کیا گیا ہے‘ تاکہ پسماندہ طبقات کی پسماندگی ختم کرنے میں مدد فراہم کی جائے‘ مگر آئین میں پسماندگی سے مراد سماجی اور تعلیمی پسماندگی کو تسلیم کیا گیا ہے۔ اس میں اکانومی کا زمرہ شامل نہیں ہے۔ نر سمہا راؤ نے 1991ء میں اقتصادی بنیاد پر 10فیصد ریزرویشن دینے کا فیصلہ کیا مگر سپریم کورٹ کے نو ججوں پر مشتمل بینچ نے اندرا ساہنی بنام بھارت سرکار کیس میں یہ کہتے ہو ئے خارج کر دیا کہ ریزرویشن کی بنیاد آمدنی اور پراپرٹی کو نہیں مانا جا سکتا۔ 
پڑوسی ممالک کی اقلیتوں کا استقبال 
لوک سبھا نے گزشتہ دنوں بہت ہی زیر بحث مدعا پر ایک بل پاس کر دیا۔ اس شہریت بل کا بنیادی مقصد تین پڑوسی ممالک پاکستان‘افغانستان اور بنگلہ دیش سے 31 دسمبر 2014ء سے قبل آنے والے غیر مسلم لوگوں کو بھارتی شہریت دینا ہے ‘مطلب ان ممالک کا اگر کوئی ہندو‘عیسائی ‘ بودھ ‘سکھ ‘جین یایہودی شہری آکر بھارت میںقیام کرناچاہے تو انہیں چھوٹ ملے گی اور ان سے قانونی دستاویزات وغیرہ نہیں مانگی جائیں گی‘ دوسرے الفاظ میں بھارت سرکار ہر طرح سے ان کی مدد کر ے گی۔ ویسے تو بھارت میں سبھی کو اس قانون کا خیر مقدم کرنا چاہیے ‘اس کے دو سبب ہیں: پہلا یہ ہے کہ یہ تین ملک کسی زمانے میں ہندوستان ہی تھے ۔ ان علاقوں میں مسلم اور غیر مسلم صدیوں سے ساتھ ساتھ رہتے رہے ہیں ‘لیکن گزرے کچھ برسوں میں غیر مسلم مسائل کا شکار ہیں۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے ہندوؤں میں سے بعض مبینہ طور پر بھارت آکر رہنا چاہتے ہیں۔ اگر بھارت ان کے لیے اپنی بانہیں پسارتا ہے تو اس میں کچھ برائی نہیں ہے ۔یہ فطری ہی ہے‘ لیکن آسام اور مغربی بنگال کی ترن مول کانگریس جیسی پارٹیوں نے اس بل کے خلاف سنگرام چھیڑ دیا ہے۔ آسام کی پارٹی نے تو بھاجپا سے اپنا اتحاد بھی ختم کر دیا ہے ۔ اس کا سبب یہ نہیں کہ یہ دونوں جماعتیں ہندو مخالف ہیں یایہ بنگلہ دیشی ہندوئوں کے دشمن ہیں۔ایسا نہیں ہے ۔ سچائی یہ ہے کہ ان دونوں صوبوں میں سیاسی پارٹیوں کو خوف ہے کہ اس قدم سے ان کا ہندو ووٹ بینک اب کھسک کر بھاجپا کے پالے میں جا بیٹھے گا۔ ان کا یہ خوف درست ہے‘ لیکن ہم یہ نہ بھولیں کہ یہی اتحاد مسلم ووٹ بینک پٹانے کے چکر میں آسام اور مغربی بنگال کے شہریت رجسٹر میں بنگلہ مسلم کو دھنسانے کے لیے تیار رہے ہیں۔ یعنی یہ معاملہ ہندو مسلم کا اتنا نہیں ہے ‘ جتنا کرسی کا ہے۔ میرے خیال میں پڑوسی ملکوں کے شہری بھی ہندوستان دھرتی کے ہی بیٹے ہیں۔ ابھی72 برس پہلے تک پاکستان اور بنگلہ دیش ہندوستان کے ہی اَنگ تھے ۔ پانچ چھ سو برس پہلے تک نیپال ‘بھوٹان ‘برما ‘ سری لنکا وغیرہ سبھی پڑوسی ملک ہندوستان ہی کہلاتے تھے۔ اس لیے پڑوسی ملکوں کے دکھی شہریوں کے بارے میں ہندوستان کا رویہ ہمیشہ ذمہ دارانہ ہونا چاہیے ۔جب 1971 ء میں لاکھوں بنگالی مسلم بھارت میں آ گئے تھے تو بھارت نے ان کا استقبال کیا یا نہیں ؟ تاہم یہ سب ماضٰی کی باتیں ہیں۔ مگرشہریت کے بل کے خلاف شمال مشرقی ریاست آسام میں مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال رہی اور جھڑپوں میں 5 افراد زخمی بھی ہوئے۔ اس بل کی مخالفت کرنے والی سیاسی جماعتوں اور شہریوں کا کہنا ہے کہ بل کے تحت غیر قانونی طور پر بنگلہ دیش سے آنے والے ہندو تارکین وطن کو شہریت دی جائے گی، جو مارچ 1971 میں آسام آئے تھے اور یہ 1985 ء کے آسام معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں