وزیر خزانہ سیتا رمن نے بڑی کمپنیوں پر ٹیکس کم کرنے کا اعلان کر کے بھارتی روپے اور سرکار کی ساکھ‘ دونوں کو بڑھت دلا دی ہے۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے معاملات نے بھارت کی اکانومی کو پہلے سے ہلا کر رکھا ہوا تھا پھر اس برس کے بجٹ نے کوڑھ میں کھجلی کا کام کیا۔ ملک کی کل پیداوار پانچ فیصد تک نیچے چلی گئی۔ لاکھوں لوگ بے روزگار ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ بڑی بڑی انڈسٹریاں اور تجارت اپنی آخری سانسیں گننے لگی ہیں۔ یہ مانا جانے لگا کہ ان گھڑ ٹیکس انتظام کے سبب غیر ملکی پیسہ بھی بھارت آنے سے ٹھٹکنے لگا ہے۔ ڈالر کے مقابل بھارتی روپیہ کمزور ہوتا چلا جا رہا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ بعض اقدامات کے سبب مودی سرکار کو کچھ فوائد حاصل ہوئے اور بیرونی ممالک میں بھارتی شہرت میں خفیف سا اضافہ ہوا‘ لیکن اقتصادیات کا حال یہی رہا تو مودی سرکار کی یہ سب سیاسی کامیابیاں دری کے نیچے سرک سکتی ہیں۔ اسی لیے سرکار نے کمپنیوں کو 1.45 لاکھ کروڑ روپے کی چھوٹ دے کر تاریخی قدم اٹھایا ہے۔ بھارت کی اکانومی کو پٹڑی پر لانے کے لیے گزشتہ اٹھائیس دن میں یہ پانچویں پچکاری چھوڑی گئی ہے۔ کمپنیوں پر ٹیکس تیس فیصد سے کم کر کے22 فیصد کر دیا گیا ہے۔ نئی کمپنیوں پر 29.12 فیصد ٹیکس کو گھٹا کر اب 17.01 فیصد کر دیا گیا ہے۔ اس سے سرکار کی آمدنی ضرور گھٹے گی‘ لیکن لوگوں کی نوکریاں محفوظ رہیں گی۔ بے روزگاری کم ہو گی‘ کمپنیوں کا منافع بڑھے گا‘ چیزوں کے دام کم ہوں گے‘ تجارت بڑھے گی‘ ٹیکس کا پھیلائو ہو گا‘ ٹیکس کے حوالے سے سرکاری نقصان کم ہو گا۔ بینکوں کا پیسہ واپس لوٹانے میں مقروضوں کو آسانی ہو گی تو وہ نئے قرض دینے میں بڑا دل دکھائیں گے۔ اس سے تجارت وغیرہ بڑھے گی۔ غیر ملکی کمپنیاں بھی بھارت میں پیسہ لگانے کے لیے پُرجوش ہو جائیں گی۔ بھارتی شیئر بازار میں جو آج اچھال آیا ہے‘ ویسا دس برس میں پہلے کبھی نہیں آیا۔ ڈالر کے مقابل بھارتی روپیہ مضبوط ہوا ہے‘ سونے چاندی کے داموں میں گراوٹ آئی ہے۔ اٹھائیس برس میں پہلی بار ٹیکس میں اتنا بنیادی سدھار ہو ا ہے۔ یہ بھول سدھار ابھی تو دیکھنے میں بہت اعلیٰ لگ رہا ہے‘ لیکن پہلے سے نقصان میں چل رہی سرکار کا جو نقصان اب ہونا شروع ہوا ہے‘ اگر کسی سبب اس کی بھرپائی نہیں ہوئی تو مودی کی مصیبتیں کافی بڑھ سکتی ہیں۔
مہاراشٹر اور ہریانہ میں کیا ہو گا؟
