رافیل سودے کے بارے میں بھارت سرکار نے عدالت کے سامنے جو دلیل پیش کی ہے‘ وہ بالکل لچرپچر ہے۔ وہ سرکار کی پوزیشن کو کمزور کرتی ہیں۔ سرکار کا کہنا ہے کہ ارون شوری‘ یشونت سنہا اور پرشانت بھوشن نے جو درخواست سپریم کورٹ میں لگائی ہے‘ وہ رد کی جانی چاہیے کیوں کہ ایک تو وہ دفاعی سودے کے مخفی راز کو ظاہر کرتی ہے‘ دوسرا‘ وہ خفیہ سرکاری دستاویز کی چوری پر مشتمل ہے اور تیسرا‘ وہ سرکار کی خود مختاری پر سوالیہ نشان لگا دیتی ہے ۔ ان دلائل سے موٹی موٹی کیا آواز نکلتی ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے ورنہ سانچ کو آنچ کیا؟ جو خفیہ دستاویز ''ہندو‘‘ اخبار نے شائع کی ہیں‘ کیا ان سے ہمارا جنگی ساز و سامان کا کوئی راز بھارت کے دشمنوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے؟ بالکل نہیں۔ ان دستاویزات سے تو صرف اتنی بات پتا چلتی ہے کہ ساٹھ ہزار کروڑ روپے کا سودا کرتے وقت وزارت دفاع کو پوری چھوٹ نہیں دی گئی تھی۔ اس کے سر کے اوپر بیٹھ کر وزیر اعظم اور ان کا آفس فرانس کی کمپنی داسو اور سرکارکے ساتھ برابر کی بنیاد پر سودے بازی کر رہے تھے۔ بھارتی وزیر اعظم اور ان کا دفتر کسی بھی سرکاری سودے پر نگرانی رکھیں‘ یہ تو اچھی بات ہے لیکن اس اچھی بات کے اجاگر ہونے پر آپ کے ہاتھ پائوں کیوں پھول رہے ہیں؟ آپ پریشان کیوں ہو رہے ہیں؟ ہمارے بھارتی وزیر اعظم اور فرانسیسی صدر نے اس سودے کا اعلان ایک برس پہلے ہی 2015ء میں کر دیا تھا۔ اس بیتے ہوئے ایک برس میں فرانسیسی صدر کی محبوبہ کو انیل انبانی کی کمپنی نے ایک فلم بنانے کے لیے کروڑوں روپے بھی دیے تھے۔ الزام ہے کہ بدلے میں اس سودے میں اسے حصہ داری بھی ملی ہے۔ اگر اس سب گورکھ دھندے سے بھارت سرکار کا کچھ لینا دینا نہیں ہے تو وہ اپنے خم ٹھوک کر رافیل سودے پر کھلی بحث کیوں نہیں چلاتی؟ وہ ڈری ہوئی کیوں ہے؟ سرکار سے اس کی سودے بازی کا اگر عوام حساب مانگتے ہیں تو اس میں اس کی خود مختاری کا کون سا نقصان ہو رہا ہے؟ وہ عوام کی نوکر ہے یا مالک ہے؟ عدالت نے اس دستاویز کے پوشیدہ راز کی دلیل پہلے سے ہی رد کر دی ہے۔ اب چنائو کے اس آخری دور میں اگر ججوں نے کوئی دو ٹوک فیصلہ سنا دیا تو مودی کے مستقبل پر اس کا گہرا اثر ہو گا۔ جیسے راجیو گاندھی پر بوفورس کی توپیں تادیر گرجتی رہی ہیں۔ رافیل کے جہازوں کی کان پھوڑو آواز (کان پھاڑ دینے والی آواز) چنائو کے بعد بھی گونجتی رہے گی۔
بنا بد عنوانی لیڈر گیری کیسی؟
