گجرات (بھارت) میں ساور کنڈ کے ایک مسلم خاندان نے انسانیت کی بہت اونچی مثال قائم کر دی ہے۔ میاں بھیکو قریشی اور بھانو شنکر پنڈیا‘ دونوں مزدور تھے۔ چالیس برس پہلے ایک ہی جگہ مزدوری کرتے کرتے دونوں کی دوستی ہو گئی تھی۔ پنڈیا نے شادی نہیں کی تھی۔ وہ اکیلا رہتا تھا۔ کئی برس پہلے اس کا پائوں ٹوٹ گیا۔ وہ بڑی تکلیف میں رہتا تھا۔ اس کے دوست قریشی نے اس سے گزارش کی کہ وہ اس کے (قریشی خاندان کے) ساتھ رہا کرے۔ پنڈیا مان گیا۔ ان کے ساتھ رہنے لگا۔ قریشی کے تین لڑکے تھے ابو‘ نصیر اور زبیر۔ تینوں کی شادیاں ہو گئیں۔ پھر بچے ہو گئے۔ یہ بچے پنڈیا کو بابا کہتے تھے اور قریشی کی بہوئیں روز صبح اٹھ کر پنڈیا کے پائوں چھوتی تھیں۔ پنڈیا کے لیے روز سبزیوں والے طعام بنتے تھے۔ تین برس پہلے بھیکو قریشی کی وفات ہو گئی۔ یہ واقعہ قریشی صاحب کے گہرے دوست پنڈیا کے لیے نہایت ہی افسوسناک ثابت ہوا۔ اس کا دل ٹوٹ گیا۔ وہ بیمار رہنے لگا۔ اس پورے خاندان نے پنڈیا کی خدمت بھی اسی طرح دل سے کی‘ جیسے قریشی صاحب کے وقت کی جاتی تھی۔ گزشتہ ہفتے پنڈیا کا آخری وقت آ پہنچا تو انہیں گنگا کا پانی منگوا کر پلوایا گیا۔ جب اس کی موت ہوئی تو قریشی خاندان نے طے کیا کہ اس کو ویسے ہی وداعی دی جائے گی جیسے کسی براہمن کو دی جانی چاہیے۔ اس مسلم فیملی کے بچے ارمان نے نئی دھوتی اور جنیئو پہنا اور اپنے 'ہندو بابا‘ کا سنیچر کو اگنی سنسکار (آخری رسومات) کیا۔ یہ فیملی دن میں پانچ بار نماز پڑھتی ہے اور بڑی عقیدت سے روزے رکھتی ہے۔ اگنی سنسکار کرنے والے بچے ارمان نے کہا ہے کہ وہ اپنے 'دادا جی‘ کی بارہویں پر اپنا 'مُنڈن‘ (بال کٹوانا) بھی کرائے گا۔
یہ حوالہ جب میں نے ٹائمز آف انڈیا میں پڑھا تو میری آنکھیں بھر آئیں۔ میں سوچنے لگا کہ قریشی فیملی کا ایسا کرنا کیا اسلام کے خلاف ہے؟ اگر میں بھارت میں کسی ملا‘ مولوی سے پوچھتا تو وہ کہتے کہ یہ قریشیوں کی کافرانہ حرکت ہے‘ یہ اسلام کے خلاف ہے۔ بالکل یہی بات مجھے ہندو پونگا پنڈت بھی کہتے‘ اگر کوئی پنڈیا فیملی کسی قریشی یا انصاری کو ایسی آخری وداعی دیتی تو۔ لیکن مذہب کے ان ٹھیکے داروں سے میں پوچھتا ہوں کہ کیا مذہب کے معنی ان آخری رسومات میں چھپے ہیں۔ کیا مذہب‘ خدا اور انسان کے رشتوں میں ان روایات کی اہمیت سب سے زیادہ ہے؟ میرے نزدیک قریشی خاندان کے اس عمل نے اسلام کی عزت بڑھائی ہے۔ میں اسے مبارک باد دیتا ہوں۔
امیت شاہ کا مؤقف
بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے یومِ ہندی کے موقع پر کوئی ایسی بات نہیں کی جس پر کوئی ذرا سے بھی اعتراض کر سکے‘ لیکن پھر بھی کانگریس اور جنوب کے بھارتی لیڈروں نے ان کے مؤقف کی سخت مخالفت شروع کر دی ہے۔ مسلم لیڈر اسدالدین اویسی نے بھی بھاجپا مخالفین کے آواز میں آواز ملا دی ہے۔ ان تامل‘ کنڑ‘ بنگلہ اور مسلم لیڈروں کو بھاجپا کی مخالفت کرنی ہے‘ اسی لیے انہوں نے ہندی مخالف شور و غل مچانا شروع کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امیت شاہ ہندی کو سب پر تھوپنے کے لیے دیگر بھارتی زبانوں کا گلا گھونٹنا چاہتے ہیں۔ یہ سراسر غلط اور جھوٹ ہے۔ کیا امیت شاہ ہندی زبان والے ہیں؟ نہیں ہیں۔ وہ اویسی‘ کمار سوامی‘ نارائن سوامی‘ وائکو اور ممتا بینر جی کی طرح غیر ہندی زبان والے ہیں۔ ان کی مادری زبان ہندی نہیں‘ گجراتی ہے۔ اسی لیے جو الزام سیٹھ گووند داس‘ ڈاکٹر لوہیا اور مجھ پر پچاس سال پہلے لگائے جاتے تھے‘ وہ امیت شاہ پر نہیں لگائے جا سکتے۔ دوسری بات‘ امیت شاہ نے اپنے بھاشن میں کئی بار بھارتی زبانوں کی اہمیت کو دہرایا ہے۔ ان کے بھاشن میں سے ایک لفظ بھی ایسا نہیں کھوجا جا سکتا جس کی بنیاد پر یہ ثابت کیا جا سکتا ہو کہ وہ کسی بھی بھارتی زبان کو ہندی کے آگے بے عزت کرنا چاہتے ہیں۔ تیسری بات‘ انہوں نے انگریزی کی غلامی پر حملہ کیا ہے‘ جو بالکل ٹھیک کیا ہے۔ اگر ہمارے سرکاری کاموں‘ عدالتوں‘ سکولوں‘ ہسپتالوں‘ ودھان سبھائوں‘ ایوانوں اور روزمرہ کی زندگی سے انگریزی کا بول بولا ختم ہو گا‘ تو کیا ہو گا؟ سارا ملک آپس میں جڑے گا۔ ابھی صرف انگریزی دان‘ جن کی تعداد پانچ تا سات کروڑ سے زیادہ نہیں‘ آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ کیا یہ سچا اور پورا جڑائو ہے؟ ایک سو تیس کروڑ لوگوں کو آپس میں کون سی زبان جوڑ سکتی ہے؟ وہ صرف ایک زبان ہو سکتی ہے اور وہ ہے ہندی۔ اس میں امیت شاہ نے کیا غلط کہہ دیا؟ ہندی کا وہ کردار قطعی نہیں ہو گا جو انگریزی کا ہے۔ اگر ہندی بھی انگریزی کی طرح ظلم اور ٹھگی کا کردار نبھائے گی تو اس کا سب سے بڑا مخالف میں ہوں گا۔ اس میں امیت شاہ جیسے لوگ بھی میرے ساتھ ہوں گے۔
مقبوضہ کشمیر میں نئی پہل کا موقع
مقبوضہ کشمیر میں پابندی لگے پورا ڈیڑھ ماہ ہو چکا ہے۔ سرکار کہتی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی حالت ٹھیک ٹھاک ہے۔ کوئی پتھر بازی نہیں ہو رہی ہے۔ کوئی گولے باری یا لاٹھی بازی نہیں ہو رہی ہے۔ نہ لوگ مر رہے ہیں اور نہ ہی زخمی ہو رہے ہیں۔ مریضوں کے علاج کے لیے ہسپتال کھلے ہوئے ہیں۔ ہزاروں آپریشن ہوئے ہیں۔ لوگوں کو راشن وغیرہ بھی ٹھیک سے ملتا رہے‘ اس کے لیے دکانیں کھلی رہتی ہیں۔ لیکن میں نے اپنے کشمیری دوستوں اور لیڈروں سے لینڈ لائن ٹیلی فون پر بات کی‘ کچھ جیل سے چھوٹے کارکن بھی دہلی اور گروگرام آ کر مجھ سے ملے ہیں۔ وہ جو کہہ رہے ہیں‘ وہ اس کے بالکل الٹ ہے‘ جو دعوے بھارتی حکومت کی جانب سے کیے جا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں لوگ بے حد تکلیف میں ہیں۔ سڑکوں پر کرفیو لگا ہوا ہے۔ سکول کالج بند ہیں۔ سیلانیوں نے کشمیر آنا لگ بھگ بند کر دیا ہے۔ غریب لوگوں کے پاس روزمرہ کی چیزیں خریدنے کے لیے پیسہ نہیں ہے۔ کوئی کسی سے بات نہیں کر پا رہا ہے۔ انٹرنیٹ اور موبائل فون سروس مکمل طور پر بند ہے۔ زیادہ تر گھروں میں لینڈ لائن اب ہے ہی نہیں۔ اخبارات اور ٹی وی چینلز بھی پابندیوں کے شکار ہیں۔ مسجد میں کوئی نماز نہیں پڑھنے دی جاتی‘ حتیٰ کہ نمازِ جمعہ ادا کرنے سے بھی روک دیا جاتا ہے‘ کیوں کہ مودی سرکار کو یہ خوف لاحق ہے کہ کہیں بھیڑ غصے میں آ کر تشدد پر اتارو نہ ہو جائے۔ دہلی سے جانے والے قومی لیڈروں کو سری نگر ہوائی اڈے سے ہی واپس کر دیا جاتا ہے تاکہ وہ مقبوضہ کشمیر کے دگرگوں حالات سے آگاہ نہ ہو جائیں۔ بھارتی سپریم کورٹ نے کئی درخواستوں کے متعلق کہا ہے کہ سرکار وہاں جلد سے جلد حالات ٹھیک کرنے کے لیے اقدامات کرے۔ قریب قریب سبھی اخبارات اور ٹی وی چینلوں پر مانگ کی جا رہی ہے کہ کشمیریوں کو فری کیا جائے۔ مجھے لگتا ہے کہ اس مانگ پر عمل ہونا شاید اگلے ہفتے سے شروع ہو جائے گا۔ اقوام متحدہ میں ایک بار پاک بھارت باتوں کی جنگ ہو لے‘ اس کے بعد بھارت سرکار ضرور کچھ نرم پڑے گی۔ پاکستان کی فوج اور سرکار کو خوش ہونا چاہیے کہ کشمیریوں پر سے بین اٹھانے کی مانگ جتنے زوروں سے وہ کر رہے ہیں‘ اس سے زیادہ زوروں سے بھارت میں ہو رہی ہے۔ پھر بھی یہ سوال اٹھتا ہے کہ مودی سرکار نے اتنی سخت پابندیاں کیوں لگائی ہیں؟ میرے خیال میں اس لیے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں خون کی ندیاں بہتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتی۔ کشمیری لوگوں کو سوچنا چاہیے کہ ان کی زبان زیادہ قیمتی ہے یا ان کی جان؟ یہی سوال سب سے بڑا ہے۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ کشمیری لوگوں کو اپنا غصہ ظاہر کرنے کی اجازت ویسے ہی ملنی چاہیے جیسی کہ چین نے ہانگ کانگ کے لوگوں کو دے رکھی ہے۔ مظاہرے کرنے کا حق سب کو ہے۔ اب صحیح موقع ہے کہ جیل میں بند کشمیری لیڈروں سے بھارتی سرکار بچولیوں (وچولیوں) کے ذریعے بات کرنا شروع کرے۔