اب سے ٹھیک ایک مہینہ بعد مہاراشٹر اور ہریانہ میں چنائو ہوں گے۔ ان دونوں صوبوں میں پہلی بار بی جے پی کے وزیر اعلیٰ بنے تھے۔ گزشتہ پانچ برسوں میں ان صوبوں میں بھاجپا کے وزیر اعلیٰ دیویندر پھڑنویس اور موہن کھٹر نے اپنی حیثیت اتنی صاف ستھری اور جذبۂ خدمت والی بنائی ہے کہ ان کی جیت یا یوں کہیں کہ ان کے واپسی طے ہے۔ لیکن اتنا کافی نہیں ہے۔ اس بار ان دونوں صوبوں میں بھاجپا کی واضح اکثریت کے امکانات ہیں۔ ایسی فتح کے امکانات ہیں جیسی پہلے کسی بھی صوبے میں اب تک نہیں ہوئی ہے۔ اس کے کئی اسباب ہیں۔ پہلا سبب ہے مرکز میں بھاجپا سرکار کا پہلے سو دنوں میں زبردست جلوہ بننا‘ یہ بنا ہے کشمیر کو بھارت میں ملانے سے‘ تین طلاقوں کے معاملات سے اور بین الاقوامی ساکھ سے! اس ملکی کامیابی کا اثر ان صوبائی چناوئوں پر پڑے بنا نہیں رہے گا۔ دوسرا‘ مہاراشٹر اور ہریانہ میں کانگریس کی خراب حالت یا یوں کہیں کہ پوری اپوزیشن کی اتنی خراب حالت ہو رہی ہے‘ جتنی دیگر صوبوں میں کم ہی ایسا ہے۔ خاص اپوزیشن پارٹیوں کے خاص لیڈر اپنی پارٹیاں چھوڑ چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہو رہے ہیں۔ وہ بھاجپا کے ٹکٹ بھی مانگ رہے ہیں۔ کیوں مانگ رہے ہیں؟ کیونکہ وہ ہوا کے رخ کو پہچان گئے ہیں۔ تیسرا‘ اپوزیشن پارٹیاں کوئی متحد مورچہ بھی بی جے پی کے خلاف نہیں کھڑا کر پائی ہیں۔ اگر وہ سب ایک جُٹ ہو جائیں تو بھاجپا کے لیے واضح اکثریت پانا بہت مشکل ہو گا‘ لیکن آج بھارت میں سیاسی ماحول ایسا ہے کہ سب ایک جُٹ ہو جائیں تو بھی وہ بھاجپا کو شکست نہیں دے سکتیں۔ ہریانہ کی 90 سیٹوں میں سے 2014ء میں بھاجپا کو 47‘ انلو کو 19 اور کانگریس کو پندرہ سیٹیں ملی تھیں‘ لیکن 2019ء کے لوک سبھا چنائو میں بھاجپا نے دسیوں سیٹیں جیت لی تھیں۔ اس حساب سے اب اس ودھان سبھا چنائو میں اپوزیشن صرف بیس سے پچیس نشستوں تک سمٹ جائے تو کوئی تعجب نہیں ہو گا۔ مہاراشٹر میں 2014ء میں بھاجپا اور شیو سینا نے الگ الگ چنائو لڑا تھا۔ بھاجپا کو 122‘ شیو سینا کو 63 اور کانگریس کو صرف 42 نشستیں ملی تھیں۔ 2019ء کے لوک سبھا چنائو میں مہاراشٹر کی 48 نشستوں میں سے بھاجپا شو سینا اتحاد نے 41 نشستیں جیت لی تھیں۔ تو اب سوچیے اگر ان دونوں پارٹیوں بھاجپا اور شیو سینا اور کانگریس اور این سی پی میں ٹکر ہو گی تو کیا ہو گا؟ مہاراشٹر کی 288 سیٹوں میں سے کم از کم 200 نشستیں تو بھاجپا اتحادیوں کے ہاتھ لگیں گی ہی۔ وہ سوا دو سو یا اڑھائی سو بھی ہو جائیں تو کوئی حیرانی نہیں ہو گی۔ ان دونوں صوبوں میں ہونے والے چنائو بھاجپا کو مغالطے میں بھی ڈال سکتے ہیں۔ یہ ناممکن نہیں کہ ان میں ملنے والی غیر معمولی کامیابی بھاجپا سرکار کو اکانومی کی گراوٹ کی جانب سے لا پروا بنا دے۔
مودی کا دورہ اور ٹرمپ