مجھ سے درجنوں اخباروں‘ پڑھنے والوں اور دوستوں نے کہا ہے کہ ہم 'چور‘ اور بد عنوان نمبر1 جیسے الفاظ پر آپ کے رد عمل کا انتظار کر رہے ہیں۔ آپ اس مدعا پر چپ کیوں ہیں؟ میرا جواب یہ ہے کہ چپ اس لیے رہے ہیں کہ مدعا ہی اپنے آپ میں بہت کچھ بول رہا ہے۔ دونوں اطراف سے زیادتی ہو رہی ہے۔ اگر راہول گاندھی مودی کو چور کہہ رہے ہیں اور بار بار کہہ رہے ہیں تو مودی کو غصہ آ گیا اور وہ ایک بار راجیو گاندھی کو بد عنوان نمبر ون بول پڑے تو حساب برابر ہو گیا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ مودی نے یہ بات جس طرح سے کہی‘ وہ طریقہ غلط تھا‘ یعنی راجیو کلین مین کی طرح شروع ہوئے اور مرے بد عنوان کی طرح! ان کے مرنے کو بد عنوان سے جوڑنا یا بوفورس سودے سے جوڑنا بھارتی لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا ہے۔ وہ تو بھارت کے مفاد کی خاطر قتل ہوئے ۔ یہ کام سری لنکا کے تامل شدت پسندوں نے کیا تھا۔ ان کا بوفورس سے کیا لینا دینا تھا؟ مانا جا سکتا ہے کہ مودی کی زبان پھسل گئی۔ جس زبان کا کام دن رات چلتے ہی رہنا ہے‘ اس کا کبھی نہ کبھی پھسلنا فطری ہے‘ لیکن مودی نے اپنی پھسلن کو آج پھر درست بتایا ہے۔ تو نے مجھے چور کہا ہے تو میں کہوں گا تو چور‘ تیرا باپ چور! یہ لیول ہے‘ ہماری سیاست کا۔ یہ تو سب کو پتا ہے کہ بنا چوری یا بد عنوانی کے آج آپ سیاست کر ہی نہیں سکتے۔ چنائو لڑنے کے لیے اربوں کھربوں روپے چاہئیں۔ کہاں سے لائیں گے آپ‘ اتنے روپے؟ آپ کو رافیل اور بوفورس جیسے سودوں میں روپے کھانے ہی پڑیں گے۔ اگر آپ کو پیسے نہیں کھانے ہیں تو سیاست میں آپ جاتے ہی کیوں ہیں؟ مجھے اس راز کا پتہ 1957ء میں ہی چل گیا تھا۔62 برس پہلے اس چنائو میں متحرک رہتے وقت ہی میں نے عزم کر لیا تھا کہ میں چنائو کی سیاست میں کبھی بھی حصہ نہیں لوں گا‘ کیوں کہ میں بد عنوانی نہیں کروں گا۔ میرے ساتھ تحریک میں متحرک رہنے والے لڑکے آگے جا کر وفاق میں وزیر بنے اور صوبوں میں وزیر اور وزرائے اعلیٰ بنے۔ سب کو سیاست کی اس مجبوری کے آگے خود کو سرنڈرکرنا پڑا۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ اگر ایک غریب اور ان پڑھ باشندہ ایمانداری کی زندگی جیتا ہے تو وہ ملک کے بڑے بڑے لیڈروں سے بھی بڑا ہے۔ آپ بد عنوانی کیے بنا آج لیڈر بن ہی نہیں سکتے۔ بد عنوانی اور نیتا گیری کا ساتھ چولی اور دامن کی طرح ہے۔ غالب نے کیا خوب کہا تھا 'جس کو ہو دین و دل عزیز‘ اس کی گلی میں جائے کیوں؟
گوگوئی: یہ جانچ ہے یا مذاق؟
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن گوگوئی کا معاملہ اب اور الجھتا جا رہا ہے۔ ایک دوسرے جج ڈی وائی چندر چور نے جانچ کمیٹی کے چیئرمین ایس کے بوبدے کو خط لکھ کر مانگ کی ہے کہ زبردستی کے اس معاملہ کو سپریم کورٹ کے سبھی ججز کی کمیٹی کو سننا چاہیے اور اس کمیٹی میں اسی عدالت کی تین ریٹائرڈ خاتون ججوں کو بھی جوڑا جانا چاہیے۔ چندر چور نے یہ سجھائو اس لیے دیا کہ اس مظلوم عورت نے موجودہ جانچ کمیٹی کے برتائو پر عدم اطمینان ظاہر کیا ہے اور اس کا بائیکاٹ کر دیا ہے۔ اس کمیٹی سے ایک جج نے پہلے ہی کنارہ کر لیا ہے‘ کیوں کہ اس خاتون نے اس جج کی گوگوئی کے ساتھ نزدیکی پر اعتراض کیا تھا۔ اب کمیٹی کا کہنا ہے کہ اگر وہ متاثر خاتون تعاون کرے گی تو یہ کمیٹی یک طرفہ شنوائی کی بنیاد پر اپنا فیصلہ دینے کے لیے مجبور ہو جائے گی۔ میں اس کمیٹی سے پوچھتا ہوں کہ اگر وہ خاتون شنوائی کے وقت ایک خاتون وکیل کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتی ہے تو آپ کو اعتراض کیوں ہے؟ جانچ کی ساری کارروائی کو ریکارڈ کرنے کی مانگ وہ عورت کر رہی ہے تو اس میں ڈر کی بات کیا ہے؟ یہ کیوں کہا جا رہا ہے کہ جانچ کی رپورٹ کو راز میں رکھا جائے گا اور اور صرف بھارتی چیف جسٹس کے حوالے کی جائے گی‘ اس سے بڑا مذاق کیا ہو گا؟ اگر یہی کرنا ہے تو جانچ ہی کیوں کی جا رہی ہے؟ سچائی تو یہ ہے کہ جانچ کے دوران گوگوئی کو چھٹی پر چلے جانا چاہیے تھا یا الزام لگانے والی عورت کے خلاف ہتک عزت کی رپورٹ لکھوا کر اس کے خلاف سخت کارروائی کرنی چاہیے تھی۔ لیکن اب جو کچھ ہو رہا ہے‘ یہ جانچ نہیں‘ جانچ کی نوٹنکی ہے۔ اس کے سبب بھارت کی سب سے اونچی عدالت کی عزت پیندے میں بیٹھی جا رہی ہے۔ گوگوئی نے اس عورت کے ساتھ جو زیادتی کی یا نہیں کی‘ اس کے سبب جتنی بد نامی ہو گئی (جو کہ ذاتی ہے) اس سے بھی زیادہ بد نامی اب بھارتی سپریم کورٹ کی ہو گی۔ یہ معاملہ ایسا ہے‘ جس میں گواہ کوئی نہیں ہے‘ ثبوت کوئی نہیں ہے۔ اس میں جانچ کمیٹی کیا کرے گی؟ اس کے علاوہ اصلی جانچ دوسرے والی ہے‘ جس میں یہ معلوم کیا جانا ہے کہ کون سے لالچی لوگوں نے اس معاملے میں گوگوئی کو زبردستی پھنسانے کی کوشش کی ہے۔ یہ جانچ پہلے ہوتی تو کہیں بہتر ہوتا۔
اگر ایک غریب اور ان پڑھ باشندہ ایمانداری کی زندگی جیتا ہے تو وہ بھی ملک کے بڑے بڑے لیڈروں سے بھی بڑا ہے۔ آپ بد عنوانی کیے بنا آج لیڈر بن ہی نہیں سکتے۔ بد عنوانی اور نیتا گیری کا ساتھ چولی اور دامن کی طرح ہے۔ غالب نے کیا خوب کہا تھا 'جس کو ہو دین و دل عزیز‘ اس کی گلی میں جائے کیوں؟