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا حالیہ دورہ امریکہ ان کے گزشتہ سبھی امریکی دوروں سے زیادہ اہمیت والا مانا جائے گا‘ اس لیے کہ اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کرنے کے لیے سو یا سوا سو غیر ملکی سربراہ ہر برس نیویارک پہنچتے ہیں‘ لیکن ان میں سے زیادہ تر امریکی صدر سے ہاتھ تک نہیں ملا پاتے‘ جبکہ مودی نے دورے کے دوران ان سے کئی بار بات کی اور ملے۔ ہیوسٹن میں بھارتی نژاد امریکیوں کا جو بہت بڑا پروگرام ہوا‘ وہ میری نظر میں تاریخی تھا‘ کیونکہ پہلی بات تو یہ ہے کہ امریکہ کا کوئی بھی لیڈر اتنا بڑا پروگرام اپنے دم پر نہیں کر سکتا۔ دوسری بات یہ کہ یہ شاید پہلا موقع ہے‘ جب کوئی امریکی صدر کسی دوسرے ملک کے وزیر اعظم کے ساتھ اس طرح جلسے میں شرکت کر رہا تھا۔ تیسری بات یہ ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے بھاشن میں دہشت گرد‘ اور سرحدی دفاع کے سوال اٹھاکر جلسہ میں موجود پچاس‘ ساٹھ ہزار لوگوں کا ہی نہیں‘ بھارت اور دنیا کے کروڑوں ٹی وی دیکھنے والوں کا دل جیت لیا۔ امریکہ میں رہنے والے جو بھارتی کٹر ڈیموکریٹ ہیں اور ٹرمپ کا مذاق اڑاتے رہتے ہیں‘ وہ بھی فدا ہو گئے تھے۔ دونوں لیڈروں کے بھاشن سن کر ایسا لگا کہ وہ اپنے اپنے چناوی جلسے میں بول رہے ہیں۔ مودی نے ٹرمپ کے دوبارہ صدر بننے کی بھی حمایت کر دی۔ مودی نے لگے ہاتھ سبھی غیر ہندی زبان والوں کو بھی گدگدایا۔ انہوں نے کئی بھارتی زبانوں میں بول کر بتایا کہ 'بھارت میں سب اچھا ہے‘ وہ ہے یا نہیں ہے‘ یہ الگ بات ہے لیکن بھاجپا صدر امیت شاہ کے ہندی والے بیان کو لے کر غلط فہمی پھیلانے والے کئی بھارتی لیڈروں کے گال پر مودی نے پیار سے تھپڑ بھی لگا دیا۔ پاکستان کا نام لیے بنا مودی اور ٹرمپ نے یہ واضح کر دیا کہ عمران خان کے اس امریکی دورے کے کیا اثرات ہوں گے۔ ہاں‘ خبریں کہتی ہیں کہ ہیوسٹن کی جلسہ گاہ کے باہر پاکستانی نژاد ہزاروں امریکیوں اور سکھ (خالصتانی) حامیوں نے نعرے بازی بھی کی۔ اس ہائوڈی پروگرام کے علاوہ مودی نے وہاں کشمیری پنڈتوں‘ سکھوں اور ووہرہ سماج والے لوگوں سے بھی ملاقات کی۔ علاوہ ازیں مودی کے ہیوسٹن میں رہنے کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ بھارت کی گیس اور تیل کی کھپت کے لیے امریکہ کی سترہ بڑی کمپنیوں کے سربراہوں سے ملاقات کی گئی۔ ایک اور بھی کام ہوا ہے کہ بھارتی کمپنی پیٹرونیٹ اب ہیوسٹن میں 2.5 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گی تاکہ اسے اگلے چالیس برس تک پچاس لاکھ میٹرک ٹن گیس ہر برس امریکہ سے ملتی رہی۔